Zamana: Urdu Afsana by Muhammad Talha
وہ پہاڑ کے دامن میں واقع ایک غار میں رہتا تھا۔وہ کب سے یہاں آباد تھا ؟یہ کسی کو پتہ نہیں، شاید اسے خود بھی اس کا علم نہ ہو۔زندگی کی پھرتی کبھی کبھی انسان کو اس بات پر اکسا جاتی ہے کہ اسے مشینری دنیا سے اٹھا کر ایک ایسی جگہ لا کر رکھ دیتی ہے جہاں اردگرد کی ساری مادی چیزیں یوں لگتیں ہیں کہ گویا وہ ہزارسالوں کے مسلسل سفر کے باوجود بھی صرف کئی میٹر کا سفر طے کرچکی ہو ۔شاید یہ زندگی کا وہ رخ ہے جو قدیم رنگ لیے رہتا ہے ۔ وقت کی گردش اسے بہت کم ہی سنوارتی ہے اس کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ یہ مشینری دنیا سے کافی کنارے پر ہوتا ہے اور اسے مشینری دنیا کی باد سموم بہت کم ہی تبدیل کرتی ہے
انسان کے تصور میں بہت ساری چیزیں گردش کرتی رہتی ہیں۔وہ اس دنیائے فانی میں اوپر کی اور بڑھنے کی کوشش کرتا ہے مگر یہ ایک اٹل حقیقت ہے کہ ہر چیز کا انجام انسان کو اس نقطے پر لے آتا ہے جہاں سے اس نے وہ سفر شروع کیا ہو۔انتہا بظاہر خود کوئی منزل نہیں،جب کبھی انسان آخری حد پر پہنچتا ہے گویا وہ دوبارا نقطۂ آغاز پر پہنچ جاتا ہے۔وہ بھی ان سارے منازل کو طے کرنے کے بعد آج پھر سے اسی قدیم چیزوں کے درمیان رہ رہا تھا۔ہماری لیے قدامتی یا پرانی چیزیں کوئی معنی نہیں رکھتیں، مگر اس کے لئے ضرور رکھتی تھیں، کیونکہ اس کا خیال تھا کہ ’’قدامت میں بھی حسن‘‘ ہے۔
جب انسان زندگی کے پیچ و خم ،اتار چڑھاؤ اور تند و تیز معاملات سے تنگ آجاتا ہے یا وہ ان سب چیزوں کو پار کرکے ایک انتہا پر پہنچ جاتا ہے تو ایک ایسی جگہ پہنچنے کی تگ و دو کرتا ہے جو کہ دنیا کی برق رفتاری سے قدرے فاصلے پر ہو۔ وہاں پہنچ کر وہ اپنی راہ ،جو اس نے طے کی ہوتی ہے، اس کا بچپن اور جوانی جو اس نے گزاری ہوتی ہے، اس پر ایک نگاہ ڈالتا ہے اور اپنے خون کی روشنائی سے ،یاداشت کے قلم سے ، زبان ،ہاتھ اور چہرے غرض پورے جسم کے صفحوں پر ایک کتاب لکھ ڈالتا ہے، جس میں اس کی زندگی کی ساری یادیں،تجربے ، نصیحتیں،غلطیاں قطار در قطار تحریر ہوتی ہے۔یہ کتاب ہر شخص کو سبق دیتی ہے ،زندگی کے طرز کا ،غلطیوں کا،پیچ و خم کا،کرب و ملال کا، جوش و جذبے کا ،پند و نصائح کا ، وقت اور موت کا اور ۔
سورج ڈھلنے میں ابھی کافی وقت تھا ۔آسمان پر ابر چھایا ہوا تھا،میں معمول سے ہٹ کر آج اس پہاڑی کی جانب چلنے لگا جس پر اس کی کمین گاہ تھی ۔جب میں اس غار کے قریب پہنچا تو سورج شاید ڈھل چکا تھا کیونکہ بادلوں کی دبیز چادر نے سورج کو اپنی اوٹ میں رکھا تھا
۔وہ غار کے اندرکسی سوچ میں گم بیٹھا ہوا تھا۔مجھے دیکھ کر وہ کچھ حیران سا ہوا ،شاید اس لیے کہ کبھی کسی انسان نے اس غار کی جانب آنے کی زحمت نہیں کی تھی۔میں اس کے قریب بیٹھ گیا ۔غار کے اندر وہی قدیم طرز کا ایک چراغ تھا جو ٹمٹما رہا تھا۔چاروں طرف خاموشی کا راج تھا۔بارش شروع ہو چکی تھی اور فضا میں موجود خاموشی کو توڑ رہی تھی۔میں نے اس کی اور دیکھا اور پوچھا کہ زندگی کیا ہے؟۔
عجیب طرز سے مجھے گھورنے لگا، گویا وہ ان چیزوں کی گرفت سے پہلے ہی نکل چکا ہو اور کسی ایسے مقام پر ہو جہاں یہ سوالات کوئی معنی نہیں رکھتے۔اس غار میں چار سو یوں سکوت اور خاموشی تھی گویا یہاں کوئی انسان ہی نہ ہو مگر اس سکوت میں خلل آرہا تھا ایک ایسی چیز کا جو اپنے اندر جذبات اور احساسات کا ایک پورا جہان رکھتا تھا۔
’’دنیا کے لوگوں کی مثال اس بارش کی سی ہے‘‘ ،وہ بولنے لگا۔وہ چاہتے ہیں کہ اس دنیا میں اودھم مچائے اور دنیا میں ہر سمت ایک ایسی زندگی کا وجود ہو جو ہر لحاظ سے تیز اور مادی چیزوں سے بھری ہو۔قدیم زمانے کو آج ایک ایسے طرز سے دیکھا جاتا ہے گویا وہ ایک ایسا زمانہ ہو جہاں زندگی کی کوئی سہولت نہ ہو ،جہاں بیماری کا کوئی علاج نہ ہو ،جہاں زندگی کی رفتار انتہائی سست ہو۔وہ خاموش ہوگیا اور میں اس چراغ کی اور دیکھنے لگا جو دنیا کی ہر چیز سے بے خبر جلملا رہا تھا
۔وہ کچھ وقت کے بعد دوبارا مخاطب ہوا ’’پرانے زمانے کی نسبت آج کا زمانہ کافی ترقی یافتہ ہے اور کافی سہولیات موجود ہے مگر، یہ آلات ان مسائل کو حل کرنے کے لئے بنائےگئے ہیں، جو پہلے وجود نہیں رکھتے تھے۔ اگر ہم بہت ترقی کریں خواہ ترقی کے اس نہج پر پہنچ جائے جہاں آگے کا کوئی راستہ نہ ہو پھر بھی ہم وہی نقطے پر ہیں جہاں پہلے موجود تھے کیوں کہ انتہا ہی ابتداء ہے۔اگر انسان اتنا علم حاصل کرلے کہ ہماری سوچ کے مطابق اس کا علم مکمل ہو پھر بھی وہ ایک ایسی جگہ کھڑا ہے کہ وہ کچھ بھی نہیں جانتا۔ہم دونوں کھڑے ہوگئے اور وہ غار کے دروازے کی جانب چل دیا۔ میں نے بھی اس کی پیروی کی اورہم غار کے دروازے کی اندرونی سمت کھڑے ہوگئے۔
بارش نے سامنے موجود ساری بستی کو اپنی لپیٹ میں لیا ہوا تھا،بارش کی تند ہوا جب ہماری جانب آتی تو یوں محسوس ہوتا جیسے وہ اپنے اندرایک عجیب طرز کی خوشبو سموئی ہوئی ہے،وہ خوشبو تھی ہزار سالو ں اور صدیوں کی جو یوں لگتی جیسے پوری دنیا کی ہیت تبدیل ہونے کے با وجود یہ آج بھی اپنی اسی جگہ ساکت ہے۔ہر طرف اندھیرا تھا ۔اس اندھیرے میں کچھ روشنیاں جلملا رہی تھیں،یہ روشنیاں ان گھروں میں موجود بتیوں کی تھی جو اس گاؤں میں موجود تھے۔یہ منظر بہت عجیب منظر تھا میرے اندر ایک عجیب احساس ابھر رہا تھا،یہ احساس اس قدیم وقت کا تھا جسے ایک ایسی نظر سے دیکھا جاتا ہے گویا اس دور میں انسان نہ بستے ہوں۔وہ میری حیرانگی کو بھانپ گیا اور مسکراتے ہوئے گویا ہوا۔
خالق ذولجلال نے رات آرام اور سکون کے لئے تخلیق کی ہے مگر ہم اپنے ہاتھوں اپنے آرام و سکون کے درپے ہوگئے ہیں۔ہم نے اس قدرتی تخلیق کو جو کہ آرام کے لئے متعین تھا اوروہاں روشنی کا کوئی وجود نہ تھا اس طرز سے تبدیل کرلیا کہ اسے دن کی طرح منور کرکے اپنا چین کھو دیا۔قدرت نے ہر چیز ایک طرز سے متعین کی ہے ہر چیز کا ایک طریقہ ہے ،جب کبھی ہم اس قدرتی طریقے سے انحراف کریں گے ہمارے لئے ہمیشہ مسا ئل جنم لیتے رہے گے۔یہ سچ ہے کہ وہ مسائل عجیب طرز کے ہوتے ہیں ،ہمیں یوں نہیں لگتا کہ گویا وہ ہماری زندگی میں مسائل کو جنم دے رہے ہیں مگر یہ ایک عجیب طرز کے مسا ئل ہیں یہ زندگی کے سکون کو، زندگی کے سکھ کو اور زندگی کی خوبصورتی کو درپردہ کوکھلا کردیتے ہیں۔پھر زندگی کے اس ڈگر پر جہاں انسان بے بس ہوجاتا ہے اور صرف موت کے انتظار میں ہوتا ہے یہ چیزیں یو ں لگتی ہیں کہ گویا ان کی وجہ سے ہی اس کی زندگی ویران اور بنجر تھی۔عجیب بات یہ کے اسے یہ احساس ان ساٹھ ستر سالوں کے بجائے زندگی کے آخری کچھ لمحوں میں ہوجاتا ہے مگر افسوس کے اب کام کا نہیں بلکہ نتیجے کا وقت ہوتا ہے۔ہائے ہائے زندگی! ۔سکوت کی ایک گنگور گھٹا چھاگئی
زمیں سے سینکڑوں فٹ بلند پہاڑ پر میری سوچ کی لہریں انگھڑایاں لینے لگیں کہ کیا یہ زندگی ہے ،اتنا ساراعمل اور آخر میں فقط یہ کہ میری زندگی ہمیشہ کوکھلی رہی۔میں غار سے نکل پڑا بارش کے قطروں نے چند لمحوں میں میرے سارے کپڑے گیلے کردیے مجھے شاید بارش کا کچھ احساس نہ تھا ،مجھے یوں لگ رہا تھا کہ گویا بارش کے یہ قطرے میرے اندر کی جذباتی دنیا کو دھو رہے ہو۔بارش تھم گئی، مطلع صاف ہوگیا اور پھر کچھ یوں ہوا کہ ۔۔۔
باقی پھر کبھی۔۔
ہاں یہ ضرور ہے کہ جذبات اور تیزی کہ بعد احساسات اور آہستگی کا سماں چھا جاتا ہے۔۔۔۔۔
دوڑ پیچھے کی طرف اے گردش ایام تو!
محمد طلحہ ابرار