:::::::::::::::::: To the reverence of Word, which makes sacred the tip of a Pen :::::::::::::::::: :::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::: لفظ کی حرمت کے نام ، جو نوک ِ قلم پر احرام بندھتا ہے :::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::
On 3 June 1947, the British Government announced its acceptance of the principle of federation suggested by the All-India Muslim League, i.e. two sovereign states...
Two Palestinian Poems by Mu’ine Bessissou The Moon Eighteen Years Later Here the footprints stop Here behind rocks, tents and trees The moon lies with...
Faiz Ahmed Faiz’s epic poem Tanhai has inspired many artists such as Sadequain. It remains one of Faiz Ahmed Faiz most melancholic poems, since most...
Mere Walid Qudratullah Shahab: Article by Saqib Shahab Qudratullah Shahab, a prominent civil servant and author is famed for his autobiography Shahabnama. GCU Lahore’s The...
The Ford Windstar commercial that spotlights the mothers among its engineers is among the best-liked car commercials measured since 1995 by Ad Track, USA...
Summary of External Loans and Grants for Pakistan (Lending Country/Agency) (PUBLIC SECTOR DEVELOPMENT PROGRAMME [PSDP] and external resources) Loans that Pakistan owes to different donors has...
توبتہ النصوح ———————– توبتہ النصوح ڈپٹی نذیر احمد کا شہرہ آفاق اصلاحی ناول ہے۔نذیراحمد ایک مذہبی پس منظر رکھتے تھے لہذا انکے تمام ناول مقصدیتکے تحت لکھے گئےان کا اسلوب ہر ناول میں ایک جیسا ہے ۔ ان کیہر ہر سطر سے وعظ کا عنصر چھلکتا ہے۔ اکثر مقامات پر لمبیتقریریں ناول میں بور ریت پیدا کرتی دکھائی دیتی ہیں ۔لیکن چونکہان کا مقصد اصلا حی ہے لہذا یہ خامی قابل قبول ہے۔ یہ ناول موجودہنوجوان نسل کو اسلام پہ عمل کادرس دیتا ہے جو کہ لائق ۔ تحسینہے ۔ یہ ناول ایم اے۔اردو کے نصاُب کا حصہ ہے ایم اردو کے طالب علم ہونے کے باعث ہم نے بھی اپنے زمانہ ۔طالبعلمی میں اس کو باریک بینی سے پڑ ھا لیکن مرے اس مضمون کاڈپٹی نذیر احمد کے ناول سے کوئی تعلق نہین ہے اور نہ ہی یہمضمون ڈپٹی نذیر کے ناول کی پیروڈی ہے نہ ناول پر تنقید مقصد ہےبلکہ یہ مضمون اسلامی تعلیمات توبہ اور استغفار سے متعلق ہے نامکی یکسانیت کی وجہ سے یہ تمہید باندھی گئی۔ توبتہ النصوح سے مراد حتمی توبہ ہے ایسی توبہ جس کے بعد گناہکی طرف واپس لوٹنا ناممکن ہو ۔انسان خطا کا پُتلا ہے ۔ اپنے ماضیپر نظر دوڑائیے ۔ ہم بے شمار گناہ کر کے بھول چکے ہیں ۔ کچھایسے ہیں جو یاد ہیں جن پر کبھی کبھی اشک ۔ ندامت بہا لیتے ہیں ۔کچھ ایسے ہیں جو وقت کی خاک میں مل کر خاک ہوۓ ۔جن کے نام ونشاں بھی مٹ گئے لیکن وہ کراماً کاتبین کے رجسٹر میں درج ہیں یہگناہ ہمارے ساتھ اعمال کی گھٹری میں بندھ کر قبر میں جائیں گے ۔ان گناہوں پر زبانی تو ہم استغفار کر لیتے ہیں لیکن عملی طور پر انسے تائب نہیں ہوتے ۔ یہ مثال دور ِ حاضر کے حاجیوں پر خوبصادق آتی ہے ۔ بیت اللہ کی حاضری قسمت والوں کا نصیب بنتی ہے ۔گڑ گڑا کر اپنے گناہوں کے معافی مانگنے کے بعد کاش کہ ان گناہوںسے اجتناب بھی لازم ہو ۔ اگر یہ حاجی خود کو تبدیل کر کے اپنیاصلاح کر لیں تو شاید ہمارا آدھا معاشرہ سدھر جاۓ لیکن پھر وہیلذت ِ گناہ ۔ جانتا ہوں ثواب طاعت و زہد پر طبعیت ادھر نہیں آتی (غالب) یہ زندگی جس کا آج ہم حصہ ہیں عنقریب اس کی ڈور ہمارے ہا تھوںسے چھوٹنے والی ہے ۔ زندگی جو بے بندگی ہو ۔شرمندگی بن جایا کرتی ہے ۔ دائرہ اسلام میں داخل ہو نے والے ہر مسلمان کا پہلا فرض نماز ہے ۔ موذن دن میں پانچ دفعہ اللہ کے گھر کی طرف بلاتا ہے اور ہم میںسے اکثریت سنی ان سنی کر دیتی ہے ۔جو قدم اٹھاتے ہیں ان میںسے خشوع وخضوع اور نماز کا فیض بھی ہر کسی کے حصے میںنہیں آتا ۔ ایسا کیوں ہے ؟ ہماری عبادات ہمیں وہ نور کیوں نہیں دے پاتی ۔جو ملنا چاہئیے۔ نماز بے حیائی اور بری باتوں سے روکتی ہے تو پھر ہم رک کیوںنہیں پا تے ۔ کیونکہ کمی ہماری نماز میں ہے ۔ مسجد تو بنادی شب بھر میں ایماں کی حرات والوں نے من اپنا پرانا پاپی ہے، برسوں میں نمازی بن نہ سکا اقبال کہیں حرام کا لقمہ پیٹ میں ہے تو کہیں دھیان دنیا میں ۔ کہیں نظر بے حیا ہے تو کہیں حقوق العباد سے غفلت ہے ۔ میر ا مالمیرا نہیں مرے رب کا دیا ہے ۔اسکے بندوں کا اس میں حق ہے مگرمیں تو اسے اپنا مال سمجھتا ہوں ۔اسکو اپنے اوپر خرچ کر تا ہوں ۔کسی کی ضرورت سے مری برانڈنگ زیادہ اہم ہے ۔جس ملک میںلوگ بھوک سے مجبور ہو کے خو کشی کریں ۔ لڑکیاں پیٹ کی آگبجھا نے کے لیے عزتیں نیلام کریں ۔وہاں میں ہزاروں روپے ایکوقت کی ہو ٹلنگ پہ خرچ کرتا ہوں ۔اور پھر مجھے دعوی ہے کہ میںمسلمان ہوں ۔ اپنےرسول کا امتی ہوں –سب سے بہترین صدقہ بھوکےکو روٹی کھلانا ہے ۔ جہنم میں جب مجرموں سے پو چھا جاۓ گا کہ تمہیں کیا چیز جہنممیں لائی ؟ تو وہ کہیں گے ...
جیسی رُوح ویسے فرشتے ——————- انسان کا دنیا میں آنا حکم ربی ہے ۔ جس میں اس کا ذاتی ارادہ شاملنہیں ہے ۔ زندگی گزارنے کے لیے وہ مقدر کا پابند ہے ۔ آزادی ارادہاس کی محدود ہے ۔ گلے میں صلیب مقدر ہے ۔ پھر جنت کا حصولکیسے ممکن ؟ ہر انسان کے سامنے دو راستے ہیں ۔ پہلا قدم وہ خیر یا شر کے تابعاٹھاتا ہے ۔ پھر اس راستے پہ آگے بڑ ھتا ہے ۔ اب اگر برائی کا راستہتو ضمیر کی آواز سنتا ہے کچھ پل کے لیے سوچتا ہے پھر یا توواپس پلٹ آتا ہے یا پھر سنی ان سنی کر کے آگے بڑ ھ جاتا ہے ۔آہستہ آہستہ اس کے قدموں میں روانی آجاتی ہے ۔ پھر وہ ایک ایسےمقام پر پہنچ جاتا ہے جہاں سے پلٹنا اسکے لئے ناممکن ہو جا تا ہے ۔ دنیا کیرنگینیاں اسے اپنے دامن میں سمیٹ لیتی ہیں ۔ موت سے آگاہ تو ہےلیکن دلی دور است ۔ لیجئیے ! اچانک بج گیا موت کا نقارہ ۔ اس کو کسی جان لیوا مرض نے آگھیرا ۔ ستر اسی سال دنیا پہ گزار کر بچوں کے بچوں کیشادیاں کرکے بھی جینے کی خواہش آخر ہے کیوں ؟ کیونکہ آخرت کی تیاری نہیں ہے کیونکہ مال و متاع گھر اور اپنےکمرے سے بے حد محبت ہے ۔ اب آہستہ آہستہ بھولے بسرے گناہیاد آنے لگے ۔ اپنے اعمال منہ چڑانے لگے ۔ اب قبر کی وحشتڈرانے لگی ۔ اب آنکھ سے آنسو بہنے لگے لیکن وقت ختم ہو نےوالا ہے ۔ اب مدت نہیں ہے باقی ۔ بیماری جھیلتے جھیلتے شکل بگڑ گئی ۔ جسم کا گوشت گُھل گیا ۔رنگ جل گیا ۔ پہچانے سے نا پہچانا جاۓ ۔ لیجئے عزرائیل موت کےہر کاروں کے ساتھ آپہنچے ۔ بدصورت شکلوں والے فرشتے ،بدبودار جہنمی کفن لیے ۔ دیکھتے ہی لرزنے لگا تڑپنے لگا ۔ فرشتےآگے بڑ ھے اس کی روح بدن میں دوڑنے چھپنے لگی ۔ کھینچیفرشتوں نے اس کی روح اسکے پاؤں میں سے ۔ ناقابل بیان اذیتسے سانس کی آوازیں تیز ہو نے لگی۔ بیقراری سے ایڑ یاں رگڑ نےلگا ۔ کبھی ٹانگ کھینچے کبھی سر جھٹکے کئی گھنٹے گزر گئے ۔ ابجان اٹک گئی ہنسلی کی ہڈی میں ۔ نرخرے کی آوازیں بلند ہونے لگی۔ گھر والے کفن دفن کی تیاریوں میں لگ گئے ۔ روح کو لڑتےلڑتےچھپتے چھپتے کئی گھنٹے گزر گئے ۔ فرشتوں نے زور سےکھینچا۔ لگایا آخری جھٹکا ۔ روح نکلی بدن سے ۔ انکھیں اوپر جا لگیجہاں روح گئی ۔ ابھی چھت تک بھی بلند نہ ہوئی تھی حکم آیا اسملعون کو زمین کی سات تہوں کے نیچے “سجین “بد روحوں کے دفترمیں داخل کر دو ۔ جیسے اعمال ویسی موت ۔جیسی روح ویسےفرشتے ۔ نادیہ عنبر لودھی اسلام آباد
Ravi Magazine is a tribute to Ravians, alumni of GCU Lahore, who over a history of 150 years shaped Arts, Literature, Politics and History of South Asia. Click here to learn about the Ravians in top banner.
Ghazal singing is unique genre from South Asia, which beautifully marries Urdu Love Poetry with Classical music. Download 100 Best Ghazals Ever in MP3, including Mehdi Hassan, Nusrat Fateh Ali, Jagjit and Chitra Singh, Tina Sani and more.