Sitaron Se Agay: Urdu Article by Nadia Umber Lodhi

 ستاروں سے آگے – نادیہ عنبر لودھی, اسلام آباد

جدیدیت اور مابعد جدیدیت کی ادبی تحریکیں مغرب سے مستعار شدہ ہیں ہمیشہ کی طرح مشرق کی غلامانہ سوچ نے انہیں اپنایا اور اردو تنقید میں یہ غالب رجحانات بن گئیں۔

اردو ادب شاعری اور افسانہ نگاری میں اس کی مثالیں بھی نظر آنے لگی -مگر یہاں انادبی تحریکوں پر بحث میرا مقصود نہیں ہے یہاں ادیبوں اور لکھاریوں کے رویےموضوع بحث ہیں ۔

کیا ہمارے ادیب اور شاعر اپنی روش میں بھی جدت لا پاۓ یا وہی کھڑے ہیں –

آج دنیا کے تیزی سے بدلتے حالات ،عالمی وبا،اقدار کاتبدیل ہوتا معاشرتی ڈھانچہ ،نئی نسلکی باغیانہ سوچ کیا “مابعد جدیدیت “ سے آگے “بعد مابعد جدیدیت “کی طرف جانے کااشارہ نہیں ہے؟ اور ہم کہاں کھڑے ہیں ؟

ہم ادب سے وابستہ لوگ تو وہی کھڑے ہیں جہاں تھے -وہی ادبی کانفرینسیں ،وہیمشاعرے وہی تقریبات ۔وہی انداز

سب بدستور فرسودگی کا شکار ہیں ۔

ادبی تقریبات سے خطاب کرنے والے مقررین کے وہی گھسے پٹے تنقیدی خیالات ہیں ۔سامعین میں سے اکثریت اردوادب کے طالب علموں پر مشتمل ہوتی ہے جو تنقیدیمباحث سے آشنا ہوتے ہیں ان پر اپنی لیاقت کا رعب جھاڑنا عقل مندی نہیں ہے ۔کتاب کی تقریب رونمائی میں کتاب سے متعلق نپی تلے گفتگو کیجئے ۔

شاعرات میں متشاعرات کی اکثریت ہے – جینوئین شاعرات آج بھی کہیں بہت پیچھے ہیں-کیونکہ یہ خود تک ان نام نہاد شاعروں کو رسائی نہیں دیتیں جو لامحدود رسائی کے طلب گارہیں ۔متاشاعرات کو شعری مجموعہ لکھ کے دینے کے بعد پھر تقریبات بھی سجائی جاتی ہیں۔

 

urdu language

 

کتاب کی تقریب رونمائی میں شامل نامور شاعر متشاعرہ کی اصلیت سے واقفیت ہونےکے باوجود تعریفوں کے پل باندھتے ہیں ۔ان پڑھ خاتون کو شاعرہ بنا کے پیش کیا جاتاہے جو کہ ایک جملہ نثر لکھنے پر بھی قادر نہیں ہے ۔

پھر مشاعروں میں ان متشاعرات کے نام شامل کیے جاتے ہیں ۔ایسی متشاعرات کیمثال سمندری جھاگ کی ہے –

سفارش کا ناسور ادب کی جڑوں میں بیٹھا ہے ۔دنیا مابعد جدیدیت سے آگے دیکھ رہی ہےاور ہمارے شاعر ابھی تک عورت کے نشیب فراز میں الجھے ہیں ۔صنم کی دراز زلفوںمیں جکڑے ہیں ۔

فرسودہ معاشرہ فرسودہ سوچ صرف یہاں تک محدود نہیں ہے جامعات بھی اس کے شرسے محفوظ نہیں ہیں اور حکومتی ادارے بھی جو کہ ادب کے نام پر بناۓ گئے ۔

بھٹو صاحب نے شاعروں اور ادیبوں کے لیے مختص کیے ۔وہاں بھی یہ ہی صورتحال ہے ۔صدر نشین کے بدلنے سے حالات نہیں بدلتے ۔صدر نشین تو لسٹ پر دستخطکرتے ہیں ۔جو مشاعرے کے لیے متعلقہ سرکاری ملازم ان کے سامنے پیش کرتے ہیں۔ لسٹ بنانے والے بدلیں تو حالات بدلیں ۔تعلق ،سفارش ،دوستی نبھانے کی روایتلسٹ بنانے والوں کی سرشت میں ہے ۔ادب سے زیادہ انہیں ادیب محبوب ہیں ۔محبوب سب کے محبوب ہوں تو بات بنے لیکن یہ صرف اپنے مفادات کے محبوب ہیں ۔

اس پر اکتفا نہیں ہے اب ایوارڈ بھی سفارشی لوگوں کو دیے جائیں گے ۔

ہمیشہ سے اردو ادب کا یہ چلن رہا اور انشااللہ رہے گا ۔دنیا کہیں سے کہیں پہنچ جاۓ-گروہ بندی کا شکار یہ ادیب اپنے پسندیدہ اور قریبی دوستوں کی نگارشات کو

ادب نمبر، معاصر ادب ،جدید ادب ، جدید افسانہ ، معاصر افسانہ ، جدید نظم کے نام سےچھاپیں گے ۔ انہیں ان جینوئین شاعروں سے کوئی دلچسپی نہیں ہے جو کہ غربت کےباعث اپنا دیوان نہیں چھاپ سکتے ۔

ان ادب کے جانثاروں میں سے زیادہ تر کے پاس کوئی ادب کی ڈگری نہیں ہے ۔نام نہادنقادوں کے پاس ایم اے اردو تک کی ڈگری نہیں ہے اور تنقید کرنے چلے ہیں یہ شاعرنہیں ہیں اور شاعری کی کتابوں پر تنقید کرتے ہیں ۔شاعروں کی کتابوں میں ان کے تعارفیمضامین بھی شامل ہیں ۔

ہر لکھاری کتھارسس کے لیے لکھتا ہے لیکن ایسی صورت حال اسے ڈیپریشن میں مبتلاکرتی ہے ۔

آج دنیا ایک گلوبل ویلیج بن چکی ہے ۔ہر آنیوالا لمحہ جدت کی طرف ایک اور قدم ہے ۔معاشرے کی سوچ میں تبدیلی کے ساتھ لکھاری کا چلنا بے حد ضروری ہے ۔

اپنے مفادات سے بالاتر ہو کے مثبت سوچ کو فروغ دینا ایک لکھاری کا فرض ہے ۔

سماجی ،مذہبی، معاشرتی ، سیاسی اور طبقاتی کشمکش اور بے روزگاری کے مسائلہمارے معاشرے کو گھیرے ہوۓ ہیں ۔ضرورت اس امر کی ہے کہ انہیں بیان کیاجاۓ۔

لکھنا بغاوت ہے لیکن باغی بننے کے لیے لکھاری ہونا بھی لازمی ہے ۔جس معاشرےمیں لہو لگا کے شہیدوں میں شامل ہونے کی روایت ہو وہاں ایسی امید کہاں ۔

نیا ادب تو وجود میں آرہا ہے لیکن ادبی رویوں میں کوئی تبدیلی دکھائی نہیں دے رہی ہے ۔

ستاروں سے آگے کے جہان ڈھونڈنے کے لیے اردو ادب کو ابھی بہت سفر کرنا ہے ۔

You may also like...