Paani Ki Duniya: Urdu Research article by Ubaid Sahil
Paani Ki Duniya: Urdu Research article by Ubaid Sahil
The World of Water – پانی کی دنیا
پانی، زندگی کا سب سے اہم اور لازمی جزو ہے جس کے بغیر زندگی ممکن ہی نہیں۔ اگر ہم سادہ الفآظ میں پانی کے اصطلاح کو بیان کرنا چاہے تو یوں کریں گے کہ پانی ہائیڈروجن اور آکسیجن کے مالیکیولز سے بنا ایک مادہ ہے۔ جو کہ ٹھوس، مائع اور گیس تینوں حالتوں میں وجود رکھتا ہے۔ پانی کی اہمیت کا اندازہ آپ اس بات سے لگالیں کہ ہم جب خلائی دنیا میں کسی دوسرے سیارے یا ستارے پر زندگی دریافت کرنا چاہیں تو وہاں آکسیجن کے ساتھ پانی کا بھی جائزہ لیتے ہیں۔ اور آکسیجن اور پانی کی غیر موجودگی سے ہم معلوم کرتے ہیں کہ یہاں زندگی وجود نہیں رکھتی۔ انسان خوراک کے بغیر ایک مہینے تک زندہ رہ سکتا ہے لیکن پانی کے معاملے میں انسان ایک ہفتہ بھی زندہ نہیں رہ سکتا۔ لیکن اس قدر اہمیت کے حامل مادے کو ہم یا تو پینے کیلیے استعمال کرتے ہیں یا مختلف چیزوں کی صفائی کیلیے اور یا پھر خوراک بنانے کیلیے۔ کیا آپ نے کبھی سوچا ہے کہ پانی کی کتنی اہمیت ہے اور پانی کی دنیا کیسی ہیں۔ یقینا نہیں کیونکہ ہم ایسی “فضول” چیزوں پر اپنا قیمتی وقت ضائع کرنا نہیں چاہتے۔ آج اس کالم میں ہم پانی کی دنیا پر ایک سرسری سا نظر ڈالیں گے۔
آج تک دریافت شدہ زندگی کے %17 اقسام (Species) سمندری دنیا کو اپنا مسکن بنائے ہوئے ہیں۔ جن کی تعداد معلوم کرنا ناممکن ہے لیکن محققین یہ تعداد اندازا 10 لاکھ اقسام بتاتے ہیں۔ قابل استعمال پانی (Freshwaters) میں125,000 اقسام کے جانور، مچھلیاں اور نباتات اپنا وجود رکھتے ہیں۔ حالانکہ اگر ہم مقدار کا تناسب دیکھیں تو دنیا میں قابل استعمال پانی کا حصہ صرف %1 ہے۔ دھرتی کے پانیوں میں تقریبا 33,000 اقسام کی مچھلیاں وجود رکھتی ہیں۔ آپ نے آج تک صرف 3 یا زیادہ سے زیادہ 4 یا 5 اقسام کی مچھلیاں دیکھی ہونگی۔ لیکن دنیا میں کچھ مچھلیاں بہت ہی عجیب و غریب ہوتی ہیں۔ Leafy
SeaDragon
کے نام سے ایک عجیب مچھلی آسٹریلیا کے پانیوں کو اپنا گھر مانتی ہے۔ یہ مچھلی ایک بہت ہی الگ طریقے سے کیموفلاج کرتی ہے اور یہی کیموفلاج اس مچھلی کو مافوق الفطرت بناتی ہے۔ اگر آپ اس مچھلی کو دیکھیں تو یہ آپکو مچھلی کم اور پتہ یا جھاڑی زیادہ لگے گی۔ Vampire Squid کے نام سے جانے والی مخلوق ایک الگ ہی طرح کا وجود رکھتی ہے۔ یہ مخلوق ایسی گہری پانیوں میں رہتی ہے جہاں سمندری پریشر کا یہ حال ہوتا ہے کہ اگر غلطی سے بھی انسان اتنا نیچے پہنچ جائے تو سیکنڈوں میں کرش ہوجائیگا۔ Sea Pen کے نام سے مشہور ایک اور مخلوق آپکا دماغ چکرا دے گی۔ یہ مخلوق جو دنیا بھر کے سمندروں میں پائی جاتی ہے کسی عجیب جھاڑی کے پھول کا نظارہ پیش کرتی ہے۔
Sea Pen
اگر کبھی آپکا سامنا Eel مچھلی سے ہوجائے تو سب سے محفوظ طریقہ یہی ہے کہ آپ جتنا جلدی پانی سے بھاگ سکتے ہو بھاگ جائے۔ کیونکہ Eel مچھلی کے کچھ اقسام الیکٹرکل ہوتی ہیں اور یہ مچھلیاں ہر اس چیز کو 500 واٹ کا برقی جھٹکا دیتی ہیں جو ان سے ٹکراتا ہے۔ آپکو خوشخبری دوں کہ یہ الیکٹرک ایل مچھلیاں پاکستان سے بہت دور جنوبی امریکہ کے ایمزون جنگلات میں پائے جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ عجیب سمندری مخلوقات میں Peacock Mantis کیکڑا بھی اپنی ساخت کی وجہ سے مشہور ہے۔ Nudibranch نامی مخلوق یا جسے نیلی ڈریگن بھی کہتے ہیں ایک خوبصورت کلرفل سمندری مخلوق ہوتی ہے جو کہ انٹارکٹیکا کے آس پاس کے سمندری پانیوں میں پائی جاتی ہے۔ Sea Angel نامی سمندری گھونگھا ایک خوبصورت جسامت والا گھونگھا ہوتا ہے جو دیکھنے والوں پر اپنے حسن کا جادو کرتا ہے اور اسی وجہ سے اسے سمندری فرشتہ بھی کہتے ہیں۔
Sea Angel
اب دنیا میں پانی کم ہوا ہے یا مچھلیوں کو ہماری دھرتی پسند آگئی ہے کہ اب مچھلیاں بھی ہماری زمین کی طرف ہجرت کرنا چاہتے ہیں۔ کچھ مچھلیوں نے ایسی صلاحیتوں کو اپنایا ہے کہ اب وہ زمین پر زندہ رہ سکتی ہیں۔ محققین کی ایک ٹیم نے 11 اقسام کے ایسے مچھلیوں پر تحقیق کی جو کہ زمین پر زندہ رہنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ Snakehead نامی مچھلی مچھلیوں کا ایک پورا خاندان ہے جو کہ افریقہ اور ایشیاء کے کچھ حصوں کو اپنا مسکن بناتے ہیں۔ اس خاندان کی کچھ مچھلیوں نے زمین پر چلنا اور زندہ رہنا سیکھ لیا ہے۔ زمین پر چلنے کی صلاحیت رکھنے والی یہ مچھلیاں انڈونیشیا، چائینہ، روس، شمالی کوریا اور جنوبی کوریا کے پانیوں میں رہتے ہیں۔ ان مچھلیوں نے پانی کے باہر سانس لینا اتنی مہارت سے سیکھا ہے کہ یہ مچھلیاں ایک دریا سے نکل کر دوسرے قریبی دریا تک بہت مہارت سے بغیر ٹانگوں کے چل سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ Mudskipper مچھلی بھی پانی کے علاوہ زمین پر زندہ رہ سکتی ہے۔ اس مچھلی نے اتنی صلاحیت حاصل کی ہے کہ یہ دن کا %90 وقت پانی سے باہر گزارتی ہے۔ Mudskipper بھی مچھلیوں کا ایک پورا خاندان ہے اور اس خاندان میں 23 اقسام کی مچھلیاں پائی جاتی ہیں۔ اس خاندان کی مچھلیاں پاکستان سمیت ایشیاء کے بیشتر جنوبی ممالک، افریقہ اور آسٹریلیا کے بعض حصوں میں پائے جاتے ہیں۔
ہماری دھرتی پر 6,000 ایسے مخلوقات کے اقسام رہتے ہیں جو زمین اور پانی دونوں ماحول میں رہتے ہیں جنہیں سائینس کی زبان میں amphibians کہتے ہیں۔ ایسے مخلوقات میں بھی کئی اقسام بہت ہی عجیب ہوتے ہیں۔ Newt ایسے ہی جانداروں کا ایک گروپ ہے جو زمین اور پانی دونوں پر زندہ رہ سکتے ہیں اور یہ جاندار چھپکلی کیطرح ہوتے ہیں لیکن حقیقتا چھپکلی نہیں ہوتے۔ اس کے علاوہ ان جاداروں میں Gymnopis multiplicata نامی ایک جاندار سانپ کی طرح جسامت رکھتی ہے لیکن وہ بھی حقیقتا سانپ نہیں ہوتی۔ اس مخلوق کو بغیر ٹانگوں والا کیڑا بھی کہتے ہیں جو وسطی امریکہ کے ممالک کوسٹاریکا اور پانامہ وغیرہ میں پائے جاتے ہیں۔ Common Basilisks چھپکلی کی ایک قسم ہے جو پوری دنیا کے چھپکلیوں میں ایک منفرد حیثیت کی حامل ہیں۔ یہ جادوئی چھپکلی وسطی اور جنوبی امریکہ کے ممالک میں ہائی جاتی ہیں اور اس کی خصوصیت یہ ہے کہ یہ چھکلی پانی کے اوپر اس تیزی سے گزر جاتی ہے کہ پانی اسے ڈبو نہیں سکتا۔ جس تیز رفتاری سے یہ چھپکلی پانی کے اوپر دوڈ لگاتی ہے وہ سپیڈ ناقابل یقین ہے۔ اور اسی وجہ سے یہ چھپکلی پوری دنیا میں ایک منفرد مقام رکھتی ہے۔ اس کے علاوہ سانپوں کی دنیا میں 200 اقسام کے سانپ پانی میں زندہ رہ سکتے ہیں۔ یہ سانپ صرف امریکی براعظم میں پائے جاتے ہیں اور ان میں زہر نہیں ہوتا۔ ان جانداروں کو بہتر طور پر سمجھنے کیلیے آپ ان کو گوگل پر سرچ کرسکتے ہیں اور یوٹیوب پر ان کے متعلق ویڈیوز بھی دیکھ سکتے ہیں۔
Common Basilisk
وہیل (Whale) ایک آبی جانور ہے۔ بعض لوگ اسے مچھلی سمجھتے ہیں لیکن یہ ممالیہ ہوتا ہے۔ اس کے 90 اقسام سمندروں میں پائے جاتے ہیں۔ وہیل میں سب سے مشہور وہیل بلیو وہیل ہوتا ہے۔ یہ وہیل دھرتی کا سب سے بڑا جاندار ہوتا ہے۔ ایک بلیو وہیل جسامت میں تقریبا 25 ہاتھیوں جتنا ہوتا ہے۔ کبھی کبھی یہ وہیل 100 فٹ تک لمبے بھی ہوجاتے ہیں۔ بلیو وہیل کا صرف دل 180 کلوگرام وزنی ہوتا ہے۔ تعجب اور افسوس کا مقام ہے کہ بلیو وہیل اتنی بڑی جسمات کے باوجود انسانی بربریت سے نہ بچ سکے اور اب دنیا میں تقریبا 25 ہزار بلیو وہیل ہی زندہ رہ چکے ہیں۔ انسانوں نے اپنے فائدے کیلیے بلیو وہیل کی بے دردی سے نسل کشی کی۔ ہماری دھرتی کے پانیوں میں اب بھی لاتعداد اقسام کے جاندار ایسے ہیں جنہیں کبھی کسی انسانی آنکھ نے دیکھا اور نہ ہی کبھی کوئی انسان وہاں پہنچ سکا۔ ہماری کائنات قدرت کے عجوبوں سے بھری پڑی ہے۔ آپ ایک ایک جاندار پر تحقیق شروع کریں تو انسانی زندگی ختم ہوجائیگی لیکن قدرت کی لازوال وسعت تک ہم کبھی نہ پہنچ سکیں گے۔
صنعتی انقلاب کے بعد جس طرح پوری دھرتی کا ماحول خراب ہوا ہے اس سے کہیں زیادہ نقصان ہم نے پانی کی دنیا کو ہہنچایا ہے۔ پانی کے ذخائر بد ترین آلودگی کا شکار ہے اور ہماری زیادہ تر جسمانی مسائل کا سبب بھی پانی کی گندگی ہوتی ہے۔ مسقبل قریب میں پانی ناپید ہوجائیگا اور جدید دنیا کے سائینسدان دعوی کرتے ہیں کہ تیسرا جنگ عظیم پانی کے حصول کیلیے لڑا جائیگا۔ نیشنل جیوگرافک سوسائٹی کے مطابق ہماری دنیا اپنی %71 قابل تجدید توانائی پانی سے پیدا کرتی ہے۔ یہ اتنا بڑا نمبر ہے کہ اگر دنیا سے پانی ختم ہوجائے تو دنیا کی %71 توانائی ختم ہوجائیگی۔ اور اگر ہم نے کوئی دوسرا سسٹم زیر استعمال نہیں لایا تو امید ہے کہ آدھی دنیا پتھر کے زمانے تک پہنچ جائے۔ ہم پانی کے %15 ذخائر کو گھریلوں سرگرمیوں میں استعمال کرتے ہیں اور %70 ذخائر کو زراعت کیلیے استعمال کرتے ہیں۔ ہر دن صرف امریکہ میں 400 ارب گیلن پانی استعمال کیا جاتا ہے۔ دھرتی پر موجود پانی کا %97 حصہ سمندری پانی کا ہے جو پینے کا قابل نہیں ہے۔ باقی %2 پانی گلیشیرز میں جما ہوا ہے۔ باقی بچا ہوا صرف %1 پانی ہم استعمال کرتے ہیں۔ دنیا میں %80 بیماریاں پانی کی وجہ سے جنم لیتی ہیں۔ ایک گھنٹے میں پوری دنیا سے 200 بچے غیر معیاری پانی کی وجہ سے مر جاتے ہیں۔ ہر سال پوری دنیا سے 2 ارب 70 کروڑ کلوگرام وزنی گندگی پانیوں میں پھینکی جاتی ہے۔ ہماری یہی پھینکی ہوئی گندگی سالانہ تقریبا 15 لاکھ کمسن بچوں کی موت کا ذریعہ بنتی ہے۔