Meri Be-Sakooni: Urdu Article by Rimsha Shah
“میری بے سکونی”
سب کچھ کتنا آگے نکل جاتا ہے نہ کچھ لوگوں کی زندگیوں میں، پر کچھ اسی سمندر کے کنارے پر وہی کھڑے رہ جاتے ہیں۔ اس سمندر کے شور کے ساتھ اپنے اندر کا خالی پن نہیں بھر پاتے۔
“میں تو ان سمندر کی ہواؤں میں الجھی ہوں
پلٹنے کا سوچتی ہو تو ہر راہ بھول جاتی ہوں
ان سے دور جا تی ہوں تو اپنا آپ کھو جاتے ہو”
زندگی کا سفر تو اکیلی گزارنا ہے پر یہ رشتے اپنوں کے ہر موڑ پہ ساتھ دیتے ہیں۔
” ساتھ بہت لازم ہے ان سانسوں کے لئے
یہ روٹھ جائیں تو سانسوں پہ بس نہیں ہوتا”
لیکن، وقت بدلتا ہے لوگ بدلتے ہیں اپنے بدلتے ہیں اور ساتھ چھوٹ جاتا ہے۔ اس بے رحم دنیا میں، اس کم زندگی کے ہر پلوں میں ہم اکیلے رہ جاتے ہیں اپنے اندر کی تنہائی اور گھٹن کو کم نہیں کر سکتے۔
” بڑے وعدے کئے تہے ساتھ نبھانے کے
تنہائیوں میں چھوڑ گئے بکھرنے کے لیے”
ہم بہت مضبوط بنتے ہیں ہر راہ پہ ڈٹ کے چلتے ہیں، یہ زخمی روح اندر سے تنہا ہوتی ہے۔
ہم مسکرا تو سکتے ہیں پر ان آنکھوں کی تنہائی کو چھپا نہیں سکتے۔
غیروں کو تو چھوڑو اپنے بھی ساتھ نہیں دیتے ہیں۔
ہماری ایک خطا نے زندگی چھین لی ہم سے، جب ہم صحیح راہ ڈھونڈتے ہیں یہ لوگ وہ راہ پانے نہیں دیتے یہ نہیں بہولنے دیتے کہ ہم خطاوار نہیں۔
ہیں تو ہم بھی انسان ہیں اور وہ بھی، پر پھر بھی ہمیں معافی نہیں ملتی ایک خطا کی۔
جب کوئی صحیح رہا دکھتا ہے تو یہ لوگ اسے غلطیاں یاد دلاتے ہیں پر اپنی کوئی نہیں دیکھتا نہ یہ سوچتا ہے کہ ہم بھی انسان ہیں ہم بھی غلط ہو سکتے پر ہم بس یہ دیکھتے کہ سامنے والا غلطی پہ ہے۔ تم مجھ سے بھولنے نہیں دیتے اور نہ اچھا بننے دیتے ہیں۔
ہم اچھا بننا چاہیں تو یہ لوگ بھولے نہیں دیتے، کتنے بے رحم ہیں یہ لوگ آخر ہم بھی انسان ہیں کیا ہمارے احساس نہیں.
کیا خدا ہمیں سزا نہیں دے گا تو کیوں یہ لوگ بھولے نہیں دیتے . معاف تو خدا بھی کرتا ہے تو یہ کیا ہیں کون ہے یہ لوگ بس مٹی کے پتلے.
ظالم دنیا, ظالم سماج ، ظالم شخص
بس یہی میری بے سکونی کی وجہ ہے مجھے سکون نہیں ان لوگوں میں۔ بس دور اڑ کے جانا چاہتی ہوں۔ جہاں یہ لوگ یہ سماج نہ ہو۔ دور بہت دور کہیں گم ہونا چاہتی ہوں۔
” اڑ کے بہت دور جانا ہے سکون کے لیے
اب یہ دل نہیں دھڑکنے کے لیے”۔۔۔۔۔