غزل – قمر حمید مرزا
بنا ہے فلسطیں نشانہ لہو کا
ہے ظالم کو ملا بہانہ لہو کا
تباہی و بربادی ہے شہر بھر میں
مگر خاک اندر خزانہ لہو کا
نہ لفظِ ستم سے بیاں ہو سکے گا
کہ گزرا ہے کیونکر زمانہ لہو کا
جہاں زندگی تھی وہاں موت ہے اب
ہوا بھی ہے گاتی ترانہ لہو کا
قمر غیر سے کوئی شکوہ نہیں ہے
خموشیِ یاراں فسانہ لہو کا