Kya Apke Waaldain Ne Aapki Tarbiyat Ki Hai? Article by Zohaib Shah
سوال تربیت کا
کیا آپ کے والدین نے آپ کی یہی تربیت کی ہے؟
یہ جملہ ہم سب نے زندگی کے کسی نا کسی مرحلے پر ضرور سنا ہو گا اور شاید ایک سے زائد بار ہی سنا ہو۔ اس کا استعمال عموماً اساتذہ کی جانب سے طلباء کو بے عزت کرنے کے لئے بڑے تپاک کے ساتھ کیا جاتا ہے ۔ بلاشبہ یہاں کئ حضرات اختلاف کریں گے لیکن یہ میرا ذاتی جائزہ ہے اور سب کا جائزہ مختلف ہو سکتا ہے۔
اسکول کے وقت سے ہی میرا ہمیشہ سے اپنے اساتذہ سے ایک ہی اختلاف رہا ہے اور وہ یہ کہ ‘میری غلطیوں کا ٹوکرا میرے والدین کے سر کیوں رکھا جاتا ہے؟’ مگر آج تک اس کا کوئی تسلی بخش جواب نہ مل سکا۔ جب ساری غلطی میری ہے اور قصوروار میں ہوں تو اس میں میرے والدین کی تربیت پر سوال کیوں اٹھایا جاتا ہے؟ کیا کوئ ایسے والدین ہیں جو اپنی اولاد کی غلط تربیت کریں؟ لاکھوں میں کوئ ایک ایسا ہو بھی سکتا ہے
مگر یہاں بات عام انسان کی ہو رہی ہے۔ کیا ایسے والدین ہیں جو اپنی اولاد کو یہ سکھائیں کہ گالی کیسے دینی ہے، جھوٹ کیسے بولنا ہے، چوری کیسے کرنی ہے، بڑوں کی نافرمانی کیسے کرنی ہے اور سب سے اہم کہ اساتذہ سے بدتمیزی کیسے کرنی ہے؟ میرے کم عقل ذہن میں اسکا ایک ہی جواب آتا ہے اور وہ ہے “نہیں”۔ اسکول سے کالج اور کالج سے اب یونیورسٹی کا سلسلہ جاری ہے مگر دو چیزیں ابھی بھی نہیں بدلیں، ایک اساتذہ کا عمل اور دوسرا میرا اختلاف۔
مثال کے طور پر اگر میں اپنے دوست سے ملاقات کرتا ہوں اور سلام کے بجائے نازیبا الفاظ کا استعمال کرتا ہوں اور وہ بھی جواب اسی جوش سے دیتا ہے تو کیا ہم دونوں کی تربیت غلط ہوئ ہے؟ ہو سکتا ہے کہ یہ میری ذاتی تخلیق ہو اور اس کا میرے والدین کو علم بھی نہ ہو۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ یہ عادت میں نے دوستوں سے، بھائیوں سے یا معاشرے سے سیکھی ہو۔ تو دونوں ہی صورتحال میں غلطی میری اور قصوروار بھی میں تو والدین کی تربیت کا سوال کیسے آ سکتا ہے؟ یہ اور ان جیسے کئ اعمال انسان کے اپنے تخلیق کردہ ہوتے ہیں یا انسان نے سیکھے ہوتے ہیں، ان کا شمار انسان کی learning میں کیا جانا چاہیے نا کہ تربیت میں۔ اسی طرح اگر کسی کے والدین بچپن میں ہی وفات پا جائیں تو اس کی زندگی میں کی جانے والی غلطیوں کا الزام کس کی تربیت کو دیا جائے گا؟
میری سمجھ میں یہ بات نہیں آتی کہ آخر یہ الزام تراشی کیوں ضروری ہے اور صاف الفاظ میں صرف قصوروار کو ہی بے عزت کیوں نہیں کیا جاتا؟ اگر میں قصوروار ہوں تو مجھے بےشرم ، بےحیاء اور بدتمیز جیسے القابات سے نوازا جائے ناکہ میرے بےقصور والدین کی تربیت پر سوال اٹھیں۔ والدین تو بچپن سی ہی اولاد کی زبان پر چاشنی گھولتے ہیں مگر یہ زمانہ ہے جس کی ناگزیر دھول اس چاشنی کو بے زائقہ بنا دیتی ہے۔
مجھے لگتا ہے کہ اس میں اساتذہ کا بھی قصور نہیں ہے، یہ عمل نسلوں سے چلا آ رہا ہے اور کیونکہ اساتذہ بھی کبھی طالبعلم تھے تو ممکن ہے وہ بھی اس کا شکار ہوئے ہوں۔ مگر اس کا قطعہ یہ مطلب نہیں کہ جو خود پر گزرے اسے دوسروں پر بھی لاگو کیا جائے۔ مزید یہ کہ یہ الزام تراشی کا عمل صرف اساتذہ کی طرف سے ہی نہیں بلکہ والدین کی جانب سے بھی کیا جاتا ہے۔ والدین اکثر گھر میں کی جانے والی غلطیوں کا الزام اساتذہ کو دیتے ہیں کہ ‘ آپ کے اساتذہ نے یہی سکھایا ہے ؟’ یہاں پر بھی میری رائے وہی رہے گی جو اساتذہ کے عمل پر تھی کہ ‘میری غلطیوں کا ٹوکرا میرے اساتذہ کے سر کیوں رکھا جاتا ہے’؟
انسان ایک سے زیادہ شخصیات کا مالک ہوتا ہے۔ ایک وہ جو والدین کے سامنے ہے، ایک اساتذہ کے اور ایک دوستوں کے سامنے۔ ہر شخصیت دوسری سے مختلف ہوتی ہے اور انسان کی کوشش ہوتی ہے کہ ایک شخصیت دوسرے کے سامنے ظاہر نہ ہو۔ بتانے کا مقصد یہاں یہ ہے کہ انسان کے سیکھنے کا عمل شخصیات کے حساب سے مختلف ہوتا ہے اور اگر کوئ تربیت پر سوال اٹھائے تو اس کا قطعہ یہ مطلب نہیں کہ والدین سے سوال کیا جائے کہ انہوں نے تربیت کیوں صحیح نہیں کی۔ سوال اٹھنا چاہیے انسان کے سیکھنے کے عمل پر اور اس کے سیکھے ہوئے علم پر۔
آخر میں یہ کہنا چاہوں گا کہ اگر اساتذہ اور والدین الزام تراشی کے بجائے غطیوں کی تصحیح کا زمہ لیں یہ سوچتے ہوئے کہ اگر اساتذہ یا والدین کی طرف سے کوئ کمی رہ گئ ہے یا اولاد کے سیکھے ہوئے علم میں کوئ نقص ہے تو اسے دور کیا جائے ناکہ ایک دوسرے کی تربیت اور تعلیم پر سوال اٹھائے جائیں ۔ انسان کا پہلا استاد اس کے والدین ہیں اور دوسرے والدین اساتذہ ہوتے ہیں، میرا شکوہ ان مقدس رشتوں سے نہیں ہے بلکہ ان کے ایک عمل سے مؤدبانہ اختلاف ہے۔ مجھے اس بات کا بھی یقین ہے کہ میری تنہا آواز صحرا میں بھٹکتے اک بےبس مسافر کی مانند ہے جس کی کوئ منزل نہیں۔ لیکن اگر میرے اس اختلاف پر غور و فکر کر لیا جائے تو معاشرے میں واقع ہی کسی کی تربیت پر سوال نہیں اٹھایا جائے گا۔
میری غلطیوں کا تم فقط مجھ کو الزام دو
اٹھاؤ سب پر سوال مگر تربیت کو چھوڑ کر
تصنیف کردہ:
سید محمد ذوہیب شاہ
Photo by Naassom Azevedo on Unsplash