نہ کوئی سکھ بچا ہے دل لگانے کے لیے
ایک یہی دکھ بہت بے مرجانے کے لیے
ہم عرصے سے گامزن ہیں سفر انجان پر
اب کتنی دوری باقی بے تھم جانے کے لیے
كون جانے کیسے شب بیتی ہے تنہائی میں
رات کے کاندھے پر نم آنکھیں بہانے کے لیے
بائے یہ نیک لوگ معاوضہ بھی نہیں لیتے
حسین زندگی کو کانٹوں سے سجانے کے لیے
اے عشق اک یہی سوال ہے تجھ سے فقط
اور کتنی آگ بچا رکھی ہے دل جلانے کے لیے
هجوم محبان تو زندہ ہے اس آس پر
اک ہجر درکار ہے انہیں لوٹ آنے کے لیے
مت پوچھو کیا کیا جھیلنا پڑتا ہے گمنام
دریدہ دل شخص کو شاعر کہلانے کے لیے
گمنام