Ussay Bhool Jaa: Urdu Article by M Nadeem Ahmad
Ussay Bhool Jaa: Urdu Article by M Nadeem Ahmad
اسے بھول جا – تحریر: محمد ندیم احمد
انسان کو اسکی توقعات لے ڈوبتی ہيں۔” یہ بات ہم ہميشہ سے سنتے آرہے ہيں مگر مجال ہے کبھی اس جملے کی گہرائی ميں اترنے کی کوشش کی ہو۔ زوال تب آتا ہے جب ہم الفاظ کو صرف الفاظ کی حد تک ہی یاد رکھتے ہيں بلکہ یاد بھی کہاں رکھتے ہيں۔ ہم ان الفاظ کو اپنے دل کے داخلی دروازے کا پاس تک نہيں بھٹکنے دیتے۔ اور پھر لوگوں سے وابستہ اميدوں کو ادھورا دیکھ کر شکستہ دل لے کر بيٹھ جاتے ہيں۔ سنجيدگی یہ نہيں کہ لوگ آپکو کتنا دانا اور عقل مند سمجھتے ہيں۔ سنجيدگی یہ ہے کہ آپ اپنے آپ کو کتنا سمجھتے ہيں۔ سنجيدگی اپنے ذات کو پہچاننے کا نام ہے گویا ميں جو سنتا ہوں جو کہتا ہوں اسے مانتا بھی ہوں یا نہيں؟ سنجيدگی اپنے مقصد ُڑے رہنے کا نام ہے۔ ہم اپنے اس مقصد سے دور کب ہوتے ہيں جب جسے ج ہماری ذات اور مقصد کے درميان توقعات جنم لے ليتی ہيں۔ ان توقعات کی بربریت کا شکار وہی لوگ ہوتے ہيں جو من کے کچے ہوتے ہيں اور جذبات ميں بہہ جانے والے ہوتے ہيں۔ وہ کہ جنہيں خود سے بڑھ کو دوسروں پر ن کے ُ ا ُ ن کاساتھ دیں گےُ ا ُ اعتماد ہوتا ہے اور وہ سوچتے ہيں کہ لوگ ہميشہ ا ليےآسانياں پيدا کریں گے۔
آپکی صرف یہی سوچ آپکی زندگی تباہ کر کے رکھ دیتی ہے۔ آپ بھی تو ایک جان ہيں آپ کو خود پر کيوں بھروسہ کيوں نہيں؟ جو آسانياں آپ خود اپنی ذات کے ليے پيدا کر سکتے ہيں وہ کوئی اور نہيں کر سکتا۔ کبھی خود سے بھی پيار کيجيے۔ کبھی اپنے آپ سے مدد مانگيے اور دیکھيے کيا جواب ملتاہے۔ رہی بات توقعات کی تو انسانی فطرت ہے کہ وہ ہميشہ آپکی حاليہ صورتحال پر نظر ڈالتی ہے۔ آپ کے دل ميں کسی کے ليے کتنے ہی پاکيزہ اور خالص جذبات کيوں نہ ہوں وہ تب تک کوئی معنی نہيں رکھتے جب تک آپ دوسروں کے معيار پر پورا نہيں اترتے یعنی انکی مفاد پرستی کی جھولی کو اپنے دریا دلی سے بھر نہيں دیتے۔ اگر آپ ایسا کرنے سے قاصر ہيں تو جائيے اور اپنے ان خالص جذبات دیتے۔ اگر آپ ایسا کرنے سے قاصر ہيں تو جائيے اور اپنے ان خالص جذبات کو اندھيری مٹی کے بوجھ تلے زندہ درگور کر دیجيے کيونکہ دوسروں کوآپ کے ایسے ناکارہ جذبات سے کوئی سروکار نہيں۔ ساری زندگی لوگوں کا بھلا کرتے رہيے، صرف ایک غلطی سرزد ہونے کی دیر ہے لوگ آپکی ساری وفائيں بھول جائيں گے ان کو مٹی ميں ملا دیں گے۔ اور یہ وہ وقت ہوتا ہے جب آپ چاہ کر بھی اپنے آنسوؤں کے بند کو ٹوٹنے سے بچا نہيں سکتے۔ اور آنسوؤں کے اس سيلاب کا ریلہ کسی اور کو نہيں بلکہ آپکی اپنی ذات کو بہا کر لے جاتا ہے اور غرق کر کے چھوڑتا ہے۔ پھر وہ لوگ جو آپ کو بہت عزیز تھے، آپکو اس مجدھار کے چنگل سے خلاصی دلانے کی کوشش تک نہيں کرتے۔ اس دن آپ کو احساس ہوتا ہے کہ ایک آپ ہيں اور ایک االله کی ذات اور یہ کہ صرف االله کا آپ کے ساتھ ہونا ہی آپ کے حق ميں کتنا بہتر ہے۔ یاد رکھيں کہ لوگ ہماری زندگی مين مسافر بن کر آتے ہيں۔ کچھ ً چلے جاتے ہيں کچھ دیر سے جاتے ہيں۔ فرق صرف اتنا ہے کہ دیر سے
فورًا جانے والوں سے وابستگی سی ہو جاتی ہے اور ان سے بچھڑنے کا خيال ً یہ بھی آۓ تو دل ميں غم کی ایک لہر سی ڈور جاتی ہے مگر اس کا قطعًا
مطب نہيں کہ اس مہمان کے جانے پر اپنے ہوش و حواس ہی کھو بيٹھيں سی ایک شخص پر انحصار کرتے تھے۔ نہيں ُ ا ُ اور یہ ظاہر کریں کہ آپ صرف ا
ِ اول سے ہی ہميں اک بات دل پر نقش کر لينی چاہيے بالکل بھی نہيں۔
روِز کہ ایک مسافر کا کام آپ کے پاس آنا، کچھ دیر ٹھہرنا اور پھر چلے جانا ہے۔ ہميں سمجھنا چاہيے کہ ہر کسی کی اپنی ایک منزل ہے۔ اس منزل کو پانے کی خاطر وہ بہت سے لوگوں سے ملتا ہے، انکی مدد ليتا ہے اور نہی لوگوں ميں ہوتا ہے جو ایسے اُ پھر چلا جاتا ہے۔اور ہمارا شمار بھی ا
ِ سفر انہيں راستے ميں مل جاتے ہيں۔ تو یہ ایک پاگل پن مسافروں کے دوراِن ہی ہوگا کہ کسی کو اس کی منزل پر پہنچنے سے روکا جاۓ۔ آخر ميں یہی کہوں گا زندگی جينے کا ایک چھوٹا سا فارمولا ہے: “جو پاس ہے اسے یاد رکھ۔۔۔جو چلا گيا اسے بھول جا”