Philosophy of Hajj – By Nadia Umber Lodhi
by
Ravi Magazine
·
Published 17th August 2018
· Updated 19th August 2018
Makkah Aerial View
حج صرف اسلام کا ایک رُکن ہی نہیں عشق و سر مستی کی داستان بھی ہے ہر مسلمان کے لیئے اسلام کی تعلیم فرض ہے پھر جو عمل کی طرف بڑھا نماز اسکی محبت بن گئی روزہ اس کے لیئے عشق بن گیا اور حج دیوانگی۔
دو سفید چادروں میں عشق الہی میں دیوانہ وار جان مال اور ساری قوتیں بروز کار لانا عشق ہی تو ہےیہی آشفتہ سروں کو اللہ کے گھر مکے کی طرف کھینچتا ہے جو دنیا میں مثل فردوس ِبریں ہےجہاں عشق حقیقی سے لگی لو دیوانہ وار طواف کرواتی ہے۔
بی بی حاجرہ کی اسُ بے قراری کو جو نبی اسماعیل علیہ اسلام کے لیئے کی گئی تھی دہراتی ہے۔ یہ عشق و مستی کا سفر نبی ابراہیم علیہ اسلام سے شروع ہو تاہے۔
وہ ابراہیم جو بچپن سے اللہ کی راہ میں قربانی دیتے آۓ۔ آزر کا گھر ہو یا بت خانہ کفر ہو ہر جگہ توحید ربی کے لیئے آپ اٹھے لڑے اور کبھی نہ دبے
بے خبر کود پڑا آتش نمرود میں عشق
عقل ہے محو تماشاۓ لبِ بام ابھی
اقبال
نمرود نے آگ لگانے کی تیاری جب کی۔ آپ نہ ڈرے نہ گھبراۓ۔ شہر کے بیچوں بیچ ایک بڑا الاؤ دہکا دیا گیا حدت اس قدر تھی کہ قریب جانا ناممکن تھا آگ کی تپش۔ بال اور جلد جھلسا ۓ دیتی ۔ اب نبی ابراہیم علیہ اسلام کو تائب ہو نے کا کہا گیا بتوں کو مان کر جان بچانے کے لیئے اکسایا جانے لگا لیکن آپ نے اسی رب پہ یقین رکھا آگ کے اندر پھینکنا آدمیوں کے بس سے باہر تھا منجیق بنائی گئی ۔ آپ کو منجیق میں باندھا گیا بارش کا فرشتہ حاضر ہوا بارش کی اجازت طلب کی گئی ۔ آپ نے پوچھا تمہیں اللہ نے بھیجا ہے جواب ملا نہیں ۔ میں آپ کو جلتا نہیں دیکھ سکتا ۔ فرمایا جاؤ مرا رب مرے حال سے واقف ہے ۔ حضرت جبر آئیل تڑپتے ہوۓ آۓ ۔ ان سے بھی یہی سوال کیا گیا جواب ملا ۔ نہیں ۔ خود آیا ہوں ۔ فرمایا جناب ابراہیم علیہ اسلام نے ۔ جاؤ مرا حال مرے رب کے سامنے ہے وہ مجھے بچا لے گا۔ اللہ کے علاوہ کسی سے مدد نہیں لو نگا ۔ آگ دہک رہی تھی پرندے اپنی اپنی چونچوں میں پانی بھر بھر کر لاتے اور آگ بجھانے کی کوشش کرتے لیکن اس آگ کے لئے ان کافروں نے بہت عرصہ سے تیاری کی تھی آپ کو پھینک دیا گیا آپ آگ کے درمیان میں گرے اللہ تعالی کے حکم سے آگ ٹھنڈی ہو گئی ۔ اور گلزا بن گئی ۔ آپ کی قوت ایمانی نے آپ کو سرخ رو کیا۔
آج بھی ہو جو ابراہیم کا ایمان پیدا
آگ کرسکتی ہے انداز گلستان پیدا
اقبال۔
پچانوے سال کی عمر میں اللہ تعالی نے باندی حاجرہ سے صاحب اولاد کیا جن کا نام اسماعیل رکھا گیا تیرہ برس کی عمر کو پہنچ
ے تو خواب میں قر بانی کا حکم ملا تین رات مسلسل یہی خواب دیکھا تو نبی اسماعیل علیہ اسلام سے ذکر کیا وہ بولے بابا آپ مجھے فرمانبردار پائیں گے۔
بانی کی نیت سے پہاڑ کی طرف روانہ ہوۓ نبی اسماعیل نے اپنے والد سے کہا “ بابا مرا چہرہ نیچے کی طرف رکھئیے گا ۔ چھری خوب تیز کر لیجئے گا ۔ مری والدہ کو مرے خون والے کپڑے مت دکھا ئیے گا “ ۔ آپ نے اللہ کے حکم کی تکمیل کی اور نبی اسماعیل علیہ اسلام کی گردن پہ چھری چلا دی ۔ جنت سے ایک دنبا بھیجا گیا جو کہ آپ کی جگہ ذ بح ہوا ۔ اور اللہ تعالی نے آپ کی حفاظت فر ما ئی اللہ تعالی کے اس امتحان میں بھی آپ کامیاب ہوۓ ۔ اور آپ کی اس قربانی کو قیامت تک سنت بنا دیا گیا۔ اللہ تعالی کبھی کسی مسلمان کی قربانی کو ضائع نہیں کر تا ۔ وہ بہت قدر دان ہے ۔ بس ایمان ابراہیمی کی ضرورت ہے۔
نبی اسماعیل علیہ اسلام کی عمر مبارک تیس سال ہوئی تو نبی ابراہیم مکہ تشریف لاۓ اور آپ کو تعمیر کعبہ کا حُکم دیا ۔ دونوں باپ بیٹا پرانی بنیادوں پہ اللہ کے گھر کی تعمیر کر نے لگے ۔ نبی ابراہیم علیہ اسلام ایک پتھر پہ کھڑے ہو کر اینٹیں لگاتے ۔ معجزے سے یہ پتھر بلند ہو تا اور پھر نیچے واپس آتا جہاں تک ضرورت ہو تی۔ پھر اس تعمیر کا ذکر قرآن پاک کی زینت بنا دیا گیا سنت ابرا ہیمی کو سنت محمد بنا کر آج تک اللہ تعالی نے نبی ابراہیم کی قر با نیوں کو زندہ رکھا۔
آٹھ ہجری میں مکہ فتح ہوا۔ اور نو ہجری میں حج فرض کر دیا گیا۔ دس ہجری میں حضرت محمد عربی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے ساتھ بارہ ہزار مسلمانوں کو لیا اور عازم حج ہوۓ۔ آپ کا قافلہ ستائیس ذی القعدکو روانہ ہوا۔ راستے میں سے بھی مسلمان شامل ہوتے گئے اس طرح یہ تعداد ایک لاکھ ہو گئی۔
ابوہ کے مقام پہ پہنچے قافلے کو پڑاؤ کا حکم دے دیا گیا ابوہ کے مقام پہ ایک شہر آباد ہو گیا انتظامات سے مطمئن ہو کر مرے نبی حضرت محمد صل للّٰہ علیہ وآلہ وسلم اپنی والدہ بی بی آمنہ کی قبر پہ حاضری دینے پہنچے۔ آپ کی عمر مبارک اس وقت تریسٹھ برس تھی جب آپ کی والدہ کا انتقال ہوا آپ کی عمر مبارک چھ سال تھی اس مقام پہ دوران سفر آپکی والدہ انتقال فر ما گئی تھی۔ یہاں پہنچ کر آپ کا غم تازہ ہو گیا پہاڑوں کے بیچ اجاڑ جگہ پہ بی بی آمنہ مدفن ہیں۔ آپ قبر مبارک کے پاس بیٹھ کر رونے لگے اتنا روۓ کہ یتیمی کا کرب بھی تڑپ اٹھا۔
رات وہیں گزار دی۔ صبح قافلہ کی روانگی ہوئی ذوالحلیفہ کے مقام پہ احرام باندھا گیا لبیک لبیک کی صدا سے فضا جھوم اٹھی فرزندان توحید کا یہ قافلہ مکہ کی جانب چلا۔ مکہ معظمہ پہنچے۔ یہاں آپ نے مشرکانہ رسوُمات کا خاتمہ کیا۔ اسلام سے قبل کفار بھی حج ادا کرتے تھے اور بر ہنہ طواف کعبہ کرتے تھے آپ کی قیادت میں صدیوں کے بعد خالص دین ابراہیمی پر مناسک حج ادا کیے گئے۔آپ نے مقام سرف میں قیام فر مایا۔ مقام ابراہیمی میں دو رکعت نماز پڑ ھی اس کے بعد کوہ صفا پہ چڑھ کر تعلیمات اسلامیہ کو لوگوں کے سامنے پیش کیا۔ کوہ صفا کے بعد آپ نے کوہ مر وہ پہ مناسک حج طواف اور سعی کی اور آٹھ ذوالحجہ کو مقام منا میں قیام فر مایا آپ نے سر منڈوایا موُہ مبارک صحابہ میں تقسیم کیئے ناخن کاٹ کر زمین میں دباۓ اب قر بانی کا مر حلہ تھا۔ سو اونٹ آپ نے قربان کیئے۔ تریسٹھ اپنے دست مبارک سے اور باقی حضرت علی نے ز بح فرماۓ اس کے بعد حضرت علی سے فرما یا ہر اونٹ کے گوشت میں سے ایک ایک بوٹی لے کر سالن پکاؤ۔ وہ پکا کر لاۓ آپ نے کھانا کھایا۔ باقی سارا گوشت تقسیم فر مادیا۔ اس کے بعد خطبہ دیا گیا جو کہ خطبہ حجتہ الوداع کے نام سے مشہور ہے یہ نو ذوالحجہ دس ہجری کو دیا گیا جو کہ انسانی حقوق کا ایسا چارٹر ہے جس پہ عمل اگر کیا جاۓ تو دنیا جنت بن جاۓ۔ آپ صل للّٰہ علیہ وآلہ وسلم نے فر مایا:
“ سب تعریف اللہ کے لیئے ہے ۔ہم اسی کی حمد کرتے ہیں ۔اسی سے مدد چاہتے ہیں ۔اسی سے معافی مانگتے ہیں ۔اسی کے پاس توبہ کرتے ہیں ۔اور ہم اللہ ہی کے ہاں اپنے نفسوں کی برائیوں اور اپنے اعمال کی خرابیوں سے پناہ مانگتے ہیں۔
جسےوہ ہد ایت دے تو پھر کوئی اسے بھٹکا نہیں سکتا اور جسے اللہ گمراہ کردے اس کو کوئی راہ ہدایت دکھا نہیں سکتا۔ میں شہادت دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں وہ ایک ہے۔ اس کا کوئی شریک نہیں اور میں شہادت دیتا ہوں کہ محمد اس کا بندہ اور رسول ہے ۔
میں تمہیں اللہ سے ڈرنے کی تاکید اور اسکی اطاعت پہ پُر زور طور پہ آمادہ کر تا ہوں اور میں اسی سے ابتدا کر تا ہوں جو بھلائی ہے۔
لوگو ! سُن لو مجھے کچھ خبر نہیں کہ میں تم سے اس قیام گاہ میں اس سال کے بعد پھر کبھی ملاقات کر سکوں۔
ہاں جاہلیت کے تمام دستور آج میرے پاؤں کے نیچے ہیں۔ عربی کو عجمی پر اور عجمی کو عربی پر ،سرخ کو سیاہ پر اور سیاہ کو سرخ پر کوئی فضیلت نہیں مگر تقوی کے سبب سے۔
خُدا سے وابستہ انسان مومن ہو تا ہے اور اس کا نا فر مان شقی۔ تم سب کے سب آدم کی اولاد میں سے ہو اور آدم مٹی سے بنے تھے۔
لوگو ! تمہارے خون ، تمہارے مال اور تمہاری عزتیں ایک دوسرے پر ایسی حرام ہیں جیسا کہ تم آج کے دن کی اس شہر کی اور اس مہینے کی حُرمت کرتے ہو۔ دیکھو عنقریب تمہیں خُدا کے سامنے حاضر ہو نا ہے اور وہ تم سے تمہارے اعمال کی بابت سوال فر ما ۓ گا۔ خبردار مرے بعد گمراہ نہ ہو جانا کہ ایک دوسرے کی گردنیں کا ٹنے لگو۔
جاہلیت کے قتل کے تمام جھگڑے میں ملیا میٹ کرتا ہوں پہلا خون جو باطل کیا جاتا ہے وہ ربعیہ بن حارث عبدالمطلب کے بیٹے کا ہے۔
اگر کسی کے پاس امانت ہو تو وہ اس کو اس کے مالک کو ادا کرے اور اگر سود ہو تو وہ موقوف کر دیا گیا ہے۔ ہاں تمہارا سر مایہ مل جاۓ گا۔ نہ تم ظلم کرو نہ تم پہ ظلم کی جاۓ گا۔ اللہ نے فیصلہ فر مادیا ہے کہ سود ختم کر دیا گیا ہے اور میں سب سے پہلے عباس بن عبدالمطلب کا سود باطل کر تا ہوں۔
لوگو ! تمہار یزمین میں شیطان اپنے پوجے جانے سے مایوس ہو گیا ہے لیکن دیگر چھوٹے گناہوں میں اپنی اطاعت کیے جانے پر خوش ہے اس لئیے اپنا دین اس سے محفوظ رکھو ۔
اللہ کی کتاب میں مہینوں کی تعداد اسی دن سے بارہ ہے جب اللہ نے زمین وآسمان پیدا کئیے ان میں سے چار حُر مت والے ہیں تین ذیقعد،ذوالحجہ اور محرم لگاتا ر ہیں اور رجب اکیلا ہے۔
لوگو ! اپنی بیویوں کے بارے میں اللہ سے ڈرتے رہو۔ خدا کے نام کی ذمہ داری سے تم نے ان کو بیوی بنایا اور خدا کے کلام سے تم نے ان کا جسم اپنے لئیے حلال بنایا۔ اور تمہارا حق عورتوں پہ اتنا ہے کہ وہ تمہارے بستر پر کسی غیر کو نہن آنے دیں۔ لیکن اگر وہ ایسا کریں تو ان کو ایسی مار مارو جو نمودار نہ ہو اور عورتوں کا حق تم پر یہ ہے تم ان کو اچھے طرح کھلاؤ، اچھے طرح پہناؤ۔
تمہارے غلام تمہارے بھائی ہیں جو خود کھلاؤ ان کو کھلاؤ اور جو خود پہنو وہی ان کو پہناؤ۔
خدا نے وراثت میں ہر حقدار کو حق دیا ہے۔ اب کسی وارث کے لئیے وراثت جائز نہیں۔ لڑکا اس کا وارث ہے جس کے بستر پر پیدا ہوا ہو، زناکارکے لئیے پتھر ہے اور ان کا حساب خدا کے ذمے ہے۔
عورت کو اپنے شوہر کے مال میں اس کی اجازت کے بغیر لینا جائز نہیں۔
قرض ادا کیاجاۓ ۔امانت واپس کی جاۓ۔ عطیہ لو ٹایا جاۓ۔ ضامن تاوان کا ذمہ دار ہے۔
مجرم اپنے جرم کا ذمہ دار ہے۔ باپ کے جرم کا بیٹا ذمہ دار نہیں اور بیٹے کے جرم کا باپ ذمہ دار نہیں۔
اگر کٹی ہوئی ناک کا کوئی حبشی بھی تمہارا امیر ہو اور وہ تم کو خدا کی کتاب کے مطابق کے چلے تو اس کی اطاعت اور فرما برداری کرو۔
لوگو ! نہ تو مرے بعد کوئی نبی ہے اور نہ کوئی جدید امت پیدا ہونے والی ہے۔ خوب سن لو کہ اپنے پروردگار کی عبادت کرو اور پنچگانہ نماز ادا کرو۔ سال بھر میں ایک مہینہ رمضان کے روزے رکھو۔ خانہ خدا کا حج بجا لاؤ۔
میں تم ایک چیز کو چھوڑتا ہوں۔ اگر تم نے اس کو مضبوطی سے پکڑ لیا تو گمراہ نہ ہوگے۔ وہ کیا چیز ہے؟ کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ۔
اس جامع خطبہ کے بعد نبی محمد عربی نے مجمع سے فرمایا
“ لوگو ! قیامت کے دن خدا مری نسبت پو چھے گا تو کیا جواب دوگے ؟
صحابہ نے عرض کی کہ ہم کہیں گے آپ نے خدا کا پیغام پہنچا دیا اور اپنا فرض ادا کر دیا ” ۔
آپ نے آسمان کی طرف انگلی اٹھائی اور فر مایا ۔ “ اے خدا تو گواہ رہنا “ ۔ تین دفعہ کہا اور پھر ہدایت فر مائی۔ جو حاضر ہیں وہ ان لو گوں کو یہ باتیں پہنچا دیں جو حاضر نہیں ہیں۔
یہ ہمارے نبی محمد عربی کا آخری پیغام ساری نوع انسانیت کے لئیے اور مسلمانوں کے لئیے بطور خاص ہے۔
جس کو سمجھنے کی آج شدید ضرورت ہے اس دعوت انقلاب پہ عمل میں ہی مری ،آپ کی اور ساری دنیا کی نجات ہے۔
نادیہ عنبر لودھی
اسلام آباد
Tags: Hajj Nadia Umber Lodhi Urdu
You may also like...