:::::::::::::::::: To the reverence of Word, which makes sacred the tip of a Pen :::::::::::::::::: :::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::: لفظ کی حرمت کے نام ، جو نوک ِ قلم پر احرام بندھتا ہے :::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::
Chotte Nana: Life of Nazir Hussain Siddiqui
Chotte Nana: Life of Nazir Hussain Siddiqui Download PDF version of Chotte Nana Life of Nazir Hussain Siddiqui
Investors and stakeholders of petrochemicals Industries: By Fayyaz Ashfaq
Last month, Saudi Aramco announced the achievement of SABIC, cumulative the stake of downstream monies within the Saudi oil hulk’s assortment. By acquiring the...
Muhabbat Ki Tajarrat Main Khasara Kaun Dekhe: Ghazal by Jabbar Anjam
Muhabbat Ki Tajarrat Main Khasara Kaun Dekhe: Ghazal by Jabbar Anjam
Khowahir: A Short Film Story on Sacrifice of a Sister: By: Muhammad Ammar Saleem
A Short Film Story on Sacrifice of a Sister: By: Muhammad Ammar Saleem خواہر وقت ایک برساتی بادل کی مانند ہوتا ہے۔ یہ فرش...
Aaway ka Aawa: Urdu Article by Nadia Umber Lodhi
آوے کا آوا ——- مملکت خدادِ پاکستان کی کیا بات ہے –آوے کا آوا ہی بگڑاہوا ہے – بارش کا آنا عذاب ہے اور نا آنا بھی عذاب ہے – ذہنیمعذور چوروں کا منہ چڑانا دردناک موت کو دعوت دیناہے – ہاں بڑے چوروں کے لیے یہاں کھلی معافی ہے –اب چور تو ہر میدان میں ہیں –برینڈز کے نام پر لان کاجوڑا ہزاروں روپے میں بیچنے والے کیا ہیں – ناجائزمنافع کمانے والے کیا چور نہیں ہیں ؟تعلیمی اداروں کےنام پر ماں باپ کولوٹنےوالےکالجز،یونیورسٹیز ،اکیڈمیز اور اسکول کیا کررہے ہیں ؟ جن خواتین کی شادیاں نہیں ہو پاتیں وہ گلی محلے کےپرائیویٹ اسکولوں میں استانیاں لگ جاتی ہیں –ننھےکچے ذہنوں کی آبیاری ان ناخواندہ ہاتھوں میں دے دیجاتی ہے – پھر پرائیویٹ ایم –اے کر لیتی ہیں اورسرکاری اسکولوں میں نوکری حاصل کرلیتی ہیں یہاں تووارے نیارے ہوجاتے ہیں – پرائیوٹ اسکول والے کام لےلے کے ان کی گت بنا دیتے ہیں چنانچہ باقی زندگی یہآرام فر ماتی ہیں اور ماضی کی تھکن اتارتی ہیں – اب مہنگے پرائیویٹ اسکولوں والے فیسسز کے نام پربھاری رقم بٹورتے ہیں – پھر شام میں اکیڈمیز میںٹیوشن کا سلسلہ بھی جاری رہتا ہے – کالجز والے بھی کسی سے کم نہیں ہیں – ان کی اکیڈمیزانٹری ٹسٹ کی تیاری کے لیے موسم گرما کی چھٹییوںسے خوب فائدہ اٹھاتی ہیں – بچوں کے والدین چھٹیوںکی فیس ادا کرتے ہیں – اور بچے گھر میں ماؤں کا دماغکھاتے ہیں – آج کے بچوں کا اہم مسلۂ فوڈ چوزنگ بھیہے جو کہ ماؤں کے لیے ایک الگ درد سر ہے – اب کالجکے اسٹوڈنٹ تو گھر بیٹھے ہیں – انٹری ٹسٹ دینے والےجو کہ مستقبل کے ڈاکٹرز ہیں – خطیر رقم دے کر اناکیڈمیز میں داخلہ لیتے ہیں – دور دراز علاقوں کےرہائشی ہاسٹلوں کے اخراجات بھی سہتے ہیں –انٹریٹسٹ کی تیاری کروائی جاتی ہے پھر تین ماہ سولی پےلٹک کے انتظار کیا جاتا ہے – اب جن کو داخلہ مل گیا ان کا تو بیڑا پار ہوا – باقی کیاکریں ؟ یونیورسٹیز کے ایڈمیشن اور انٹری ٹسٹ تو جون جولائیاگست میں ہو چکے – ستمبر سے بی –ایس کی کلاسزشروع ہو گئی – اب یہ بچارے اگلے سمسٹر کا انتظار کریں گے – پاکستان میں سب سے منافع بخش کاروبار تعلیمی ادارےکا قیام ہے – اس کے لیے کسی ڈگری کی ضرورت نہیںہے بس پیسہ جیب میں ہو تو چاندی ہی چاندی ہے –اسکول کھولیے کالج بنائیے پرائیویٹ یونی ورسٹیسجائیے – پیسے کمائیں –مزے اڑائیں اس طریقے پر عمل کرکے آپ بلیک منی کو وہائٹ بھیکرسکتے ہیں اور اپنی جہالت کو بھی چھپا سکتے ہیں – یہ سب سے زیادہ منافع بخش کاروبار ہے –جس میںنقصان کا کوئی اندیشہ نہیں ہے – —- نادیہ عنبر لودھی اسلام آباد
Meray Dhol Sipaahiya: Urdu Story by Muhammad Ammar Saleem
Meray Dhol Sipaahiya: Urdu Story by Muhammad Ammar Saleem آج بھی وہ حسبِ معمول سکول سے بھاگ آیا تھا۔ اسے روزانہ ہی سبق یاد...
Rattoo Totay: Urdu Article by Nadia Umber Lodhi
رٹو طوطے ———- پاکستان ایک ترقی پذیر ملک ہے – اس تنزلی کا سب سےزیادہ شکار تعلیم کا میدان ہے –نصاب برسوں پرانا رائج ہے –وہی گھسے پٹے طریقے ہیں –یہاں گریڈذ اہم ہیں لہذارٹو طوطے کامیاب ہیں –شوقیہ پڑ ھنے والوں کو کسییونی ورسٹی میں داخلہ نہیں ملتا کیونکہ وہ رٹو طوطےنہیں ہوتے –یہ ہی وجہ ہے کہ پاکستان کی کوئی یونیورسٹی ورلڈ رینکنگ (بین الاقوامی یونی ورسٹیؤں کیلسٹ ) میں پہلے دس نمبروں میں اپنی جگہ نہیں بناسکی – طب کے میدان میں بھی یہ ہی حال ہے –کڑوروں روپےانٹری ٹسٹ کے ضمن میں کمایا جاتا ہے –ڈاکٹری کیڈگری لینے والوں کا میعار آج دنیا میں پست ترین ہے–ایک ریسرچ کے مطابق پاکستانی ڈاکٹرز کو مہنگا اورنکماترین قرار دیا جا چکا ہے –کیونکہ تعلیم کاروبار بنچکی ہے – پاکستانی یو نی ورسٹیؤں نے ایم فل اور پی ایچ ڈی لیولپر انٹری ٹسٹ کے نام پر لاکھوں کی کمائی کو وطیرہ بنایاہوا ہے جب کہ یہ داخلہ صرف اپنی یونی ورسٹی کےسابقہ سٹوڈنٹس کو دیتے ہیں –یعنی اپنی کلاس کو ہیآگے لے کر جاتے ہیں پھر سفارشی امیدواروں کو بھی توداخلہ دینا ان کے فرائض میں شامل ہے – ہاں ! سفارشمگر وائس چانسلر کی ہونی چاہیے – انٹر ویو لسٹ میںچند گھنٹےکے بعد تین چار امیدوار مزید شامل کر دیےجاتے ہیں – پنسل سے نمبرنگ کی جاتی ہے –پھر نیچےوالے سفارشیوں کو لسٹ میں اوپر لایا جاتا ہے – اب رٹوطوطوں کی باری ہے –اے پلس گریڈ لینے والے یہ طالبعلم رٹے مار کے اے پلس گریڈ لے لیں گے لہٰذا ان کوانٹرو ویو میں صرف نام اور جی پی اے پوچھا جاتا ہے –لیجئے آگئی فرسٹ میریٹ لسٹ – کھچڑی زبان کے امیدواروں کی کھچڑی لسٹ تیار ہے –تخلیقی اور زرخیز ذہن کے مالک افراد کو یہ داخلہ نہیںدیں گے کیونکہ ذہانت ان کا معیار نہیں ہے – ان کا معیاران جیسے لکیر کے فقیر ہیں جن کے سامنے ان کےعلامہ ہونے کا پول نہ کھل سکے – –ایسے فارمولوں پر عمل کے باوجود ان کو ناکامی کاہی منہ دیکھنا پڑ تا ہے –آے دن ان نام نہاد جامعات جہاںتعلیم نہیں کاروبار کیا جاتا ہے –ان میں اعلی تعلیمیڈگریوں کے پروگرامز پر H E C کی طرف سے پابندیلگ جاتی ہے – دو تین سال کا عرصہ ان کا فیسوں کاکاروبار بند ہوجاتا ہے کیونکہ ان کے رٹو طوطے طالبعلم تھیسس اور کریڈٹ آورز مکمل نہیں کر پاۓ پھر یہسلسلہ دوبارہ جاری ہوجاتا ہے – رٹو طوطے ڈگری لے کر تعلیمی میدان میں استاد بھرتیہوجاتے ہیں –سنیر سبجیکٹ ٹیچر بن جاتے ہیں اور مزیدرٹو طوطے پیدا کرتے ہیں – ہر انسان جو دنیا سے لیتاہے وہی لوٹاتا ہے – سرکاری اسکولوں کے تعلیم یافتہاحساس کمتری کے مارے رٹو طوطوں سے جو انہوںنے سیکھا ہے وہی اگلی نسل کو منتقل کریں گے – یہاںنہ نظام بدلے گا نہ پاکستان سنورنے گا – جو انسان ہرمیدان میں ناکام ہوجاتا ہے وہ پاکستان میں استاد بن جاتاہے اور قوم کی تعمیر کا ٹھیکے دار بن جاتا ہے – جیسےاستاد ویسی قوم – پڑ ھے لکھے جاہلوں کی رٹو طوطا جماعت – یہ ہیںمستقبل کے معمار – نادیہ عنبر لودھی اسلام آباد پاکستان
Farwa: Urdu Afsana by Nadia Umber Lodhi
فروا —- وہ بھولی بھالی شکل وصورت والی معصوم بچی تھی جس کی عمر آٹھ سال تھی اس کا نام فروا تھی -اس کے والدین...
Akhtari: Urdu Afsana by Nadia Umber Lodhi
اختری (افسانہ ) اختری نے گھر کا کام ختم کیااور سفید تکیہ پوش پر رنگبرنگے چھوٹے چھوٹے پھول کاڑ ھنے لگی – اس کےہاتھ تیزی سے چل رہے تھے۔ اسے یہ کام جلدی مکمل کرناتھا اس کے بعد بستر کی چادرمکمل کر نا تھی – اختری یتیمتھی اس کا بچپن بہتکسمپرسی کے عالم میں گزراتھا –باپ اس کی پیدائش کےچند ماہ بعد چل بسا ۔ ایک بڑی بہن تھی اور ایک ماں –ماںمحنت مزدوری کر کے اندونوں کو پال رہی تھی –اکثرگھر میں کھانے کے لیےصرف روٹی ہوتی جب وہ ماںسے پوچھتی اماں !روٹی کسکے ساتھ کھائیں ؟ ماں جواب دیتی :منہ کے ساتھ۔ جیسے تیسے کرکے اس کابچپن گزر گیا –وہ بھی ماں کاہاتھ بٹانے کو سلائی کڑھائیکرنے لگی –لیکن یہ چادر اورتکیے اس کے جہیز کے تھےان پر لگے ہر ٹانکے میں اسکے ارمان پروۓ ہوۓ تھے ۔ان کے رنگوں میں اس کےخواب سجے تھے ۔کنواریآنکھوں میں سجے ایکشہزادے کے خواب – جس کاساتھ اس کی زندگی کو دلکش بنادے گا۔ اس کا تعلق مشترکہ ہندوستانکے گاؤں گورداسپور سے تھا–یہ جنوری ۱۹۴۷کا زمانہتھا – جنگ آزادی کی شدتمیں اضافہ ہوتا جارہا تھا –اکثرگلی میں سے گزرتے جلوسوںکے نعرے سنتی اختریمستقبل کے اندیشوں سےلاعلم تھی –اس کی عمر چودہسال تھی –اس نے ہوشسنبھالنے کے بعد صرف گھرکی چار دیواری دیکھی تھی–سیاست کی موجودہ صورتحال سے وہ بے خبر تھی–کبھی اماں سے پوچھتی کہجلوس کیوں نکلتے ہیں تو وہجواب دیتی :یہ انگریز سرکارسے آزادی مانگتے ہیں – آزادی کیا ہوتی ہے یہ سوالاس کے لیے عجیب تھاکیونکہ وہ ان پڑھ تھی –قرآناور نماز کی تعلیم ماں نے دیتھی اس کے نذدیک دین کاعلم ہی کل علم تھا –دنیاویعلم سے وہ بے بہرہ تھی –دو ماہ بعد اس کی شادی طےتھی – شادی کا دن آپہنچا –ماں نےاپنی حیثیت کے مطابق اسےرخصت کردیا – سسرال میںساس ،شوہر اور دیور تھے–نئی نئی شادی میں دہکتےجاگتے ارمانوں کا ایک جہانآباد تھا –یہ دنیا اتنیخوبصورت تھی کہ وہ ماضیکی سب محرومیاں بھول گئی–اس کا شریک ِحیات اس کےمقابلے میں بہت بہتر تھا پڑھا لکھا اور وجیہہ–اس کاشوہر سرکاری ملازم تھا –وہایف۔اے پاس تھا او ر محکمہڈاک میں کلرک تھا –خوابوںکے ہنڈولے میں جھولتے چندماہ لمحوں کی طرح سے گزرگئے – ملک میں فساداتپھوٹ پڑے –حالات دن بدنخراب ہوتے جارہے تھے –انکے سارے خاندان نے ہجرتکی ٹھانی –ضرورت کے چندکپڑے گھٹریوں میں باندھے–وہ جہیز جو اس نے بہت چاؤسے بنایا تھا حسرت بھرینظر اس پر ڈالی اور رات کیتاریکی میں سسرال والوں کےساتھ گلی کی طرف قدم بڑ ھادیے –وہ لوگ چھپتے چھپاتےشہر سے باہر جانے والیسڑک کی طرف قدم بڑ ھنےلگے – دبے پاؤں چلتے چلتےوہ شہر سے باہر نکلے–آبادی ختم ہوگئی تو قدموںکی رفتار بھی تیز ہو گئی–درختوں کے اوٹ میں ایکقافلہ ان کا منتظر تھا – جسمیں زیادہ تر خاندان ان کیبرادری کے تھے –قافلےچلنے میں ابھی وقت تھاکیونکہ کچھ اور خاندانوں کاانتظار باقی تھا – اس کی ماں اور بہن پہلے ہیپہنچ چکی تھی – اگست کامہینہ تھا ساون کا موسم تھاگزشتہ رات ہونے والی بارشکی وجہ سے میدانی علاقہکیچڑ زدہ تھا –اسی گرمی ،حبس اور کیچٹر میں سب لوگڈرے سہمے کھڑ ے تھے–گھٹریاں انہوں نے سروں پہرکھی ہوئی تھیں اتنے میںگھوڑوں کے ٹاپوں کی آوازسنائی دینے لگی –اللہ خیرکرے –قافلے والوں کی زبانسے پھسلا –چشم زدن میںگھڑ سوار قافلے والوں کےسروں پر تھے – ان کےہاتھوں میں کرپانیں اورسروں پر پگھڑیاں تھیں یہسکھ حملہ آور تھے –کاٹ دومُسلوں کو کوئی نہ بچے –صدابلند ہوئی –لہو کا بازار گرمہوگیا مسلمان کٹ کے گرنےلگے ان کے پاس نہ تو ہتھیارتھے نہ ہی گھوڑے – جان بچاکے جس طرف بھاگتے کوئیگھڑ سوار گھوڑے کو ایڑلگاتا اور سر پہ جا پہنچتا – اختری کا شوہر اور دیور بھیمارے گئے ۔چند عورتیں رہگئی باقی سب مار ے گئے –ان عورتوں کو گھڑ سواروںنے اپنے اپنے گھوڑوں پہ لادااور رات کی تاریکی میں گمہوگئے –شوہر کو گرتا دیکھکے اختری ہوش وحواس گمکر بیٹھی اور بے ہوش ہوگئی–رات گزر گئی دن کا اجالا نکلاگرمی کی شدت سے اختری کوہوش آیا تو چاروں طرفلاشیں بکھری پڑی تھیں اوروہ اکیلی زندہ تھی –اختری نےواپسی کے راستے کی طرفجانے کا سوچا اور شہر کیطرف چل پڑی –وہ ہندوؤں اورسکھوں سے چھپتی چھپاتیاپنے گھر کی طرف جانے لگی– گلی سے اندر داخل ہوئی توگھر سے دھواں نکلتے دیکھا– دشمنوں ے گھر کو لوٹ کےبقیہ سامان جلایا تھا نہ مکینرہے نہ گھر – وہ اندر داخلہوئی اور ایک کونے میں لیٹگئی – گزرا وقت آنکھوں کےسامنے پھرنے لگا اس کیآنکھوں سے آنسو گرنےلگے وقت نے کھل کے رونےبھی نہ دیا –زندگی کیا سے کیاہوگئی –انہی سوچوں میںغلطاں تھی کہ قدموں کی چاپسنائی دی –آج یہاں جشنمناتے ہیں – تین ہندو ہاتھ میںشراب کی بوتل لیے گھر میںداخل ہوۓ – اختری نے اردگرد نظر دوڑائی اپنی حفاظتکے لیے کوئی چیز نظر نہ آئی–وہ برآمدے میں بیٹھ گئے اورشراب پینے لگے اختری اندرکمرے کے دروازے کی درزسے انہیں دیکھنے لگی –انمیں سے ایک اٹھا اور بولا:تھک گیا ہوں آرام کرلوں ۔وہاختری والے کمرے کی طرفبڑ ھا اختری پیچھے ہٹی اورکسی برتن سے جا ٹکرائ۔اندر جانے والے نے چاقونکال لیا – شور کی آواز سےباقی دونوں بھی اٹھ کھڑےہوئے :کوئی ہے –یہاں کوئیہے – لڑکی ہے :پہلے والا بولا باقی دو کے منہ سے نکلا –لڑ کی پہلے والا ہاتھ میں چاقو لےکر اختری کی سمت بڑ ھااختری پیچھے ہٹتے ہٹتےدیوار سے جا لگی باقی دوبھی پہنچ گئے ایک نے چھپٹامار کے اختری کو پکڑ نے کیکوشش کی ۔اختری نے چاقووالے سے چاقو چھینا اورچشم زدہ میں اپنے پیٹ میںمار لیا ۔خون کا فوارہ ابل پڑا–اختری نیچے بیٹھتی گئیفرش پہ خون پھیلنے لگا اوراس کی گردن ڈھلک گئی مر گئی سالی: اُن میں سےایک کے منہ سی نکلا – — نادیہ عنبر لودھی اسلام آباد
Jalti Hui Waadi: Urdu Article on Indian Oppression in Kashmir
جلتی ہوئی وادی کشمیر جنت نظیر ہے لیکن آج پابہ زنجیر ہے مٹی کی محبت میں ہمیشہ آشفتہ سر دیدہ و دل فراش کر...
Memories of my Father Faiz Ahmed Faiz – Urdu Article By Salima Hashmi
Memories of my Father Faiz Ahmed Faiz – Urdu Article By Salima Hashmi
Lahore Jo Shehr Tha: Urdu article by Dr. Anees Nagi
Lahore Jo Shehr Tha: Urdu article by Dr. Anees Nagi
Short English Stories narrated by Zeenat Hussain: Download in MP3
Short English Stories narrated by Zeenat Hussain: Download in MP3
Earth is Better than Paradise: Allama Iqbal poem from Zabur-i Ajam
Earth is Better than Paradise: Allama Iqbal poem from Zabur-i Ajam The following poem is taken from Part II of Muhammad Iqbal’s Zabur-i Ajam (“Psalms...
Kuliyat e Aatish by Haider Ali Aatish (حَیدر علی آتِش ): Download PDF
Kuliyat e Aatish by Haider Ali Aatish (حَیدر علی آتِش): Download complete poetry diwan in PDF Haider Ali Aatish (حَیدر علی آتِش ) is...
Mussadis e Haali [Altaaf Hussain Hali]: Download PDF
Mussadis e Haali [Altaaf Hussain Hali]: Download complete collection in PDF Musaddas e Hali is a book the greater Philosopher Poet Dr. Allama Iqbal...
Amar Bail Full Urdu Novel – Umaira Ahmad
Umaira Ahmed’s is considered by critics as one of the finest Urdu novelists and drama writers of our times. With exceptionally popular novels such...
Ya Mustafa, Nur-ul-Huda, Sani Tera Koi Nahin – Ustad Nusrat Fateh Ali Khan’s Beautiful Naat
The other day I was listening to a splendid naat by Ustad Nusrat Fateh Ali Khan, which he sang in Paris in March 1988. I’ve...