Pachtaawa: Urdu Nazm by Farah Anwar
پچھتاواء – فرح انور
غم کیوں نہ ھو
اُمید کیوں نہ ھو
صبح کے انتظار میں
دوبارہ رات کیوں نہ ہو
سوچ کی قید میں
اکہڑتی سانس ہو
دل ڈوبنے لگے
پھر احساس کیوں نہ ہو
آنسوؤں کی ریت پر
لہریں بکھرنے دو
طوفان تھم جو جاےء
تو نشان کیوں نہ ہو
ہاتھوں کی بے بسی
پل بھر کی بےحسی
وقت جب پلٹ جاےء
تو کٹھراء کیوں نہ ہو
ظلمت کے چراغ لییےء
ثقافت رستہ ڈھونڈےگی
اندھیراء جب روشن لگے
آنکھیں کالی کیوں نہ ہوں
منافقت کے اُصولوں پر
روز فتوے دیتے ہیں
کوئ اپناء جو مر جاےء
پھر بازار بند کیوں نہ ہو
چُپکے سے جو پلٹی ہے
مُسافت اب بھی باقی ہے
مُجسمہ جان ہو جاےء
پھر پچھتاواء کیوں نہ ہو