Poshaak-e-Zindagi: Urdu Afsana by Hira Ishfaq

Poshaak-e-Zindagi: Urdu Afsana by Hira Ishfaq

 

پوشاکِ زندگی

اتنی حسین زندگی کے دیکھو تم نے کیسے بخیے ادھیڑ دیے ہیں

 ہوا کا سیاہ جھونکا وہ سیاہ چادر کو پیوند لگاتی لڑکی کے سامنے آ کے رکا، جسے اچھے سے معلوم تھا کہ یہ بھی زندگی ہی کا ایک روپ ہے اور وہ ہیولہ بھی جانتا تھا کہ لڑکی اس کے راز سے واقف ہے. 

اس کے طنز کو مکمل طور پر بھانپتے ہوئے وہ لڑکی طنزاً مسکرائی.

” زندگی بھلا کبھی حسین بھی ہوتی ہے؟ بس کچھ دیر کیلیے ہم اس کی بدصورتی کو بھول جاتے ہیں اور اس بھول جانے کو ہم” خوشی” کا نام دیتے ہیں اور یاد آجانے یا یاد دلا دیے جانے کو ” غم” کا! ہمارا ہر جذبہ انہی دو جذبوں سے مل کر بنتا ہے.. ہے نا؟”

لڑکی کی اداس آنکھوں نے اس ہیولے کی طرف نگاہ اٹھا کر دیکھتے ہوئے پوچھا، ہاتھ اب بھی مسلسل سوئی سے کپڑے پہ پیوند لگانے میں مصروف تھے. وہ اس سے بالکل بھی متفق ہوتا ہوا نظر نہیں آ رہا تھا. 

” نہیں؟ ” لڑکی کی آنکھوں میں اداسی کے ساتھ ہلکی سی سرخی بھی اتری جسے اس نے نہایت سہولت سے اپنے اندر ہی اتار لیا. 

” مجھے علم نہیں…. ہوسکتا ہے ہاں…. اگر نہیں بھی تو، تب بھی یہ دونوں جذبے گونگے سے ہو کر ان باقی جذبوں کے دائیں بائیں کھڑے ہوتے ہیں کہ کب یہ ہٹیں اور ہم میں سے ایک اسکی جگہ لے لے.” 

لڑکی کی اداسی جیسے ان جملوں سے ذرا کم ہوئی تھی. اس نے ایک نظر اس ہیولے کی طرف پھر سے دیکھا جو سیاہ تو تھا لیکن اس کے بولنے سے ننھے ننھے سے موتیوں کی مانند بارش کے قطرے گرتے تھے جس سے اس کی سیاہی میں کمی ہو رہی تھی. 

” خوشی کا جذبہ یا بھولے رہنے کا وقفہ اکثر تھوڑے عرصے کیلیے ہی ہوتا ہے. اور یاد آنے والا یا یاد دلایا جانے والا عرصہ یعنی” غم” کا دورانیہ لمبا ہوتا ہے.” وہ سیاہ ہیولہ اسے جیسے اپنی سفر کی داستان سنا رہا تھا اور لڑکی بھی وہ سیاہ کپڑا سلائی کرتے ہوئے بیت دھیان سے اس کی باتیں سن رہی تھی. یوں جیسے کوئی دو بہت گہرے دوست مل رہے ہوں اور ایک دوسرے کی کمپنی نے انھیں جیسے اس تاریک اور اندھیر موسم سے، اس تاریک وادی اور اس خزاں رسیدہ درخت کے خوف سے بالکل بےڈر کر دیا ہو. 

 

 

American girl

 

 

“مجھے تو کبھی کبھی یوں لگتا ہے جیسے خوشیاں کسی نروٹھی نازک عورت کی طرح بہت جلدی تھک جاتی ہیں اور غم ایک ذمہ دار اور خیال رکھنے والے شوہر کی طرح اس کے حصے کا بھی کام کرتا ہے.” اس کی اس بات پہ لڑکی ہلکا سا کھلکھلائی تھی اور ہیولہ جیسے اسے ہنسانے پہ کامیاب ہونے پہ فخر محسوس کر رہا تھا. 

” عجیب ہی ہے یہ دونوں کی چھپن چھپائی بھی.” ہنسنے کے بعد عجیب حیرانی سی وہ لیے بولی. 

 

” کبھی خوشی کے موقع پہ کسی کو غمگین دیکھا ہے؟؟؟ یا کبھی دکھ کے موقع پہ کسی کو ہنستا ہوا دیکھا ہے؟ دونوں ہی صورتوں میں اس تجربے سے گزرنے والا شخص عجیب ڈبڈبایا سا لگتا ہے… بہت ہی غیر متوزان سا… یوں جیسے کسی نے اسے پانی کی سطح پہ کھڑا کر کے خود کو سٹیبل رکھنے کا کہہ دیا ہو.” ہیولہ جوفخر سے اوپر اٹھتا جا رہا تھا، لڑکی کی ان باتوں کو سن کر واپس زمین سے لگ گیا. 

 

“کبھی فوتگی پہ ہنستی ہوئی عورتوں کو دیکھا ہے؟ جنھیں لوگ مار مار کر رولانے کی کوشش کر رہے ہوتے ہیں.” ایک اور پھٹی ہوئی جگہ سے پکڑ کر اب لڑکی وہاں پیوند لگا رہی تھی اور ہیولہ مبہوت سا اس کی باتیں سن رہا تھا جیسے وہ کوئی جادوئی منتر پڑھ رہی ہو اور وہ اس کا ایک ایک حرف ذہن نشین کر لینا چاہتا ہو. 

 

” یا پھر کسی خوشی کے موقع پہ کسی کو آنسو بہاتے ہوئے دیکھا ہے؟ غم کے؟ ہر کوئی عجیب نظروں سے انھیں دیکھ رہا ہوتا ہے یوں جیسے وہ پاگل خانے سے آئے ہوئے پاگل ہوں.” اس نےپھٹے کپڑے کے کناروں کے اندر سے سوئی کی مدد سے ان میں سوراخ کرتے ہوئے دونوں سروں کو آپس میں ملا دیا. 

” عجیب خوشی اور غم کا کھیل رچایا ہے تم نے بھی زندگی! ” لڑکی کی آواز میں اب کسک در آئی تھی.” خوشی کے موقع پر بھی پیوندکاری کرتے ہوئے غم کی سوئی سے زندگی کے گزرتے لمحوں میں سوراخ کرنے پڑتے ہیں، ایسے سوراخ جو خوشی، لوگوں اور یادوں کو اکٹھا جوڑ تو دیتے ہیں لیکن ان سوراخوں سے وہ خوشی سرک کے نجانے کہاں چلی جاتی ہے اور پیچھے بس ایک خالی سی جگہ چھوڑ جاتی ہے، اپنے جان قربان کر دینے والے شوہر کیلئے.”

 

وہ سامنے ہوا کی صورت میں بیٹھی ہوئی زندگی کپکپا سی گئی تھی یوں جیسے اس لڑکی کی کہانی کی تاب نہ لا پا رہی ہو. وہ جو سیاہ سے رنگ میں اس کے سامنے آ کر بیٹھی تھی، اب سیاہ سے جامن رنگ کی طرف جانے لگی تھی. الفاظ سہہ نہ سکنے کے نتیجے میں وہ جامن ہوتی ہوئی سیاہ سی زندگی اس درخت کے گرد ہوا کی صورت ایک تیز چکر لگا کے آئی تھی، یوں جیسے اس لڑکی کے سامنے سے وہ کپڑا اور سوئی اڑا کے لے جانا چاہتی ہو کہ اس کے الفاظ اس کے وجود میں سوئی کی طرح کے ننھے ننھے سوراخ کر رہے تھے،جو نظر تو نہیں آرہے تھے لیکن درد ضرور دے رہے تھے. لڑکی نے مضبوطی سے وہ کپڑا اور سوئی ہاتھوں میں تھامتے ہوئے  اداس سا مسکرائی اور جب  وہ زندگی ہوا کے بگولے کی صورت میں اس کے سامنے آ کے بیٹھ چکی تو لڑکی نے سلا ہوا پیوندزدہ کپڑا جو پہلے کئی چھید لیے ہوئے تھا، اس جامن ہوئی زندگی کی گود میں رکھ دیا. وہ سیاہ کپڑا پا کے وہ  ہوا اب جامن سے نیلی ہو رہی تھی، کھلِی ہوئی سی نیلی. جیسے اسے امید نہیں تھی، کہ یہ پیوند ہو جائے گا! پیوند ہو کے واپس اسے مل جائے گا. اب اس کے نیلے رنگ میں سبز رنگ بھی گھل رہا تھا. 

 

لڑکی سوئی کا دھاگہ نلکی کے گرد لپیٹتے ہوئے یہ رنگوں کی تبدیلی بخوبی دیکھ رہی تھی. ہونٹوں پہ اب بھی وہی پرانی پہلی ملاقات والی پراسرار مسکراہٹ سجائے اس نے آنکھیں اوپر اٹھائیں، لیکن آنکھیں اس بار شرارت سے خالی تھیں، اس کی جگہ آنکھوں میں اداسی، سمجھداری اور ایک عجیب سے درد نے لے رکھی تھی. زندگی کا وہ ہیولہ بھی اس سیاہ بالوں والی لڑکی کی طرف متوجہ ہوا اور اس کی مسکراہٹ دیکھ کے ذرا چوکنا بھی. 

 

“کیوں زندگی؟ کیوں؟” وہ سبز اور نیلے رنگ میں نہایا ہوا ہیولہ جیسے رنگ کھونے لگا تھا. 

 

“کیا کیوں؟” ہیولے نے لڑکی کی سیاہ آنکھوں میں جھانکا جہاں اسے پہاڑ سا مضبوط عزم اور آسمان کا سا بلند ارادہ نظر آیا. 

 

“پوشاکِ زندگی! تجھے سیتے سنوارتے” یہ کہتے ہوئے لڑکی نے ہاتھ اس ہیولے کے سامنے پھیلائے جیسے اپنے ہاتھوں پہ لگی ہوئی مہندی دکھا رہی ہو اور ان ہاتھوں پہ نظر ڈالتے ہی اس ہیولے کے رنگوں کی تبدیلی ایک لمحے کے ہزارویں حصے کے لیے رکی تھی. ان ہاتھوں پہ سوئی کے لگے ہوئے زخموں کے مٹے مٹے سے نشان، کچھ بھرے ہوئے زخم، کچھ ادھ بھرے اور کئی تازہ زخم سرخ رنگت لیے نظر آرہے تھے.

 

اس کے رکے رنگوں کو دیکھ کر لڑکی نے ایک گہرا سانس لیا اور کسی سرگوشی کی مانند گویا ہوئی:

 

“سو چھید ہو گئے رفو گر کے ہاتھ میں!”

وہ جو زندگی کے رنگ رکے ہوئے تھے، اچانک سے اس ہیولے سمیت غائب ہوگئے اور وہ پیوند ہوا کپڑا وہیں اس لڑکی کی گود میں پڑا رہ گیا. 

” اے زندگی! تیرے سو روپ! بتا کس روپ پہ میں بھروسہ کروں؟”

وہ سیاہ پیوند زدہ چادر اس نے کندھوں پہ ڈالی اور اس خزاں کے مارے درخت سے دور جاتے رستے پہ چل پڑی. 

جانے زندگی اسے اب کس موڑ پہ کس روپ میں ملے

(حرا اشفاق)

 

You may also like...