Jaan Jaan Pakistan: Urdu Afsana by Hasnain A. Qadir

Jaan Jaan Pakistan: Urdu Afsana by Hasnain A. Qadir

 

افسانہ: جان جان پاکستان

مصنف: حسنین اے قادر

 

پچھلے دنوں کی بات ہے۔ مجھے سڑک پر ایک چھوٹا سا خاندان ڈیرا جمائے نظر آیا۔ ابھی تک میں ان کے نزدیک نہیں پہنچا تھا، اسی لیے دور سے یہ تماشا دیکھ رہا تھا۔ ایک شخص نے جیب سے موبائل نکالا اور ان کی تصاویر بنانے لگا۔ اس نے مختلف زاویوں سے تصاویر بنائیں اور چلا گیا۔

میں ان لوگوں کے قریب سے گزرا تو چٹائی پر بیٹھا ایک بچہ نظر آیا، جو ساتھ لیٹے اپنے چھوٹے بھائی کے ساتھ کھیل رہا تھا۔ اس بچے نے سفید رنگ کی قمیض پہنی تھی، جس پر سبز رنگ سے “جان جان پاکستان” لکھا تھا۔ ساتھ ہی ان کی ماں نے ایک چھوٹی سی ہانڈی چولہے پر چڑھا رکھی تھی اور کچرا جمع کر کے اس کے نیچے آگ جلائی ہوئی تھی۔ فٹ پاتھ پر زیادہ دیر رکنا مناسب نہیں تھا، اس لیے میں انہیں چھوڑ کر آگے نکل گیا۔

اگلی صبح موبائل کے الارم سے جاگا تو حسبِ عادت سب سے پہلے سوشل میڈیا کھولا۔ وہاں کیا دیکھتا ہوں کہ ایک ویڈیو گردش کر رہی ہے، جس میں وہی بچہ “جان جان پاکستان” کہہ کر خوشی منا رہا ہے۔ مزید سکرولنگ کی تو مختلف عنوانات کے ساتھ اسی بچے کی تصاویر نظر آئیں۔ کہیں لکھا تھا “وطن کا عشق ہمارے رگوں میں خون کی مانند دوڑتا ہے” تو کہیں “ہر وہ شخص غدار ہوگا جو وطن کو برا کہے گا”۔ ایک جگہ تو لکھا تھا “وطن میں موجود بے شرم لوگ اس بچے سے کچھ سیکھ لیں، جو فٹ پاتھ پر بیٹھا مفت روشنیاں بانٹ رہا ہے”۔

 

poor kid in pakistan

poor kid in pakistan

 

 

میں جلدی سے تیار ہو کر سڑک پر پہنچا۔ وہ بچہ وہیں تھا۔ یوں لگ رہا تھا جیسے ساری رات گاڑیوں کے شور سے انہیں ایک لمحہ نیند نہیں آئی۔ میں نے بچے سے پوچھا،
“کل ایک شخص آپ کی تصویر بنا رہا تھا، وہ کیا کہہ رہا تھا؟”

بچے نے ماں کی طرف دیکھا، پھر پچاس روپے کا نوٹ دکھاتے ہوئے کہا،
“بھلا آدمی تھا، پیسے دیے، تصویریں لیں اور چلا گیا۔”

میں نے بچے سے پوچھا، “یہ شرٹ کہاں سے لی؟” تو اس کی ماں نے جواب دیا،
“فلاں علاقے کے کوڑے دان سے ملی تھی، بالکل نئی تھی۔ ساتھ میں جھنڈے بھی پڑے تھے، لیکن وہ ہمارے کس کام کے؟ اس لیے یہ اٹھائی اور اسے پہنا دی۔ بھلا ہو ان لوگوں کا، ہمیں کچھ تو ملا، چاہے کوڑے سے ہی کیوں نہ ہو!”

میں مزید کچھ نہ کہہ سکا، چپ چاپ وہاں سے چلا گیا اور یونیورسٹی بس کا انتظار کرنے لگا۔ میں سوچ رہا تھا کہ اب انہیں کون بتائے کہ یہ شرٹ، جسے کسی امیر زادے نے ایک دن پہن کر پھینک دیا تھا، انہی کے پیسوں سے آئی تھی۔ چونکہ یہ شرٹ اس کے باپ کے پیسوں سے نہ تھی، اس لیے کوڑے میں پھینک دی گئی، اور جن کے پیسوں کی تھی، انہوں نے اسے کوڑے سے اٹھا لیا۔

میرے ذہن میں میر تقی میر کا یہ شعر گردش کر رہا تھا:

امیر زادوں سے دہلی کے مل نہ تا مقدور
کہ ہم فقیر ہوئے ہیں انہیں کے دولت سے

اسی اثنا میں، میں نے بلدیہ والوں کو ان کی طرف آتے دیکھا۔ ایک دراز قد اور موٹے جسم والے آدمی نے انہیں لات مار کر اٹھایا۔

یہ لوگ افراتفری میں اپنا سامان سمیٹ کر بھاگنے لگے۔ جو سامان بچ گیا، وہ بلدیہ والوں کی گاڑی میں منتقل ہوگیا۔

You may also like...