Kashmir Ka Badla: Urdu Article by Hamza Safdar

کشمیری کا بدلہ

حسں اور عمر دونوں بہت گہرے دوست تھے. ان کی گہری دوستی کے پیچھے ان کے بچپن کا ساتھ تھا. وہ ایک دوسرے کو چار سال کی عمر سے جانتے تھے. وہ بچپن میں ایک ہی سکول میں پڑھتے رہے تھے اور سکول ختم ہونے کے بعد ایک ہی کالج میں بھی پڑھتے رہے تھے. بچپن کے اس ساتھ کی وجہ سے ایک دوسرے کو بہت اچھے طریقے سے جانتے تھے. اور ہر ایک بات ایک دوسرے سے کرتے تھے. پہلے تو یہ ایک دوسرے کے ہمسائے تھے مگر بعد میں عمر کے والد کا تبادلہ لاہور سے بہاولپور ہوگیا اس لیے اب ان کا ملنا بہت کم ہو گیا اب وہ مہینے میں ایک بار مشکل سے مل پاتے تھے مگر جب بھی ان کی ملاقات ہوتی تو وہ اپنی پرانی یادوں کو یاد کر کے بہت خوش ہوا کرتے تھے.

ایک دفعہ عمر کو کسی کام سے لاہور جانا پڑا تو وہ بہت خوش ہوا کہ وہ اپنے پیارے دوست حسن سے ملے گا اور اس نے حسن کو اپنے آنے کی اطلاع پہلے ہی دے دی تھی. یہ سن کر حسن بھی بہت خوش ہوا تھا اور عمر کے آنے کا انتظار کر رہا تھا .عمر اپنے گھر سے چل پڑا اس کی بھی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہ تھا عمر اپنی گاڑی میں آ رہا تھا. وہ سارے راستے میں گانے سنتا آیا . اور راستے میں صرف ایک دو جگہ ہی رکا. اور موسم بھی صاف تھا اس لیے زیادہ دیر نہ لگی اور کچھ ہی دیر میں وہ حسن کے پاس پہنچ گیا. اور وہ ایک دوسرے سے ملے اور بیٹھے گیے اپنی پرانی یادیں یاد کر کے خوش ہونے لگے عمر کے چہرے میں ایک عجیب سی خوشی تھی. حسن نے عمر سے اس خوشی کی وجہ دریافت کی تو عمر نے اس کو پہلے تو کہا

‘ نہیں یار ایسی کوئی بات نہیں’

مگر حسن عمر کو بچپن سے جانتا تھا اس لیے اس نے عمر سے اصرار کیا تو عمر نے بتایا کھ آج میں کشمیریوں کا بدلہ لے آیا ہوں. یہ سن کر حسن ہنس پڑا اور بولا کہ وہ کیسے؟ تو عمر کچھ دیر خاموش رہا اور بعد میں اس نے کھا آج جب میں تیرے پاس آ رہا تھا تو مجھے راستے میں کسی کے چیخنے کی آواز آئی اور میں اس وقت نہر کے پاس سے گزر رہا تھا. اور کوئی شخص زور سے پکار رہا تھا

‘بچاؤ بچاؤ ‘

 

 

تو میں نے اپنی گاڑی روک کر دیکھا تو ایک شخص تھا جو ڈوب رہا تھا اور لباس شکل سے ہندو پنڈت معلوم ہوتا تھا. وہاں پر تھوڑی دور ھندون کا ایک گاوں بھی ھے. میری گاڑی میں رسی موجود تھی اور بآسانی اس شخص کو بچا سکتا تھا میں اس کو بچانے کے لئے آگے بڑھا تھا کے اچانک میرے ذہن میں آیا کہ یہ ایک ھندو شخص ھے .اور ھندو ہمارے کشمیریوں پر بہت ظلم کر رہے ہیں. تو میں نے سوچا کہ اس کو نہیں بچانا چاہیے اور میں اس کو چھوڑ کر آ گیا .میرے دل کو بہت خوشی ملی کہ میں نے آج کشمیریوں کا بدلہ لے لیا یہ سب سن کر حسن غصے سے لال پیلا ہو گیا. عمر کو غصے سے دیکھا اور بولا یہ تو نے کشمیریوں کا بدلہ نہیں لیا یہ تو نے قتل کیا ہے
‘ تو قاتل ہے’

جب تو اس کو بچا سکتا تو .تو نے اس کو کیوں نہیں بچایا. تو عمر جو سمجھ رہا تھا کہ میری تعریف ہوگی وہ بولا. تو عجیب انسان ہے. وہ ہندو ہمارے کشمیریوں پر ظلم کر رہے ہیں اور ہمیں ان کو بچائیں یہ کہاں کا انصاف ہے. تو حسن نے کہا مذہب سے بڑھ کر انسانیت ہے ہمارا مذہب اسلام تو ہم کو انسانیت ہی سکھاتا ہے. اگر تلوار کے زور سے اسلام پھیلا نا ہوتا تو آدھی دنیا پر حکومت کرنے والا عمر فاروق تلوار کے زور سے ساری دنیا کو مسلمان کر دیتا. یہ سن کر عمر کو غصہ آگیا اور وہاں سے اٹھ کر چلا گیا اور پھر وہ اگلے دن حسن کے جنازے میں شریک نہ ہوا.

حمزہ صفدر

You may also like...