Sufi Tabassum’s tashreeh of Allama Iqbal’s persian verse

Sufi Tabassum’s tashreeh of Allama Iqbal’s persian verse

 

بو علی اندر غبار ناقہ گم
دست رومی پردۂ محمل گرفت

(یہ شعر پیام مشرق سے لیا گیا ہے جو ایک قطعہ ’’ حکمت و شعر‘‘ میں درج ہے)

 

اقبال نے اس شعر میں اپنے فلسفیانہ افکار کی وضاحت کے لیے ایک پرانی عشقیہ داستان عرب کو پس منظر کے طور پر استعمال کیا ہے اور وہ عشقیہ داستان، مجنوں اور لیلیٰ کی داستان ہے۔ لیلیٰ محمل میں سوار جا رہی ہے اور مجنوں، یعنی قیس عامری اس کی تلاش میں سرگرداں ہے اقبال نے لیلیٰ اور ناقہ اور محمل کو بطور علامتوں کے استعمال کیا ہے لیلیٰ در حقیقت حق کی علامت ہے اور بو علی اور رومی دونوں تلاش حق میں محو ہیں۔ فرق یہ ہے کہ بو علی (کہ اس سے مراد مشہور مفکر اسلام، بو علی سینا ہے) اس راہ میں کھو گیا ہے جسے اقبال اپنے شاعرانہ انداز میں یوں بیان کرتا ہے کہ ’’ بو علی اندر غبار ناقہ گم‘‘ بو علی محمل اور ناقہ کی تلاش میں سرگرداں ہے گویا وہ اسے پاجانے کے عوض، راہ کے گرد و غبار میں الجھ کر راہ بھول گیا ہے اور لیلیٰ تک اس کی رسائی کی کوئی صورت نہیں۔ بالفاظ دیگر اس راہ محبت میں بو علی کی سعی و کوشش اور تگ و دو ایک صاحب عقل و خرد کی جدوجہد ہے جس کا انجام حقیقت سے محرومی کے سوا کچھ نہیں۔ بو علی، فارابی، رازی سب کے سب، حقیقت ازلی کو عقل و خرد کی روشنی میں تلاش کرنے والے ہیں۔ یہ ایسے ہیں جیسے کوئی دھندلا سا چراغ لے کر آفتاب کو ڈھونڈنے نکلے۔

اقبال خود فلسفی تھا اور علم و حکمت اور فلسفے کا دلدادہ تھا ۔ لیکن اس علم و حکمت کی بصیرت کے ساتھ ساتھ اس کے دل میں سوز عشق بھی تھا وہ خود کہتا ہے۔

 

اسی کشمکش میں گذریں مری زندگی کی راتیں
کبھی سوز و ساز رومی، کبھی پیچ و تاب رازی

 

پیام مشرق میں ایک جگہ وہ فلسفے اور عقلیت کے گرداب سے باہر آنے کا تذکرہ بھی کرتا ہے اور اس کے لیے وہ اپنے مرشد روحانی مولانا رومی کو رہنما تسلیم کرتا ہے اور کہتا ہے کہ جب فلسفے کے سمندر میں میری عقل کی کشتی ڈگمگانے لگی تو عارف رومی نے آگے بڑھ کر مجھے سنبھالا اور کہا کہ دیکھ تو سراب میں کشتی رانی کر رہا ہے۔ اس طرح ساحل مراد پر نہیں پہنچا جا سکتا۔ اس کے لیے راہ عشق کو اختیار کرنے کی ضرورت ہے اور سفر عشق، عقل و خرد سے طے نہیں ہوتا۔ راہ حقیقت سے آشنا ہونے کے لیے، رمز شناس عشق ہونا شرط ہے۔

 

اقبال کو رومی کے کلام میں یہی جذبہ کار فرما نظر آیا۔ اور اس میں اسے اپنا نظریہ حیات دکھائی دیا۔ وہ رومی کے طرز فکر و عمل اور اس کے سوز عشق کو تصوف کی روح سمجھتا ہے اور فلسفے اور سائنس کی مظاہر پرستی اور مذہب کی ظاہر داری کے خلاف، اسی سوز عشق کو سرچشمہ حیات قرار دیتا ہے۔ اسی سے انسان میں حقیقی بصیرت پیدا ہوتی ہے اور روحانی قوت آتی ہے۔

 

.انسان بو علی کی طرح لیلیٰ کے محمل کی تلاش میں راہ کے گرد و غبار میں نہیں کھو جاتا، بلکہ رومی کی طرح آگے بڑھ کر پردۂ محمل کو اٹھا لیتا ہے اور اپنے شاہد مقصود کے دیدار سے لذت یاب ہوتاہے

 

 

Bu Ali gets lost in the dust of the camel
Rumi’s hand lifts the veil of the litter

 

(This couplet is taken from “Payam-e-Mashriq” in a section titled “Hikmat wa Sheer”)

 

In this couplet, Iqbal uses an old Arabic love story as a backdrop to explain his philosophical ideas. The love story is that of Majnun and Layla. Layla is riding in a litter, and Majnun, i.e., Qais Amiri, is wandering in search of her. Iqbal uses Layla, the camel, and the litter as symbols. Layla symbolizes truth, and both Bu Ali and Rumi are absorbed in the search for this truth. The difference is that Bu Ali (referring to the famous Islamic philosopher Bu Ali Sina) gets lost on this path. Iqbal poetically describes this as “Bu Ali gets lost in the dust of the camel.” Bu Ali is wandering in search of the litter and the camel, implying that in his quest, he is entangled in the dust of the path and loses his way, making it impossible to reach Layla. In other words, Bu Ali’s efforts and struggles in the path of love represent the endeavors of a rational person whose end is nothing but deprivation of truth. Bu Ali, Farabi, Razi—all seek the eternal truth in the light of reason and intellect. They are like someone trying to find the sun with a dim lamp.

 

Iqbal himself was a philosopher and a lover of knowledge and wisdom. However, alongside this insight, his heart also harbored the passion of love. He himself says:
“My nights of life passed in this struggle
Sometimes with the burning passion of Rumi, sometimes with the complexities of Razi.”

 

In “Payam-e-Mashriq,” he also mentions coming out of the whirlpool of philosophy and rationality and acknowledges his spiritual guide, Maulana Rumi, as his leader. He says that when the boat of his reason began to waver in the sea of philosophy, the mystic Rumi stepped forward, supported him, and said, “Look, you are sailing in a mirage. You cannot reach the desired shore this way. For this, it is necessary to adopt the path of love, and the journey of love cannot be undertaken with reason and intellect. To be acquainted with the path of truth, one must understand the secret of love.”

 

Iqbal saw this driving force in Rumi’s words, and it reflected his own philosophy of life. He considered Rumi’s way of thinking and acting, and his passion for love, as the essence of Sufism. Against the materialism of philosophy and science and the superficiality of religion, he regarded this passion of love as the source of life. It is from this that true insight and spiritual strength arise in a person.

 

Unlike Bu Ali, who gets lost in the dust while searching for Layla’s litter, a person, like Rumi, moves forward and lifts the veil of the litter, delighting in the vision of the desired beloved.

 

 

 

 

You may also like...