Muddat Ke Baat: Ghazal by Simon Akhtar

Muddat Ke Baat: Ghazal by Simon Akhtar

مُدت کے بعد اُس سے ملاقات جو ہوئی
مت پوچھ مجھ سے یار، اُس رات جو ہوئی
اُس کو لگا میں اب تک وہیں پہ ہوں کھڑا
یادوں میں، تنہائیوں میں، فِکروں میں ہُوں پڑا
یوں ہی تو مجھ کو آخر چھوڑا گیا تھا نا! 
اُمید دے کے بعد میں توڑا گیا تھا نا! 
وہ منتظر تھا جیسے گزشتہ ایام میں
سب بھول کے میں ہو جاؤں مَحو کلام میں
وہ سمجھا میں دیکھوں گا اُسے مانندِ طِفل
لیکن نہ آنکھیں نَم ہوئیں، بوجھل ہُوا نہ دِل
اب میں بھی چل پڑا تھا نئے راستوں کی اَور
نہیں تھا نیا کوئی تعلق بھی زیرِ غور
اِک بے خیالی طاری، دِل بھی سکون میں
جیسے ستارے گُم ہوں شب کے جنون میں 
کارِ جہاں ہیں دلفریب تیرے فریب سے
پاؤں کے چھالے بہتر تیری پازیب سے
(سائمن اختر) 
ram-palaparty-love-poem-rain-unsplash

You may also like...