Khwaja Sara: Urdu Afsana by Asma Tariq
خواجہ سرا کا اللہ
اسکا نام شیزا تھا جو باجی نے اسکے یہاں آنے کے بعد رکھا تھا. ہاں اسے یاد آیا کہ اس سے پہلے بھی اسکا ایک نام تھا جو اسکے باپ نے اسکی پیدائش پر رکھا تھا. عبداللہ یعنی “اللہ کا بندہ” مگر پھر جب وہ تھوڑا بڑا ہوا تو اسکے ماں باپ کو پتا چلا کہ وہ بندہ ہے ہی نہیں اور قیامت یہ کہ وہ بندی بھی نہیں.
انہوں نے ایسا ماتم منایا کہ جیسے کسی نے انکے ساتھ دھوکہ کیا ہو اور کسی اور کا غلط سامان پکڑا دیا ہو. حالانکہ اسکی رگوں میں انہی کا خون تھا. انہوں نے ہی اپنی مرضی سے اسے پیدا کیا تھا اور اسکے پیدا ہونے پر جشن بھی منایا تھا، مٹھائیاں بانٹیں تھیں مگر اب وہ اپنے جگر کے ٹکڑے کو اپنانے سے انکاری تھے. آخر انکی سماج میں کچھ عزت تھی.
وہ سماج جو جوا شراب تو عام کر سکتا ہے. خون ریزی اور بدکاری بھی معاف کردیتا ہے. مگر ایک جیتے جگاتے سانس لیتے انسان کو اپناتا نہیں،قبول نہیں کرتا. حالانکہ اسے بھی اسی اللہ، اسی رب، اسی بھگوان نے پیدا کیا ہے جس نے انہیں مرد اور عورت بنایا ہے.
وہ پانچ سال کی عمر میں یہاں آیا تھا کسی دوست نے ابا کو باجی کا پتا دیا تھا. وہ اس دن آخری اپنی ماں سے لپٹا تھا پھر وہ ان کےلیے مر گیا تھا. اور پھر دھیرے دھیرے اسکے ماں باپ بھی اسکےلیے مر گئے. مگر وہ شکر ادا کرتا ہے کہ وہ اسے باجی کے پاس چھوڑ کر گئے تھے.
کسی سنسان سڑک ہر بیچ رستے میں چھوڑ کر بھاگے نہیں. اس احسان کےلیے وہ تاعمر انکا قرض دار رہے گا. اس نے پنکی اور چھینو کی کہانیاں سنی تھیں. وہ جس کرب سے گزر کا یہاں پہنچی تھیں وہ تو اسکا تصور نہیں کرسکتا. اس نے سنا تھا عورتیں روتی رہتی ہیں کہ یہ معاشرہ ان کےلیے محفوظ نہیں مگر خواجہ سرا کےلیے تو گھر محلہ کوئی کونہ بھی محفوظ نہیں. ویسے اللہ کو انہیں بنانے کی کیا سوجھی تھی. سیدھے سیدھے مرد عورت تو تھے ہی.
وہ شیشے کے سامنے کھڑے ہو کر بال بنانے لگی . بچپن سے وہ صرف ایک ہی سوال میں الجھی تھی. وہ بالوں کو سنوارے بغیر ہی باہر آ گئی. باجی کے پاس بیٹھ گئی جو برآمدے میں لکڑی کے تحت پر تکیہ لگائے بیٹھی تھی. نوری باجی کو اپنی دن کی کمائی کے متعلق بتا رہی تھی. پیسے باجی کے سامنے تحت پر رکھے منہ چھڑا رہے تھے، جو اس نے آج سارا دن لوگوں کو اللہ کے واسطے دے دے کر اکٹھے کیے تھے.
شیزا سے رہا رہا نہیں گیا. باجی اس نے پکارا، مگر باجی اپنے خیالوں میں گم تھی. اس نے پھر زور سے پکارا باجی!
باجی اس کی طرف متوجہ ہوئی،
ہاں صدقے بول.
باجی چھوٹا ہونے کے ناتے اسکے بڑے چاؤ اٹھاتی تھی. جس وجہ سے باقی سب کو اس سے جلن بھی ہوتی.
شیزا پھر مخاطب ہوتی باجی! کیا خواجہ سرا کا بھی اللہ ہوتا ہے. پھر خود ہی بڑبڑانے لگی اگر ہوتا تو وہ انہیں خواجہ سرا تھوڑی بناتا.
باجی نے فوراً اسے ٹوکا، نا میری بچی اللہ سب کا ہے، ہمارا بھی. تم نے دیکھا نہیں کیسے یہ پورے انسان ہم نامکمل وجودوں کی بددعا سے ڈرتے ہیں. ہم سے دعائیں منگواتے ہیں. میں اکثر سوچتی تھی کہ کیا ہماری دعائیں سچ میں قبول ہوتی ہیں. پتا ہے کیا، ہم ساری عمر دوسروں کےلیے مانگتے رہتے ہیں اپنے لیے تو کبھی اس سے مانگا ہی نہیں. ہمیں شکایتیں ہی اس سے بڑی ہیں کہ اس نے ہمیں ادھورا کیوں بنایا. مگر سچ تو یہ ہے کہ ہم. ادھورے نہیں یہ سماج ادھورا ہے. اس سماج کی سوچ چھوٹی اور نامکمل ہے، ہم نہیں. ہاں مگر ہمیں بھی تو اپنی ذات کی اہمیت کا پتا نہیں اور نہ ہی کسی نے کبھی ہمیں ہماری اہمیت بتائی ہے.
باجی پھر سوچوں میں ڈوب گئی.
اسماء طارق