Poshaak-e-Zindagi: Urdu Afsana by Hira Ishfaq
Poshaak-e-Zindagi: Urdu Afsana by Hira Ishfaq پوشاکِ زندگی اتنی حسین زندگی کے دیکھو تم نے کیسے بخیے ادھیڑ دیے ہیں ہوا کا سیاہ جھونکا...
Poshaak-e-Zindagi: Urdu Afsana by Hira Ishfaq پوشاکِ زندگی اتنی حسین زندگی کے دیکھو تم نے کیسے بخیے ادھیڑ دیے ہیں ہوا کا سیاہ جھونکا...
Ijlaasi Roohain: Urdu Satire by Ali Hassan Owais [BA Hons Urdu] اجلاسی روحیں (علی حسن اویس) ماؤں کے شہزادوں کو بے حال کرنے کے...
Suno Tum Aisa Karo Ke: Urdu Nazm by Dr Ayesha Ashraf سنو! تم ایسا کرو کہ مجھے جنگلوں میں لے چلو میرا دم گھٹتا...
Baarish: Urdu Mazmoon by Muhammad Sobaan بارش مجھے بارش سے کبھی بھی انسیت نہیں ہوئی ۔ مگر نہ جانے لوگ کیسے اپنے رومانوی جذبات کو...
ستاروں سے آگے – نادیہ عنبر لودھی, اسلام آباد جدیدیت اور مابعد جدیدیت کی ادبی تحریکیں مغرب سے مستعار شدہ ہیں ہمیشہ کی طرح مشرق...
ہمارے معاشرے میں بیٹی کی شادی کا سوچتے ہی جو خیال سب سے پہلے ہمارے ذہن میں آتا ہے وہ ہے جہیز _آگر ہم یوں...
بیٹی ہوں میں۔۔ اور یہی میری طاقت ہے دنیا جہاں جدید تحقیقات پر مصروف عمل ہے۔ خلا کا سفر طے کرنے کے منصوبے بجلی سے...
زندگی اور سفر زندگی کا سفر جو گزر رہا ہے اور جو گزر گیا۔۔ کیا شرط ہے کہ اچھا ہی گزرتا؟ اچھا ہی گزرے گا؟...
سوچ کیا ہے اور سمجھ کیا ہے؟ کیا یہ دونوں الفاظ مشترکہ ہیں یا مختلف۔۔۔؟ کیا دونوں ایک دوسرے سے منسلک ہیں۔۔۔یا نہیں؟ سوچ۔۔۔۔ یہ...
ہر فرد ہے ملت کے مقدر کا ستارہ علامہ اقبال کا مصرعہ پڑھتے ہی نظر خودبخود ماضی اور حال کے اوراق کو کنگالنا شروع...
Kaya Suhbat Asar Rakhtee Hai? Urdu Article کیا صحبت اثر رکھتی ہے؟ تعلیم اورتربیت دو مختلف چیزیں ہیں، تعلیم کا تعلق علم سے ہے جبکہ...
ساختیات پس ساختیات اور ہم ————————— اردو ادب میں نئے تنقیدی رجحانات وقت کی ضرورت تو ہیں لیکن یہ اردو ادب کے طالب علموں تک...
فروا —- وہ بھولی بھالی شکل وصورت والی معصوم بچی تھی جس کی عمر آٹھ سال تھی اس کا نام فروا تھی -اس کے والدین...
اختری (افسانہ ) اختری نے گھر کا کام ختم کیااور سفید تکیہ پوش پر رنگبرنگے چھوٹے چھوٹے پھول کاڑ ھنے لگی – اس کےہاتھ تیزی سے چل رہے تھے۔ اسے یہ کام جلدی مکمل کرناتھا اس کے بعد بستر کی چادرمکمل کر نا تھی – اختری یتیمتھی اس کا بچپن بہتکسمپرسی کے عالم میں گزراتھا –باپ اس کی پیدائش کےچند ماہ بعد چل بسا ۔ ایک بڑی بہن تھی اور ایک ماں –ماںمحنت مزدوری کر کے اندونوں کو پال رہی تھی –اکثرگھر میں کھانے کے لیےصرف روٹی ہوتی جب وہ ماںسے پوچھتی اماں !روٹی کسکے ساتھ کھائیں ؟ ماں جواب دیتی :منہ کے ساتھ۔ جیسے تیسے کرکے اس کابچپن گزر گیا –وہ بھی ماں کاہاتھ بٹانے کو سلائی کڑھائیکرنے لگی –لیکن یہ چادر اورتکیے اس کے جہیز کے تھےان پر لگے ہر ٹانکے میں اسکے ارمان پروۓ ہوۓ تھے ۔ان کے رنگوں میں اس کےخواب سجے تھے ۔کنواریآنکھوں میں سجے ایکشہزادے کے خواب – جس کاساتھ اس کی زندگی کو دلکش بنادے گا۔ اس کا تعلق مشترکہ ہندوستانکے گاؤں گورداسپور سے تھا–یہ جنوری ۱۹۴۷کا زمانہتھا – جنگ آزادی کی شدتمیں اضافہ ہوتا جارہا تھا –اکثرگلی میں سے گزرتے جلوسوںکے نعرے سنتی اختریمستقبل کے اندیشوں سےلاعلم تھی –اس کی عمر چودہسال تھی –اس نے ہوشسنبھالنے کے بعد صرف گھرکی چار دیواری دیکھی تھی–سیاست کی موجودہ صورتحال سے وہ بے خبر تھی–کبھی اماں سے پوچھتی کہجلوس کیوں نکلتے ہیں تو وہجواب دیتی :یہ انگریز سرکارسے آزادی مانگتے ہیں – آزادی کیا ہوتی ہے یہ سوالاس کے لیے عجیب تھاکیونکہ وہ ان پڑھ تھی –قرآناور نماز کی تعلیم ماں نے دیتھی اس کے نذدیک دین کاعلم ہی کل علم تھا –دنیاویعلم سے وہ بے بہرہ تھی –دو ماہ بعد اس کی شادی طےتھی – شادی کا دن آپہنچا –ماں نےاپنی حیثیت کے مطابق اسےرخصت کردیا – سسرال میںساس ،شوہر اور دیور تھے–نئی نئی شادی میں دہکتےجاگتے ارمانوں کا ایک جہانآباد تھا –یہ دنیا اتنیخوبصورت تھی کہ وہ ماضیکی سب محرومیاں بھول گئی–اس کا شریک ِحیات اس کےمقابلے میں بہت بہتر تھا پڑھا لکھا اور وجیہہ–اس کاشوہر سرکاری ملازم تھا –وہایف۔اے پاس تھا او ر محکمہڈاک میں کلرک تھا –خوابوںکے ہنڈولے میں جھولتے چندماہ لمحوں کی طرح سے گزرگئے – ملک میں فساداتپھوٹ پڑے –حالات دن بدنخراب ہوتے جارہے تھے –انکے سارے خاندان نے ہجرتکی ٹھانی –ضرورت کے چندکپڑے گھٹریوں میں باندھے–وہ جہیز جو اس نے بہت چاؤسے بنایا تھا حسرت بھرینظر اس پر ڈالی اور رات کیتاریکی میں سسرال والوں کےساتھ گلی کی طرف قدم بڑ ھادیے –وہ لوگ چھپتے چھپاتےشہر سے باہر جانے والیسڑک کی طرف قدم بڑ ھنےلگے – دبے پاؤں چلتے چلتےوہ شہر سے باہر نکلے–آبادی ختم ہوگئی تو قدموںکی رفتار بھی تیز ہو گئی–درختوں کے اوٹ میں ایکقافلہ ان کا منتظر تھا – جسمیں زیادہ تر خاندان ان کیبرادری کے تھے –قافلےچلنے میں ابھی وقت تھاکیونکہ کچھ اور خاندانوں کاانتظار باقی تھا – اس کی ماں اور بہن پہلے ہیپہنچ چکی تھی – اگست کامہینہ تھا ساون کا موسم تھاگزشتہ رات ہونے والی بارشکی وجہ سے میدانی علاقہکیچڑ زدہ تھا –اسی گرمی ،حبس اور کیچٹر میں سب لوگڈرے سہمے کھڑ ے تھے–گھٹریاں انہوں نے سروں پہرکھی ہوئی تھیں اتنے میںگھوڑوں کے ٹاپوں کی آوازسنائی دینے لگی –اللہ خیرکرے –قافلے والوں کی زبانسے پھسلا –چشم زدن میںگھڑ سوار قافلے والوں کےسروں پر تھے – ان کےہاتھوں میں کرپانیں اورسروں پر پگھڑیاں تھیں یہسکھ حملہ آور تھے –کاٹ دومُسلوں کو کوئی نہ بچے –صدابلند ہوئی –لہو کا بازار گرمہوگیا مسلمان کٹ کے گرنےلگے ان کے پاس نہ تو ہتھیارتھے نہ ہی گھوڑے – جان بچاکے جس طرف بھاگتے کوئیگھڑ سوار گھوڑے کو ایڑلگاتا اور سر پہ جا پہنچتا – اختری کا شوہر اور دیور بھیمارے گئے ۔چند عورتیں رہگئی باقی سب مار ے گئے –ان عورتوں کو گھڑ سواروںنے اپنے اپنے گھوڑوں پہ لادااور رات کی تاریکی میں گمہوگئے –شوہر کو گرتا دیکھکے اختری ہوش وحواس گمکر بیٹھی اور بے ہوش ہوگئی–رات گزر گئی دن کا اجالا نکلاگرمی کی شدت سے اختری کوہوش آیا تو چاروں طرفلاشیں بکھری پڑی تھیں اوروہ اکیلی زندہ تھی –اختری نےواپسی کے راستے کی طرفجانے کا سوچا اور شہر کیطرف چل پڑی –وہ ہندوؤں اورسکھوں سے چھپتی چھپاتیاپنے گھر کی طرف جانے لگی– گلی سے اندر داخل ہوئی توگھر سے دھواں نکلتے دیکھا– دشمنوں ے گھر کو لوٹ کےبقیہ سامان جلایا تھا نہ مکینرہے نہ گھر – وہ اندر داخلہوئی اور ایک کونے میں لیٹگئی – گزرا وقت آنکھوں کےسامنے پھرنے لگا اس کیآنکھوں سے آنسو گرنےلگے وقت نے کھل کے رونےبھی نہ دیا –زندگی کیا سے کیاہوگئی –انہی سوچوں میںغلطاں تھی کہ قدموں کی چاپسنائی دی –آج یہاں جشنمناتے ہیں – تین ہندو ہاتھ میںشراب کی بوتل لیے گھر میںداخل ہوۓ – اختری نے اردگرد نظر دوڑائی اپنی حفاظتکے لیے کوئی چیز نظر نہ آئی–وہ برآمدے میں بیٹھ گئے اورشراب پینے لگے اختری اندرکمرے کے دروازے کی درزسے انہیں دیکھنے لگی –انمیں سے ایک اٹھا اور بولا:تھک گیا ہوں آرام کرلوں ۔وہاختری والے کمرے کی طرفبڑ ھا اختری پیچھے ہٹی اورکسی برتن سے جا ٹکرائ۔اندر جانے والے نے چاقونکال لیا – شور کی آواز سےباقی دونوں بھی اٹھ کھڑےہوئے :کوئی ہے –یہاں کوئیہے – لڑکی ہے :پہلے والا بولا باقی دو کے منہ سے نکلا –لڑ کی پہلے والا ہاتھ میں چاقو لےکر اختری کی سمت بڑ ھااختری پیچھے ہٹتے ہٹتےدیوار سے جا لگی باقی دوبھی پہنچ گئے ایک نے چھپٹامار کے اختری کو پکڑ نے کیکوشش کی ۔اختری نے چاقووالے سے چاقو چھینا اورچشم زدہ میں اپنے پیٹ میںمار لیا ۔خون کا فوارہ ابل پڑا–اختری نیچے بیٹھتی گئیفرش پہ خون پھیلنے لگا اوراس کی گردن ڈھلک گئی مر گئی سالی: اُن میں سےایک کے منہ سی نکلا – — نادیہ عنبر لودھی اسلام آباد
Umaira Ahmed’s is considered by critics as one of the finest Urdu novelists and drama writers of our times. With exceptionally popular novels such...
مادریزبانیں – نادیہ عنبر لودھی انسان کی تہذیب و معاشرت اس کی زبان سے گہرا تعلق رکھتی ہے ۔ جیسے جیسے انسان تہذیب سے آشنا ہوتا گیا...
What is Life: Urdu Article by Junaid Zafar اس دنیا کے مشکل ترین سوالوں میں سے ایک سوال یہ ہے کہ زندگی کیا...
قبرستان ۔۔۔۔۔ کراچی میں واقع گورا قبرستان مشہور و معروف ہے ۔ اس شہر میںایک یہودیوں کا قبرستان بھی ہے ۔ پاکستان بننے سے پہلے...
“دجال کون ! who is Antichrist? “نادیہ عنبر لودھی کے قلم سے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ زمین اپنی پیداوار ایک تہائ کم کر دے گی۔آسمان سے بارشوں کاسلسلہ...
Shahabnama Ka Aik Baab Jo Likha Na Gaya: By Prof. Fatah Muhammad Malik Shahnama became an instant sensation with its candid view of history of...
جیسی رُوح ویسے فرشتے ——————- انسان کا دنیا میں آنا حکم ربی ہے ۔ جس میں اس کا ذاتی ارادہ شاملنہیں ہے ۔ زندگی گزارنے کے لیے وہ مقدر کا پابند ہے ۔ آزادی ارادہاس کی محدود ہے ۔ گلے میں صلیب مقدر ہے ۔ پھر جنت کا حصولکیسے ممکن ؟ ہر انسان کے سامنے دو راستے ہیں ۔ پہلا قدم وہ خیر یا شر کے تابعاٹھاتا ہے ۔ پھر اس راستے پہ آگے بڑ ھتا ہے ۔ اب اگر برائی کا راستہتو ضمیر کی آواز سنتا ہے کچھ پل کے لیے سوچتا ہے پھر یا توواپس پلٹ آتا ہے یا پھر سنی ان سنی کر کے آگے بڑ ھ جاتا ہے ۔آہستہ آہستہ اس کے قدموں میں روانی آجاتی ہے ۔ پھر وہ ایک ایسےمقام پر پہنچ جاتا ہے جہاں سے پلٹنا اسکے لئے ناممکن ہو جا تا ہے ۔ دنیا کیرنگینیاں اسے اپنے دامن میں سمیٹ لیتی ہیں ۔ موت سے آگاہ تو ہےلیکن دلی دور است ۔ لیجئیے ! اچانک بج گیا موت کا نقارہ ۔ اس کو کسی جان لیوا مرض نے آگھیرا ۔ ستر اسی سال دنیا پہ گزار کر بچوں کے بچوں کیشادیاں کرکے بھی جینے کی خواہش آخر ہے کیوں ؟ کیونکہ آخرت کی تیاری نہیں ہے کیونکہ مال و متاع گھر اور اپنےکمرے سے بے حد محبت ہے ۔ اب آہستہ آہستہ بھولے بسرے گناہیاد آنے لگے ۔ اپنے اعمال منہ چڑانے لگے ۔ اب قبر کی وحشتڈرانے لگی ۔ اب آنکھ سے آنسو بہنے لگے لیکن وقت ختم ہو نےوالا ہے ۔ اب مدت نہیں ہے باقی ۔ بیماری جھیلتے جھیلتے شکل بگڑ گئی ۔ جسم کا گوشت گُھل گیا ۔رنگ جل گیا ۔ پہچانے سے نا پہچانا جاۓ ۔ لیجئے عزرائیل موت کےہر کاروں کے ساتھ آپہنچے ۔ بدصورت شکلوں والے فرشتے ،بدبودار جہنمی کفن لیے ۔ دیکھتے ہی لرزنے لگا تڑپنے لگا ۔ فرشتےآگے بڑ ھے اس کی روح بدن میں دوڑنے چھپنے لگی ۔ کھینچیفرشتوں نے اس کی روح اسکے پاؤں میں سے ۔ ناقابل بیان اذیتسے سانس کی آوازیں تیز ہو نے لگی۔ بیقراری سے ایڑ یاں رگڑ نےلگا ۔ کبھی ٹانگ کھینچے کبھی سر جھٹکے کئی گھنٹے گزر گئے ۔ ابجان اٹک گئی ہنسلی کی ہڈی میں ۔ نرخرے کی آوازیں بلند ہونے لگی۔ گھر والے کفن دفن کی تیاریوں میں لگ گئے ۔ روح کو لڑتےلڑتےچھپتے چھپتے کئی گھنٹے گزر گئے ۔ فرشتوں نے زور سےکھینچا۔ لگایا آخری جھٹکا ۔ روح نکلی بدن سے ۔ انکھیں اوپر جا لگیجہاں روح گئی ۔ ابھی چھت تک بھی بلند نہ ہوئی تھی حکم آیا اسملعون کو زمین کی سات تہوں کے نیچے “سجین “بد روحوں کے دفترمیں داخل کر دو ۔ جیسے اعمال ویسی موت ۔جیسی روح ویسےفرشتے ۔ نادیہ عنبر لودھی اسلام آباد
زندہ بدست مردہ – نادیہ عنبر لودھی ………………… بہت عرصہ پہلے مرزا فرحت اللہ بیگ نے ایک مضمون مردہ بدستزندہ لکھا تھا ۔ جس میں انہوں نے ایک...