Khushi aur Ghami: Urdu Article by Sumra Akhlaq
خوشی کا احساس جتنا دل فریب ہے اتنا ہی غمی کا احساس ہے جو دکھ آمیز ہوتا ہے۔ دونوں کی انتہا کی بنا پہ انسان کو پرکھا جاتا ہے کہ وہ اسکا کیا ردعمل اختیار کرتا ہے۔۔ خوشی ہو یا رنج دونوں ہی انسان کو نابینا کرنے لئے بہت ہیں۔ ان میں کھو کر وہ بصیرت رکھتے ہوئے بھی بے بصری کا ناٹک کرتا ہے جیسے کچھ نہ سمجھنے کی ٹھان لی ہو۔ وہ حالیہ کیفیت کو حتمی سمجھ کر خود کو اسکا عادی بنانے میں لگا رہتا ہے اور یہ طے کر لیتا ہے کہ میرے واقعات کھبی بدلیں گے نہیں اور میں اسمیں صدا رہنے والا ہوں۔۔
جبکہ وقت اسکی غلط بینی پر سرگرداں ہے اور کہتا ہے کہ اسے کوئی سمجھائے کہ میں مستقل نہیں نہ ہی عارضی ہوں شاید عارضی بھی نہیں میں فرضی ہوں۔۔ من گھڑت ہوں یا شاید نفیس ہوں۔۔میرا کوئی مفہوم نہیں کوئی مستقل ٹھکانہ نہیں میں آج کچھ اور کل اور ہوں اور یہ بھی ممکن ہے کہ میں ازل سے قائم ہوں اور میرا کوئی جزو کبھی ظاہر ہے تو کبھی چھپا ہوا امیری اور منشاء کو سمجھنا تعجب انگیز ہے۔
غم میں تڑپتا انسان سمجھتا ہے کہ یہی اول آخر ہے، یہی میری تقدیر ہے اور اسکی عادت ڈالنا موزوں سمجھتا ہے۔۔ جبکہ مسرتوں میں مگن رہنا اور انکا قائم دائم رہنا کس کی خواہش نہیں؟ ہمارے بڑے بھی راحت و برکات کی دعا دیتے ہیں۔۔ میں یہ نہیں کہتی کہ خوشیوں کی دعائیں دینا غلط ہے لیکن صرف اسی کی خواہش بھی صحیح نہیں۔ یہ دونوں کیفیات ہماری شخصیت کو ابھارنے اور اسکو مستحکم کرنے کے لیے خدا نے تخلیق کی ہیں لیکن اگر ہم ایک ہی کیفیت کے عادی بن جائیں اور جس موضوع پر غور طلبی اہم تھی اسے فراموش کیا تو خصارہ ہمیں ہی جھیلنا ہوگا۔ اور اگر دونوں جزبات کو قدرتی اور فطری سمجھ لیا جائے تو وقت کو ضائع ہونے سے بچایا جا سکتا ہے۔
اپنے گرد ایک مختصر دائرہ بنا لینا اور اسے سب کچھ جاننا سراسر ہماری بے وقوفی ہے جبکہ آس پاس سیکھنے اور سمجھنے کو بہت کچھ ہے۔ ہمیں اپنے منفی خیالات کو ترک کر کے مثبت پیش آنے والے حالات کو سمجھنا چاہئے۔ اپنے آپ کو توجہ دینی چاہیے تا کہ کسی مقام تک رسائی حاصل کر سکیں۔ یہ چار موسم اللہ نے دنیا کے ساتھ ساتھ ہماری تقدیر میں بھی لکھیں ہیں تاکہ ہم انکی اہمیت کو سمجھیں انکے ہونے کی وجہ کو جانیں اسکی بدولت اپنی شخصیت میں ٹھہراؤ پیدا کریں نہ کہ ایک ہی موسم کے خواہشمند رہیں۔
کیا آپ نے کبھی سوچا ہے کہ بیج کو اگر بارش نہ ملتی تو وہ نمی پا کر زمین سے کیسے ابھرتا؟ اور اگر دھوپ کی گرمائش ننھے سے پودے کو نہ دی جاتی تو اسے پروان چڑھنے کی طاقت اور توانائی کیسے ملتی؟ یوں ہی وہ ننھا پودا وقتاً فوقتاً بدلتے موسم طوفان اندھی سب مرحلے پار کر کہ ایک مظبوط درخت بن جاتا ہے اور پھر اپنے اطراف کے لئے چھاؤں اور فضا کی بہتری میں اپنا قردار ادا کرتا ہے۔ یوں ہی ہمیں بھی دھوپ کی شدت اور بارشوں کی نمی کو جھیل کر ہی تقویت ملتی ہے اور شخصیت میں نکھار آتا ہے۔
پھر ہمیں بھی بہار کی قدر اور سرد موسم میں گزارا کرنے کی جسارت ملتی ہے۔ ہم بھی یوں ہی اطراف کے بہتر مستقبل اور اسکو مستحکم بنانے کے طریقہ سوچتے ہیں جو ہم سب کو کرنا چاہیے۔ اپنے لئے اپنی نسل اور اپنے معاشرے کی اصلاح کے لئے۔ بے مقصدی اور اداسی نہ صرف ہمیں نقصان پہنچاتی ہے بلکہ ہماری عقل صالح کو بھی کھوکھلا کر دیتی ہے جس کے ہم سب شکار ہیں۔۔ ہمیں اس چنگل سے خود کو آزاد کرنا ہوگا۔ اور اس پر غور کرنا ہوگا جو واقع توجہ کا مرکز ہے۔۔