Jahaiz aik Laanat: Urdu article by Romaisa Hussain

ہمارے معاشرے میں بیٹی کی شادی کا سوچتے ہی جو خیال سب سے پہلے ہمارے ذہن میں آتا ہے وہ ہے جہیز _آگر ہم یوں کہیں کہ جہیز کے بغیر بیٹی کے ہاتھ پیلے کرنا نہ ممکن ہے تو یقیناً غلط نہ ہوگا جہیز کی اس لعنت نے لاکھوں بہنوں اور بیٹیوں کی زندگیوں کو جہنم بنا دیا ہے انکی معصوم آنکھوں سے رنگین خواب تک چھین لیے ہیں اس لعنت نے انکو ایسے اندھیروں میں دھکیل دیا ہے جہاں ہر طرف صرف نہ امیدی ‘مایوسی کے اندھیرے ہی ہیں اجالے کی کوئی کیرن نظر نہیں آتی

dowry-photo-by-Syed Fahim Haider-unsplash

 

درحقیقت جہیز ایک ہندوستانی رسم و رواج ہے اس کا ہمارے مسّلم معاشرے سے کوئی تعلق نہیں ہے مگر افسوس اس سب کے باوجود ہم نے اس کو اتنا اہم بنا دیا ہے کہ جب تک والدین اپنی بیٹی کو سامان سے بھرے ہوئے ٹرک نہ دیں تب تک لڑکے والے شادی کو راضی نہیں ہوتے اور بات صرف یہاں ختم نہیں ہوتی کہ شادی سے پہلے جو دیا سو دیا اب اور نہیں چاہیئے بلکہ شادی کے بعد بھی لڑکے والوں کی جانب سے کئی مطالبات کیے جاتے ہیں اور اگر لڑکی والے انکے مطالبات پورے نہ کرسکیں تو اس کی قیمت بیچاری لڑکی کو اپنی جان گھاوا کر ادا کرنی پڑتی ہے

ہمارے معاشرے میں غریب کی کوئی اہمیت نہیں ہے وہ مخص زمین پر ایک رینگتا ہوا کیڑا مکوڑا ہے جیسے ہر کوئی مسلتا ہوا آگے نکلنا چاہتا ہے اور جب غریب کے گھر بیٹی پیدا ہوجائے تو ایک طرف وہ خدا کی رحمت ہے تو دوسری طرف وہی رحمت جب شادی کی عمر کو آتی ہے تو زحمت بن جاتی ہے کیونکہ لڑکے والے جہیز کی لعنت کا تقاضا کرتے ہیں جہیز کی اصل حقیقت اس کے سوا کچھ بھی نہیں ہے کہ اگر والدین جو کے اپنی بیٹی کو پال پوس کر بڑا کرتے ہیں آگر گھر کی دہلیز سے رخصت ہوتے وقت پیار اور محبت میں کچھ تحفے دیں تو وہ جہیز نہیں بلکہ والدین کے پیار اور محبت کی بنا پر ایک فطری عمل ہے جیسے اس معاشرے کے لوگوں نے جہیز کا نام دے کر فرمائشی پروگرام بنا دیا ہے جو کہ لڑکی والوں پر سراسر ظلم و زیادتی ہے

آگر ہم قرآن و حدیث پر روشنی ڈالیں تو یہ بات صاف ظاہر ہوجاتی ہے کہ جس جہیز کو ہم نے اتنی اہمیت دی ہوئی ہے دین اسلام میں اس کا کوئی وجود ہی نہیں ہے اور نہ ہی اسی کوئی پابندی عائد کی گیئ ہےکہ آگر بیٹی کو سامان سے بھرے ٹرک نہیں دو گئے تو شادی مکمل نہیں ہوگی بلکہ ہمارے پیارے نبی حضرت محمّد مصطفیٰ ﷺ نے اپنی پیاری بیٹی حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی شادی کے وقت سادگی کی ایک بہترین مثال قائم کر کے دکھائی ہے _آپ ﷺ نے اپنی بیٹی حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی شادی کے وقت روزمرہ کی چند معمولی چیزیں دیں اور شادی میں کسی قسم کی کوئی نمود و نمائش اور دکھاوا نہیں تھا مگر افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ آج ہم مسلمان اپنے رسول ﷺ کی سیرت کو بھول بیٹھے ہیں نمود و نمائش اور دکھاوے کے نت نئے انداز اپناتے ہوئے نظر آرہے ہیں جب تک ہماری تقریب میں دس دس ڈشوں کا اہتمام نہ ہو تب تک ہماری تقریب مکمل نہیں ہوتی _

ہمیں چاہیئے کہ جہیز پر فضول خرچ نہ کریں اور غریب اور متوسط طبقےکا خیال رکھیں تاکہ ان کا شادی بیاہ کا خواب پورا ہو سکھے اور وہ اپنی بیٹیوں کے ہاتھ پیلے کر سکیں ویسے بھی فضول خرچی کرنے والے کو قرآن نے شیطان کا بھائی قرار دیا ہے ہمارے معاشرے میں جہیز کی اس لعنت اور ناسور کو جڑ سے ختم کرنے کے لیے والدین کو بھی سختی سے عمل کرنا ہوگا اور یہ عہد کرنا ہوگا کہ نا جہیز دیں گے اور نا جہیز لیں گے_ہمیں یہ بات سمجھنی ہوگی کہ جہیز کے نام پر جائیداد وغیرہ فروخت کروا کر فضول مطالبات پورے کروانا ایک اخلاقی جرم ہے

حکومتوں کو بھی ایسا قانون نافذ کرنا ہوگا جس سے جہیز کی لعنت کو ختم کیا جائے اور اس پر عمل درآمد نا کرنے والوں کے خلاف کارروائی کی جائے ساتھ ہی سخت سزا اور جرمانہ عائد کیا جائے _صاحب ثروت لوگوں کو چاہیئے کہ دولت کو جہیز پر خرچ کرنے کے بجائے کسی مسجد کی تعمیر ،بیوہ اور یتیم کی مدد کرنے یا کسی غریب کی بیٹی کی شادی پر خرچ کریں تاکہ غریب کی دعائیں مل ملیں جس سے ایک طرف تو اللہ تعالیٰ کی خوشنودی حاصل ہوکر آخرت سنور جائے گی اور دوسری طرف روحانی لذت حاصل ہوگی _

رومائسہ حسین

کراچی

You may also like...