Saudi Shahzaday Se Ek Mulaqaat: Safarnama by Mohsin M. Bhatti
Saudi Shahzaday Se Ek Mulaqaat: Safarnama by Mohsin M. Bhatti
سعودی شہزادے سے ایک ملاقات
سعودی عرب میں آمد
یہ 1997 کے رمضان کی بات ہے۔ ٹی وی پر آخری عشرہ کی مسجد الحرام کی تروایح براہ راست نشر کی جا رہی تھی۔ شیخین امام محترم عبدالرحمن السدیس اور محترم سعود الشریم تیس لاکھ نمازیوں کی صلاہ التراویح پڑھا رہے تھے۔ میں حسرت سے منظر دیکھ رہا تھا دل میں ایک خواہش پیدا ہوئی کہ کاش میں بھی حرم جا سکتا اور رمضان میں تراویح پڑھ سکتا۔ یہ وقت شائید قبولیت کی گھڑی کا تھا، الله تعالٰی کی رحمت جوش میں تھی، رمضان کا آخری عشرہ تھا سارے اسباب جمع تھے، اور ناقابل یقین طریقے سے الله تعالٰی نے کچھ ایسے اسباب پیدا کئے کہ میں چھ مہینے کے اندر اندر سعودی عرب پہنچ چکا تھا الحمد لله۔ یعنی بقول شاعر
بےطلب ہم کو دئیے جاتا ہے دینے والا
ہاتھ اُٹھتے نہیں جھولی میری بھر جاتی ہے
ناقابل یقین طریقے سے میری بہترین ملازمت سعودی عرب میں ہو گئی، کہ جس کے لئیے نہ تو میں نے کہیں درخواست دی، اور نہ کسی کو کہا۔ ملازمت کا آفر لیٹر اور سعودی ویزا میرے گھر پر آیا۔ آفر لیٹر بھی اس طرح کا تھا کہ جو تنخواہ لکھی گئی اگر وہ قبول نہیں ہے تو جو تنخواہ آپ چاہتے ہیں اس پر لکھ لیں وہ قبول کر لی جائے گی۔ میں نے اپنی مرضی کی رقم لکھ دی جو میری موجودہ پاکستانی تنخواہ سے تقریبا دس گنا زیادہ تھی۔ اور وہ فورا منظور ہو گئی۔ الحمد لله۔ مجھے بالکل ایسے محسوس ہو رہا تھا کہ الله تعالی مجھے اپنے گھر بلانے کے لیئے یہ سب اہتمام کر رہے ہیں۔
جو واقعات کہ جن سے گذر کر میں سعودی پہنچا وہ نہ صرف ناقابل یقین ہیں بلکہ دلچسپ بھی ہیں۔
سعودی عرب روانگی کا سلسلہ کچھ ایسے شروع ہوا کہ ایک دن میرے والدین لاہور کسی شادی میں گئے ہوئے تھے، میں راولپنڈی ہی میں تھا۔ وہاں سے والدہ کا فون آیا کہ محسن اپنے شاہین بھائی سے بات کرو۔ شاہین قمر انصاری بھائی میری خالہ کے بیٹے ہیں مجھ سے پانچ سال بڑے ہیں، یونیورسٹی آف انجنیئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی لاہور کے گولڈ میڈلسٹ انجنئیر ہیں۔ اور ان دنوں سعودی عرب میں کام کر ہے تھے۔ میرا ان سے بہت عرصے سے رابطہ نہیں تھا۔ وہ بھی لاہور أئے ہوئے تھے۔ جب انھوں نے میرے بارے میں والدہ سے پوچھا کہ میں آجکل کیا کر رہا ہوں تو میری والدہ نے مکمل طور پر لاعلمی کا اظہار کیا اور بتایا کہ بڑی مشکل سے ہڑتالوں، لمبی چھٹیوں اور وقت ضائع کرنے کے بعد بالآخر انجینئر تو بن گیا ہے مگر ابھی پتہ نہیں کیا کام کرتا ہے۔ شاہین بھائی میرے حالات سمجھ سکتے تھے کیونکہ ہم ایک ہی یونیورسٹی کے فارغ التحصیل تھے۔ جہاں پڑھائی کم اور غیر نصابی سرگرمیاں زیادہ ہی ہوتی تھیں۔
شاہین بھائی نے بڑی گرم جوشی سے میرا حال پوچھا اور میرے کام کے بارے میں بھی دریافت کیا۔ میں نے اپنے کام یعنی ٹیلی فون نیٹ ورک ڈیزائن کے بارے میں بتایا اور کیسے پی ٹی سی ایل کو ایکسچینج لگا کر دیتے ہیں۔ شاہین بھائی نے بتایا کہ اس وقت سعودی عرب میں امریکہ کی بہت بڑی کمپنی AT&T کو دنیا کا سب سے بڑا پروجیکٹ ملا ہوا تھا اور وہ اسی کمپنی میں کام کر رہے تھے، اور وہاں انجینئرز کے لیئے ملامت کے مواقع موجود تھے پھر مجھ سے پوچھا کہ کیا میں سعودی عرب جانا
چاہتا ہوں؟ میں نے کہا کہ نیکی اور پوچھ پوچھ میں ضرور جانا چاہتا ہوں ان شاء الله۔
انھوں نے کہا کہ وہ سعودی عرب جا کر میرے لیئے ملازمت کا بندوبست کریں گے ان شاہ الله
کچھ دنوں میں سعودی عرب سے میرے نام کا خط بھی آ گیا جس میں ملازمت کی شرائط اور تنخواہ تحریر تھی۔الحمد لله۔ پھر شاہین صاحب کا فون بھی آ گیا کہ خط اچھی طرح پڑھ کر قبول کرو اور دستخط کر کے واپس فیکس کر دو۔ اور اگر تنخواہ بڑھانا چاہو تو وہ اپنے ہاتھ سے لکھ دو۔ میرے حساب سے تنخواہ کچھ کم تھی۔ میں نے تقریباً 20 فیصد بڑھا کر نئی تنخواہ لکھ دی۔ اور دستخط کر کے فیکس واپس بھیج دی۔ تھوڑے دنوں میں AT&T کے HR مینیجر کا فون بھی آ گیا کہ جس میں انھوں نے بتایا کہ مجھے انھوں نے بطور سویچنگ انجیئیر منتخب کر لیا ہے۔ اور میرا ویزا پاکستان بھیج دیا گیا ہے، جلد پاکستان کے نمائندے مجھ سے رابطہ کر کے سعودی سفارتخانے سے میرے پاسپورٹ پر ویزہ لگوا لیں گے ان شاء الله
اس سارے عمل میں میں نے کوئی بھاگ دوڑ نہیں کی، کیوں کہ مجھے پورا یقین تھا کہ یہ سب الله تعالٰی کی مرضی سے ہو رہا تھا۔ ورنہ عام حالات میں سعودی عرب جانے کے لئے ہم پاکستانیوں کو اچھا خاصا خوار ہونا پڑتا ہے اور بہت زیادہ پیسے الگ سے خرچ ہوتے ہیں۔
میری سعودی عرب میں آمد کے واقعہ سے پہلے میں آپ کو امریکا اور سعودی عرب میں امریکی کمپنی AT&T کے بارے میں کچھ بتاتا ہوں
امریکی کمپنی AT&T
امریکا کو نہ صرف دینا کی سب سے بڑی سپر پاور کہا چاتا ہے بلکہ امریکا دنیا کی واحد سب سے بڑی منڈی بھی ہے۔ یعنی Single largest Market
اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ امریکی کمپنی جو کسی بھی شعبے میں امریکا کی سب سے بڑی کمپنی ہو گی، وہ دنیا کی بھی سب سے بڑی کمپنی ہو گی۔ مثلا AT&T, IBM, Coca Cola, General Electric, General Motors وغیرہ۔ اس کے علاوہ سعودی حکومت اور امریکا کے اشتراک سے سعودی آرامکو دنیا کی سب سے بڑی تیل نکالنے اور برآمد کرنے والی کمپنی ہے (سعودی عرب دنیا کا سب سے زیادہ تیل نکالنے اور برآمد کرنے والا ملک ہے) جس کے بارے میں مشہور ہے کہ آرامکو کا اپنا ہوائی اڈہ، اپنے ہوائی جہاز اور اپنا پورا ایک شہر ظھران ہے۔ ظھران سے امریکا جانے کے لیئے آرامکو کے ملازمین کے لیئے بلا معاوضہ سفر کی سہولت موجود تھی۔ AT&T دراصل Alexander Graham Bell کی قائم کردہ کمپنی Bell Telephone Company کی ہی ایک ذیلی کمپنی ہے جو امریکہ کی سب سے بڑی ٹیلی فون نیٹ ورک آپریٹر کمپنی ہے1996 میں AT&T کو سعودی عرب میں دنیا کا سب سے بڑا 6 بلین امریکی ڈالر کا ایک پروجیکٹ / ٹھیکہ ملا تھا جس میں ٹیلی فون ایکسچینج، فایبر آپٹکس، موبائیل، انٹرنیٹ اور دیگر شعبے شامل تھے۔ اس مقصد کے لئے دنیا کے 40 ممالک سے تقریبا 5000 لوگوں کو ملازمت دی گئی تھی۔ یہ وقت شاہ فہد کا دور حکومت کا تھا۔ اور سعودی عرب بہت خوشحالی کے دور سے گذر رہا تھا۔ سعودی عرب کا سالانہ بجٹ 4 ٹریلین ڈالر کا ہوتا تھا جو پاکستان کے مقابلے میں کئی ہزار گنا زیادہ بڑا بجٹ تھا۔
الحمد لله میرے سعودی عرب جانے کے سارے مراحل تو گویا الله تعالٰی نے اپنے ہاتھ میں لے لئیے تھے۔ اگر میرے یا کسی اور کے ہاتھوں میں یہ معاملات ہوتے تو مشکل سے میں سعودی عرب پہنچ سکتا۔
اسی دوران الله تعالٰی نے ہمیں ایک تحفہ پہلی بیٹی بھی دی۔ بیٹی کو چھوڑ کر سعودی عرب جانا بھی ایک مشکل فیصلہ تھا۔
جولائی 1997 میں میں ریاض ہوائی اڈے پہنچا۔ یہ ایک بہت بڑا اور خوبصورت ہوائی اڈا ہے۔ شہر سے 50 کلومیٹر دور صحرا میں بنایا گیا ہے۔
جیسے ہی میں جہاز سے اتر کر پاسپورٹ چیکنگ کی جگہ پر آیا تو دیکھ کر پریشان ہو گیا کہ وہاں پر ہندوستان، بنگلہ دیش، مصر اور دیگر ممالک کے کوئی پانچ ہزار لوگ مختلف قطاروں میں کھڑے ہوئے ہیں۔ دو گھنٹے بعد باری آئی باہر آیا تو دیکھا کہ ایک فلیپینی بھائی میرے نام کی تختی پکڑ کر کھڑے تھے۔ میں نے ان کو سلام کیا دیر سے باہر آنے پر معذرت کی۔ وہ بولے یہاں ایسا ہی ہوتا ہے۔
میرا قیام ریاض کے بہترین 5 سٹار ہوٹل ہالیڈے ان میں تھا۔ جہاں میں تقریبا دو مہینے رہا۔ ابتدائی وقت کے لیئے، سعودی ڈرایونگ لائسنس کے حصول تک، مجھے کمپنی کی گاڑی ہوٹل سے دفتر اور واپس لے کر آتی تھی۔ لائسنس آنے کے بعد مجھے ایک بہترین امریکی گاڑی Chrysler Dodge Neon ملی۔ جن لوگوں کو امریکی گاڑیوں کے بارے میں معلومات ہیں وہ سمجھ سکتے ہیں کہ یہ کیسی زبردست گاڑی ہے۔ کوئی جاپانی گاڑی امریکی گاڑیوں کا مقابلہ نہیں کر سکتی۔
گویا الله تعالٰی نے ہر طرح سے میری سعودی عرب آمد اپنے ایک مہمان کی طرح بنا دی تھی۔
سعودی عرب آکر میں نے اپنی پہلی ہفتہ وار چھٹی کے دن عمرہ ادا کیا اور الله تعالٰی کا بہت شکر ادا کیا کہ جس نے میرے لیے میرے سارے کام آسان کر دئیے اور مجھے خیریت سے پہنچایا
سعودی شہزادے سے ملاقات کے واقعہ سے پہلے میں کچھ سعودی عرب کے واقعات لکھ رہا ہوں کہ جن سے وہاں کے ماحول اور لوگوں کے بارے میں آپ کو پتہ چلے گا (میرے نقطہ نظر کے مطابق)
1. ہالیڈے ان ریاض کا یومیہ خرچہ تقریبا ایک ہزار ریال تھا جو میری طرف سے AT&T ادا کر رہی تھی۔ اسی ہوٹل میں ایک جوان سعودی بھی ٹہرا ہوا تھا۔ میری اس سے سلام دعا ہو گئی۔ اس نے میرے بارے میں پوچھا تو میں نے اسے اپنے بارے میں بتایا۔ وہ بہت خوش ہوا اور کہا کہ پاکستانی بہت محنتی قوم ہیں۔ پھر میں نے اس سے پوچھا کہ وہ کون ہے اس ہوٹل میں کیا کر رہا ہے؟ وہ بولا یا اخی، میرا گھر اسی ہوٹل کے پیچھے ہے، گھر میں رنگ و روغن اور مرمتوں کا کام چل رہا ہے، اور میرا سارا خاندان چھٹیاں گذارنے یورپ چلا گیا ہے اور والد صاحب نے کام کی نگرانی کی ذمہ داری مجھ پر ڈالی ہے۔ مجھے رنگ و روغن کی بو اور شور شرابہ بالکل پسند نہیں ہیں اس لئیے میں ایک مہینہ سے ہوٹل میں رہ رہا ہوں۔ میں نے اس کی باتیں سن کر اس کا اپنے آپ سے موازنہ کیا کہ ایسی صورت حال میں گھر سے بیرون ملک یا ہوٹل منتقل ہونا تو بہت دور کی بات ہے۔ میں تو خود ایسے کام میں شامل ہو جاتا ہوں
2. میرے دفتر میں ایک سعودی دوست مجھ سے ملنے آیا اور بتایا کہ اگلے ہفتے وہ کسی سرکاری کام سے دبئی جا رہا ہے۔ میں نے اس سے پوچھا کہ دبئی میں کہاں رہو گے؟ وہ بولا کہ سوچ رہا ہوں کہ برج العرب میں ٹھروں۔ میں نے کہا وہ 7 سٹار ہوٹل؟ وہ بولا جی ہاں۔ میں نے کہا کہ جس میں جانے کے لیئے آب دوز میں بیٹھ کر جانا پڑتا ہے؟ وہ بولا کہ ہاں، کیا آپ وہاں گئے ہو؟ میں بولا گیا تو نہیں مگر دبئی میں دیکھا ضرور ہے۔ میں نے پوچھا کہ اس کا یومیہ کتنا خرچہ ہے؟ وہ بولا کہ یہی کوئی 30 سے 40 ہزار ریال۔ میں نے اسی وقت ذہن میں حساب شروع کیا اور روپے میں تین دن کا مکمل خرچہ نکالا تو چکرا کر رہ گیا۔ میری حالت دیکھ کر یاسر مذاق سے بولا چلو گے میرے ساتھ، کراوں تمھاری بھی بکنگ۔ میں نے کہا کہ بھائی میں چلا تو جاوں گا مگر مجھے تو اپنی جیب سے سارا خرچہ دینا پڑے گا، میری مہینوں کی جمع پونجی ایک دم بھک سے اڑ جائے گی یہ سوچ کر نیند کہاں سے آئے گی۔ میری بات سن کر یاسر نے قہقہہ لگایا اور ہاتھ ہلاتا ہوا چلا گیا۔
سعودی عرب میں رہتے ہوئے میری ملاقات ایک سعودی شہزادے ڈاکٹر ترکی بن سعود بن محمد آل سعود سے ہوئی۔ یہ ملاقات ہماری کمپنی AT&T کے ایک سینئر امریکی مینیجر ڈاکٹر سلمان شیخ کے ذریعے سے ہوئی جنھوں نے اس ملاقات کا اہتمام ان کے محل میں کیا تھا۔
ڈاکٹر ترکی بن سعود سعودی عرب کی سب سے بڑی یونیورسٹی ملک عبد العزیز یونیورسٹی برائے سائنس اور ٹیکنالوجی ریاض، کے سربراہ بھی تھے۔ AT&T کے یونیورسٹی کے ساتھ کچھ پراجیکٹ بھی چل رہے تھے اور کچھ دیگر کام تھے جن کی وجہ سے میٹنگ کا بندوبست کیا گیا۔
ڈاکٹر سلمان نے مجھے کہا کہ آپ نے بھی ہمارے ساتھ چلنا ہے۔ میں نے کہا کہ میں وہاں جا کر کیا کروں گا؟ سلمان صاحب بولے آپ وہاں جا کر سعودی ٹیلی فون، موبائیل اور انٹرنیٹ کے بارے میں بتائیں گے۔ میں نے کہا کہ شہزادے صاحب نے کوئی مشکل سوال پوچھا لیا تو کیا ہو گا؟ کیوں کہ میں نے ان شعبوں میں کام ضرور کیا ہے مگر بہت ماہر نہیں ہوں۔ آپ کسی امریکی کو لے جائیں۔ مگر سلمان صاحب نے اصرار کیا کہ میں ہی چلوں۔ اور ایک ہفتہ کا وقت دے دیا۔ تب تک میں نے بھی ان پراجیکٹس کے بارے میں پڑھنا شروع کر دیا۔
میں نے سعودی عرب میں رہتے ہوۓ شاہ فہد اور ان کے شہزادوں کے محلات دیکھے تھے جو کہ انتہائی خوبصورتی سے بنائے گئے ہیں۔ ان محلات میں باغات کچھ ایسے بناۓ گئے ہیں کہ جن میں پیدل چلنے کے لیئے چھوٹے چھوٹے پل ہیں جن کے نیچے سے نہریں بہہ رہی ہیں۔ گویا قرآن مجید میں جنت کا منظر محل میں بنایا گیا تھا (حوالہ قرآن مجید کی آیت “تحتھا الانھار”)۔ مجھے ان مناظر کو دیکھ کر یہ خیال آیا کہ شائد یہ لوگ دنیا ہی میں جنت کے طلب گار ہیں۔
مقرہ دن ہم سب تیاری کر کے ایک جگہ پہنچ گئے۔ سلمان صاحب نے تقریبا بیس لوگ جو مخلتف ممالک یعنی ہندستان، پاکستان، مراکش، امریکا، سعودی عرب اور برطانیہ سے تھے اپنے ساتھ لے کر جا رہے تھے۔
ملاقات سے پہلے میں سوچ رہا تھا کہ شہزادہ صاحب کیسے ہوں گے؟ جیسے ہمیں بادشاہوں اور شہزادوں کی کہانیوں میں بتایا جاتا تھا کہ بڑا سا محل ہو گا، تخت ہو گا، ملازمین کی لائین ہو گی۔ شہزادے صاحب کی آمد کا اعلان کیا جائے گا۔ با ادب ہو کر ملنا پڑے گا۔ پہلے شہزادے کے دربانوں سے ملنا ہو گا جو ہمیں پہلے تو انتظار کرائیں گے۔ پھر کہیں جا کر شہزادے کی دور سے زیارت کرائی جائے گی۔ مگر سب کچھ اس کے برعکس ہوا۔
ہم سب شہزادے کے محل میں داخل ہوئے جو کہ واقعی ایک محل تھا اس میں تقریبا 15 تو بہترین قسموں کی گاڑیاں کھڑی تھیں۔ اور پھر میں نے ایک ناقابل یقین منظر دیکھا کہ شہزادہ موصوف محل کے دروازے پر اپنے دو بیٹوں کے ساتھ ہمارے استقبال کے لئے کھڑے تھے۔ کوئی ملازم نہیں تھا۔ ہمیں اپنے ڈرائینگ روم میں بیٹھانے کے بعد شہزادے صاحب نے خود اپنے ہاتھ سے ہمیں قھوہ اور کھجوریں پیش کیں۔ اور پھر انھوں نے میٹنگ الله تعالٰی کے نام سے شروع کی۔شہزادے صاحب کی انگریزی بہترین تھی، فردا فردا سب سے خیریت پوچھی، انھوں نے ہمارے باتیں سنیں اور عملدرآمد کے لئے احکامات بھی جاری کئے اور پھر الله تعالٰی ہی کے نام پر میٹنگ ختم کی۔ اس کے بعد عشاء کی نماز کی امامت بھی شہزادے صاحب ہی نے کرائی۔
یہ میرے نزدیک ایک بہت خوش گوار واقعہ تھا کہ جب تک ملاقات نہیں ہوئی تھی، میرے نزدیک سارے شاہی خاندان والے الف لیلوی زندگی گذار رہے تھے۔ مگر شہزادے صاحب سے ملاقات کے بعد میرے نظریات تبدیل ہو گئے۔
Photo by Abdulrhman Alkhnaifer on Unsplash