Meray Dhol Sipaahiya: Urdu Story by Muhammad Ammar Saleem

Meray Dhol Sipaahiya: Urdu Story by Muhammad Ammar Saleem

 

آج بھی وہ حسبِ معمول سکول سے بھاگ آیا تھا۔ اسے روزانہ ہی سبق یاد نہ ہونے پر سکول کے ماسٹر سے مار پڑتی اور اب اس ڈر سے بھاگ آنا اس کی عادت بن چکی تھی۔ باپ اس کا معمولی کسان تھا۔ماں اس کی محلے کی درزانی تھی اور کپڑے سی کر اپنے بیٹے کا جیب خرچ برداشت کیا کرتی تھی۔ یہ ان کا اکلوتا بیٹا تھا جس کا نام قیصر تھا۔ جو بہت سی منت اور مرادوں سے تین بیٹیوں کے بعد انہیں نصیب ہوا تھا۔ یہ باپ کی امیدوں کا واحد محور تھا اور سہارا بھی۔ ماں کے ارمان صرف اسی کی خوشیوں سے جڑے تھے۔ اس کا بچپن بھی روایتی تھا۔ پڑھائ کے علاوہ یہ دن میں ہر کام کیا کرتا تھا۔ کبھی پتنگ اڑاتا نظر آتا تو کبھی گلی ڈنڈا، کبھی بنٹے کھیلتا تو کبھی پرانے ٹائروں کو ہاتھ میں چھڑی لیے گھماتا اور بھگاتا، سب سے بڑھ کر یہ کہ باقی محلے کے لڑکوں سے لڑنا جھگڑنا اس کا بہترین مشغلہ تھا، سارا محلہ اس کے رویے سے تنگ آچکا تھا۔ آئے روز اس کی شرارتوں کی شکایت اس کے باپ اسلم تک آن پہنچتی اور وہ یہ چیز کبھی برداشت نہ کر سکتا تھا۔ اسے وہ پیٹنے ہی لگتا تھا کہ قیصر اپنی ممتا سے لپک جاتا۔ قیصر کی تو اکثر بچت ہو جاتی پر گھر میں اس کی ماں بشیراں اور باپ اسلم کی ایسی جنگ شروع ہوتی کہ سارا گاؤں تماشہ دیکھتا اور سب ان پر ہنستے۔ اسلم کا یہی طعنہ ہوتا کہ یہ ماں کا ہی لاڈ ہے جس نے اسے بگاڑا ہوا ہے پر ماں کا ایک ہی جواب اسے خاموش کروادیتا کہ ” ایک ہی تو بیٹا ہے، اسے بھی مار دو”. قیصر کی تینوں بڑی بہنوں کی شادی ہو چکی تھی اور اب یہ ان کا آخری وارث تھا۔ اسلم کی امیدیں ہر گزرتے دن کے ساتھ ٹوٹ رہی تھیں کیونکہ قیصر پڑھائ میں ذرہ دلچسپی نہ لیتا تھا۔ ان کے پڑوس میں لڑکا اسی کی جماعت میں پڑھتا تھا کس کی ہمیشہ اول پوزیشن آتی اور وہ اسلم کو اپنا نتیجہ طنزیہ انداز میں اپنے والد کے ساتھ دکھانے آجاتا۔ اسے دیکھ کر اسلم خود پر قابو نہ پا سکتا کیونکہ قیصر بمشکل ہی امتحان پاس کرپاتا تھا۔ اب گزرتے دن کے ساتھ قیصر کو بھی احساس ہونے لگتا ہے کہ وہ باپ کو مایوس کر رہا ہے۔وہ اپنے باپ سے اتنا دور ہوچکا ہے جس کی وجہ صرف ایک انجان ڈر اور خوف ہے جس کے باعث وہ اپنے باپ سے دل کی باتیں کرنے سے محروم ہو جاتا ہے۔ وہ ہر شام ماں کی گود میں لیٹے ہمیشہ ایک بات کہتا ہے کہ وہ دن جلد آئے گا اور آنے والا ہے جب میرے باپ کو مجھ پر فخر ہوگا اور ان دنیا والوں کو بھی پتا چلے گا کہ میں نے کیا حاصل کیا ہے۔ اور اس کی باتیں سچ ہونے والی تھی کیونکہ یہ اس کی قبولیت کی گھڑی تھی مگر اس کی ماں کو علم نہیں تھا کی یہ کس اعزاز کی بات کر رہا ہے ،بس وہ بھی اسے دلاسا دیتی کہ ایسا ہی ہوگا اور میرا پتر بڑا آدمی بنے گا۔

قیصر اب دہم جماعت میں پہنچ چکا تھا۔ اس کی ایک روز گائوں کے ایک فوجی سے ملاقات ہوگئ اور اس کے بعد قیصر کو فوج میں بھرتی ہونے کا اشتیاق ارنا بھڑتا گیا کہ دہم کے جیسے ہی امتحانات ختم ہوئے تو اس نے اپنے لاچار باپ سے جو کبھی اس کی بات کو ٹال نہیں سکا تھا، اجازت مانگی کہ وہ فوج میں بطور سپاہی بھرتی ہونا چاہ رہا ہگ اور وہ یہ شوق سے کرنا چاہتا ہے۔ اسلم کا یہ سن کر جیسے کوئ سپنا ٹوٹ گیا ہو ، پر وہ پھر بھی خاموش بیٹھا رہتا ہے۔ اس کی خواہش تھی کہ اس کا وارث کچھ بڑا کری پر شاید اپنے بیٹے کی خواہش نے اس کے باپ کے خوابوں کے محل گرا دیا تھا۔ اسلم قیصر کے بچپن سے اب تک کے سفر نظر ڈالتا ہے تو اسے کوئ خاطرخواہ نتائج برآمد نہیں ہوتے اور وہ مجبوری اور ناراضگی کے عالم میں اسے اجازت دیتا ہے کہ قیصر جو کرنا چاہتا ہے، اس کا باپ اس کی ہر حال میں حمایت کرے گا۔ یہ سن کر تو قیصر جیسے پھولا نہ سمایا اور باپ سے پہلی بار گلے ملا پر شاید وہ یہ نہیں جانتا تھا کہ یہ اس کی آخری بار بھی ہوگی۔ ایک طرف ماں ہے جو اسے فوج میں جانے سے روکتی نظر آتی ہے پر قیصر کے جنون کے سامنے وہ بھی بے بس دکھائ دے گی۔ وہ روک بھی نہیں سکتی۔ قیصر میڑرمک میں اتنے نمبر حاصل کرنے میں کامیاب ہو جاتا ہے کہ فوج میں بھرتی میں کوئ اسے دشواری نہ ہو۔ ایک ہی ماہ بعد اسے فون آتا ہے کہ اس کی ڈیوٹی بھارت اور پاکستان کی سرحدی لائن پر لگ چکی ہے اور وہ جلد از جلد رپورٹ کرے۔ ماں کو معلوم ہے کہ وہ جگہ بہت خطرناک۔ہء جہاں ہر وقت گولیوں کی بوچھاڑ ہے۔ پر قیصر تسلی دیتا ہے کہ اسے کچھ نہیں ہوگا۔ ماں اسے بوسا دیتا ہگ اود بوجھل دل سے روانہ کرتی ہے۔

وقت گزرتا جاتا ہے، قیصر کی طرف سے گھر کے لیے نہ کوئ پیغام آتا ہے اور نہ کوئ چٹھی کیونکہ جس محاذ پر وہ گیا ہے وہاں مواصلاتی نظام کا کوئ انتظام نہیں۔ سپاہیوں کی بس توپوں اور بندوقوں کے ساتھ زندگی گزرتی ہے۔ ان کے سانجھی ساتھی بس وہاں موجود سپاہی ہی ہوتے ہیں۔ موسم کی شدت میں بھی انہیں سینہ تان کر کھڑا ہونا ہوتا ہے اور قیصر وہی ماں کا بیٹا ہے جو کبھی موسمی تبدیلی سے بیمار نہ ہوا کرتا تھا تھا کیونکہ اس کی ماں حفاظت کے لیے کھڑی رہتی تھی اور اب بھی وہی قیصر پر فرق اتنا ہے کہ اب یہ اپنی ماں کی حفاظت پر مامور ہے، دھرتی ماں کے لیے وہ جان کو ہتھیلی پہ رکھے بے خوف و خطر کھڑا ہے۔

پیچھے گھر میں اسکے بشیراں تڑپ رہی ہے، وہ بیٹے کی شکل نہ دیکھنے پر بے چین ہے ۔ اس کی راتوں کی نیند اب اڑ چکی ہے۔ ساتھ اسلم بھی اتنا کمزور ہو چکا ہے کہ وہ بشیراں کو تو دور خود کو تسلی دینے سے بھی قاصر ہے۔

ایک دن بشیراں کو معلوم ہوتا ہے کہ وہ فوجی جس نے قیصر کی بھرتی کروائ، وہ اپنی چھٹی مکمل کر کے واپس جا رہا ہے ، بشیراں جھٹ پٹ اپنی بیٹی کے گھر جاتی ہے اور قیصر کے نام اس سے خط لکھواتی ہے۔ یہ خط وہ اس فوجی کے ہاتھ تھما دیتی ہے کہ میرے قیصر تک پہنچا دے۔ ایک سال گزرنے کو ہے، قیصر کو گھر کا نہ گھر والوں کو قیصر کا علم ہے۔۔ جب خط قیصر کے ہاں پہنچتا ہے تو خوشی سے اس کی آنکھیں نم ہو جاتی ہیں۔ وہ جھٹ سے خط کو کھولتا ہے جس میں اس کی ماں لکھتی ہے ” پتر، میرا سوہنڑا پتر ،مجھے نہیں معلوم تیری اس وقت کیا حالت ہے، تو مجھ سے بہت دور چلا گیا ہے، میں اور تیرا باپ تو اکیلے رہ گئے ہیں، تیرے انتظار کا ہر ایک دن ہم پر بھاری پڑتا ہے۔ تیرا باپ تجھ سے ناراض ہے اور پتر ہو کمزور ہوتا جا رہا ہے۔ وہ اب سہارے کے بل چلتا ہے۔ خوشیاں تو اس گھر میں بس خواہش ہو کر رہ گئ ہیں۔  بس مجھ سے اور انتظار نہیں ہو سکتا۔ اس لیے پتر میں نے سوچا ہے کہ اب تو جیسے ہی پہلی چھٹی پر گھر آئے گا تو میں تیری شادی کرادوں گی۔ میں نے سارے انتظام شروع کردیے ہیں۔ تیرا باپ بھی میرا ساتھ دے رہا ہے اس سے بڑھ کر تیرے کے لیے کیا خوشی کی بات ہو گی۔ ہم نے تیرے مامے کی بیٹی سے تیری بات بھی پکی کر لینے ہے کچھ دن میں اور مجھے پتا ہے تجھے اس رشتے میں کوئ مسئلہ نہیں ہوگا۔ میں نے محلے کے ہر ایک بندے کو دعوت دینی، تیرا سہرا بھی تیار کروانے کے لیے دینا ہے، ہر۔رشتےدار کو گھر بلانا ہے، اور میں نے اپنے پتر کی شادی اتنی دھوم دھام سے کرنی ہے کہ سارا جہان دیکھے گا۔ میرا یہ ارمان بہت جلد پورا ہونے والا ہے۔ میں واری جائوں تجھ پہ۔یری ہر خوشی تیری خوشی سے جڑی ہے۔ بس تو جلدی سے آجا۔ شادی کا جوڑا بھی تیار ہونے کے لیے دینا ہے جس میں سنہرے رنگ کے بٹن جڑے ہوں گے جو تجھے بچپن سے پسند ہیں۔ بس اب اور انتظار نہ کروا۔ تیری بہنیں بھی تیرے ہاتھوں پہ مہندی لگانے کو تیار بیٹھی ہیں۔ اپنا بہت سا خیال رکھ اور جلدی سے آجا۔”

یہ پڑھ کر قیصر ایک ایسے ننھے بچے کی طرح زاروقطار رونے لگتا ہے جو مڈبھیڑ میں اپنی ماں سے بچھڑ گیا ہو۔ اس کے رونے کی آواز کمرے سے باہر تک جاتی ہے جسے ایک فوجی افسر سنتا ہے تو سیدھا قیصر کی جانب بھاگتا ہوا آتا ہے۔ وہ قیصر کی جسمانی پھرتی سے اچھی طرح واقف ہے اور جانتا ہے کہ قیصر ایک مضبوط شخصیت کا حامل انسان ہے جو کسی بھی حالت کا ڈٹ کر مقابلہ کرسکتا ہے۔ لیکن قیصر کو اس حالت میں دیکھ کر وہ حیرت میں مبتلا ہو جاتا ہے۔ وہ پوچھنے ہی لگتا ہے کہ اس کی نظر سامنے پڑے خط پر پڑتی ہے۔ پھر وہ خاموش ہو جاتا ہے۔ قیصر کے کندھے پر ہاتھ رکھتا ہے۔ قیصر جب دیکھتا ہے کہ اس کا افسر ساتھ کھڑا ہے تو وہ جلدی سے اٹھ کھڑا ہوتا ہے اور سیلوٹ کرنے لگتا ہے کہ وہ کیپٹن ندیم اسے اپنے گلے لگا لیتا ہے اور کہتا ہے کہ قیصر تم اگلے ہفتے گھر جا رہے ہو۔ یہ سن کر جیسے قیصر پھولا نہ سمایا۔ ابھی بات جاری ہی ہوتی ہے کہ ایک فوجی بھاگتا ہوا کمرے میں داخل ہوتا ہے اور کیپٹن ندیم کو سیلوٹ کر کہ آگاہ کیا “سر ،دشمن نے بھاری گولہ باری اور فائرنگ شروع کردی ہے، ہمارے کچھ جوان زخمی ہیں۔ یہ سن کر تینوں باہر کی جانب دوڑتے ہیں، قیصر جاتے جاتے وہ خط بھی اپنی وردی میں ڈالتا ہے۔ وہ مورچے میں جا کر اپنی مشین گن سے گولیاں برسانا شروع کردیتا ہے ۔ اسی کشمکش میں ایک بارودی گولہ اس کے مورچے پر آگرتا ہے اور اس کا جسم لہو لیان ہو جاتا ہے۔ ابھی باقی جوان اسے ریسکیو کرنے پہنچ ہی رہے ہوتے ہیں کہ ایک گولہ پھر سے اس مورچے کو نشانہ بناتا ہے اور قیصر زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے اس وطن پہ اپنی جان نچھاور کردیتا ہے۔ ابھی اس کی آخری سانس باقی ہوتی ہے جب وہ ہمت کر کے اس خط کو اپنی جیب سے نکالتا ہے اور اس کو چوم کر اپنی آنکھوں سے لگاتے ہی دم توڑ دیتا ہے۔ وہ افیسر بھی بھاگ کر آتا ہے اور خط کو قیصر کے جسد خاکی پر دیکھ کر سر نیچے کر لیتا ہے اور سیلوٹ پیش کرتا ہے۔

ایک روز بعد گائوں میں ہیلی کاپٹر کی آواز آتی ہے، سب لوگ جمع ہونا شروع ہوجاتے ہیں، قیصر کی ماں اپنی بیٹیوں کے ساتھ مل کر شادی کے کپڑوں پر بحث کر رہے ہوتے ہیں اور اسلم ایک کمرے میں بیٹھا آرام کر رہا ہوتا ہے۔ اچانک گھر میں ایک بچہ بھاگتا آتا ہے اور کہتا ہے، “وہ ہیلی کاپٹر پہ قیصر بھائ ،قیصر بھائ” یہ سن کر تو جیسے اسلم اور بشیراں کو نئ زندگی مل گئ ہو۔ دونوں جلدی سے بھاگ گر محلے کے میدان کی طرف جاتے ہیں جہاں ہیلی کاپٹر لینڈنگ کر رہا ہوتا ہے۔ دونوں کی خوشی کا عالم نہیں ہوتا۔ ہیلی کاپٹر لینڈ کرتا ہے، بیس سپاہی اور کیپٹن ندیم اترتے ہیں۔ اسلم اور بشیراں کو قیصر نظر نہیں آتا تو وہ بھاگ کر کیپٹن کے پاس جاتے ہیں اور پوچھتے ہیں کہ “پتر قیصر کدھر ہے ، جلدی سے اسے بلائو نا۔ میں کب سے اس کی راہ تک رہی ہوں پر وہ آیا نہیں ابھی تک۔ پورا گاؤں جمع ہے۔ انہوں نی پہلی بار ایسا منظر دیکھا ہوتا ہے۔ ادھر اسلم پوچھتا ہے کہ “سر جی ہمارا بیٹا کہاں ہے، وہ کیوں نہیں ایا”. کیپٹن ندیم جاب دیتا ہے ” آپ کا بیٹا ایا ہے، اور ایک بہت بڑا اعزاز آپ کے لیے لے کر آیا ہے۔ آج کا دن آپ کی زندگی کا مقام بلند کر چکا ہے کیونکہ آپ کے بیٹے نے محاذ پر لڑتے ہوئے جام شہادت نوش فرمایا ہے۔” یہ کہہ کر کیپٹن ندیم اسلم کو سیلوٹ کرتا ہے اور یہ منظر آج پورا گاؤں دیکھتا ہے۔ اسلم اور بشیراں دونوں کی آنکھیں نم ہیں پر وہ رو نہیں رہے۔ شہادت پہ تو وہ فخر محسوس کر رہے ہیں۔ ان کو آج ان کے بیٹے نے وہ مقام دلایا ہے جو نہ صرف ان کا گائوں بلکہ پورا وطن ان کو سلام کہتا ہے۔ آج ان کے لیے یہ دن ان کے بیٹے کے لیے شادمانی سے بھی زیادہ قیمتی ہو چکا ہے۔ وہ ماں جو اپنے بیٹے کے شادی کے کپڑے جوڑ رہی تھی آج اسے شہید کی وردی ملی ہے جو اب اس کی ساری زندگی کا اثاثہ بنے گی، وہ ماں جو سب گائوں والوں اور رشتہ داروں کو دعوت دے رہی تھی، آج سب خود اس کے گھر آئے کھڑے اسے مبارک دے رہے تھے کی وہ سرخرو ہو گئ، وہ ماں جس نے سہرہ باندھے اپنے لخت جگر کو بوسہ دینا تھا، اج اس کے جسد خاکی کو بوسہ دے رہی تھی اور وہ باپ جو اکثر اپنے بیٹے کی وجہ سے زمانے کی باتیں سنتا تھا اور جو کہا کرتا تھا کہ ایک دن وہ ضرور اپنے باپ کا سر فخر سے بلند کرے گا، وہ دن ان پہنچا تھا، آج گائوں کا ہر فرد اسے گلے مل کر اسے دنیا کا خوش قسمت باپ قرار دے رہا تھا، جس گھر میں ڈھول بجنا تھا اور جس گھر کو سجنا تھا وہاں پرچم لہرایا گیا اور بندوقوں سے ایسی سلامی دی گئ کہ ساری جہاں کو معلوم ہوا کہ اسلم اور بشیراں کا بیٹا شہید ہوا ہے۔

You may also like...