Interview with Neelam Ali Raja, an emerging writer: By Sehrish Ijaz
روبرو ہے ادیب: محترمہ نیلم علی راجہ
تحریر وملاقات: سحرش اعجاز، میانوانی
ادبی دنیا میں ادب کو فروغ دینے والے ستاروں میں سے ایک اُبھرتا ہوا ستارہ نیلم علی راجہ ہیں جو اپنے اندر بہت سی صلاحیتیں رکھتی ہیں جو آپ کو ان سے ہونے والی گفتگو میں بھی محسوس ہوں گی۔نیلم علی راجہ صاحبہ اپنی ازدوجی زندگی کو بخوبی نبھانے کے ساتھ ساتھ قلم سے بھی رشتہ قائم کیے ہوئے ہیں۔
۔نیلم صاحبہ بچوں کے پہلے انیمیٹڈ کارٹون سیریز “برقع ایونجرز ” کے تین سیزنز میں رائٹر و سکرپٹ کوآرڈینیٹر میں کام کر چکی ہیں ۔ یہ بہت ملنسار، شگفتہ مزاج کی حامل انسان ہیں انہوں نے 2021 سے باقاعدہ لکھنا شروع کیا ہے معاشرتی مسائل اور بچوں کی تربیت پر تیس سے زائد کالمز لکھ چکی ہیں ، تبصرہ نگاری اور کہانیاں لکھنے میں بھی خوب مہارت رکھتی ہیں۔
یہ میری ادبی زندگی کا کسی بھی ادیب سے لیا جانے والا اولین انٹرویو ہے امید کرتی ہوں کہ آپ کو نیلم علی راجہ صاحبہ سے ہونے والی ملاقات کی روداد ضرورپسندآئے گی۔
سحرش اعجاز: السلام علیکم! محترم نیلم صاحبہ کیسی ہیں؟
نیلم علی راجہ: وعلیکم السلام! رسمی جواب تو یہ ہے کہ خیریت سے ہوں اور اگر روایت سے ہٹ کر کہا جائے تو بہت اچھی ہوں، اور خوش بھی ہوں کہ آپ نے مجھے شرف بخشا اور انٹرویو دینے کے لائق سمجھا۔ خوش رہیں جیتی رہیں۔
بہت شکریہ ۔چلیں انٹرویو کا آغاز کرتے ہیں۔
سحرش اعجاز: اپنے حالات زندگی اور تعلیم کے متعلق بتائیں کہ بچپن سے آج تک کی زندگی کیسی گذری ہے؟
نیلم علی راجہ: جی الحمدللہ میرا بچپن بہترین اور بھرپور گزرا۔ گھر بھر کی لاڈلی رہی۔ ہمیشہ سے بے حد باتونی، انتہائی سوشل، پرخلوص اور محبت کرنے والی طبیعت رہی۔ جوائنٹ فیملی سسٹم میں پلی بڑھی اس لیے سب رشتوں کا پیار سمیٹا اور آج بھی جوائنٹ فیملی سسٹم کو ہی ترجیح دیتی ہوں۔ اگر سوچا جائے اور صبر و تحمل سے کام لیا جائے تو یہ سسٹم بہت سی آسانیوں، اقدار کی منتقلی اور محبتوں کا گہوارہ بھی ہے۔ بچپن سے ہی نصابی و غیر نصابی سرگرمیوں میں پیش پیش رہی۔ زمانہ طالبعلمی میں پوزیشن ہولڈر تھی۔ تقریریں کرنا، ایکٹنگ کرنا، ڈرامے لکھنا، یہ سب غیر نصابی سرگرمیاں تعلیم کے ساتھ ساتھ جاری رہیں۔بچپن سے آج تک لکھنا لکھانا ساتھ ساتھ چلتا رہا۔ بحیثیت استاد بھی سکول میں فرائض سرانجام دیتی رہی ہوں۔ اس کے ساتھ بچوں کے لیے پاکستان کی پہلی اردو کارٹون سیریز برقع ایونجرز پر بھی کام کیا۔پھر شادی ہوگئی۔ شادی کے کچھ عرصے بعد بیوی سے ماں کے عہدے پر بھی فائز ہو گئی۔ الحمدللہ اللہ کا جتنا شکر ادا کروں کم ہے۔
سحرش اعجاز: آپ کی تعلیم کتنی ہے اور کہاں کہاں سے حاصل کی؟
نیلم علی راجہ: جی میں نے ڈبل ماسٹرز کر رکھا ہے۔ پہلا “ماسٹرز ان پبلک ایڈمنسٹریشن” جس کی سپیشلائزیشن “مینجمنٹ اینڈ پبلک پالیسی” میں نے فاطمہ جناح ویمن یونیورسٹی، راولپنڈی سے کیا تھا۔
دوسرا پرائیویٹ ماسٹرز ان انگلش پنجاب یونیورسٹی سے کیا تھا۔ اس کے علاوہ بی ایڈ بھی کر رکھا ہے۔ میرا ریسرچ پیپر یونیورسٹی آف گجرات میں ایک کانفرنس میں پیش کیا گیا اور پھر لیمبرٹ پبلشنگ پریس سے میرا ریسرچ پیپر کتاب کی صورت میں بھی پبلش ہوا۔کچھ عرصہ قرآن کی تفسیر بھی پڑھی۔
سحرش اعجاز: آپ کی سکول اور کالج کی سرگرمیاں کیا تھیں؟
نیلم علی راجہ:سکول، کالج اور یونیورسٹی میں نصابی سرگرمیاں بہترین تھیں۔ ہر کلاس میں اول آتی تھی۔ اس کے ساتھ ساتھ مانیٹر بھی تھی۔ شروع سے ہی اساتذہ کی ہردلعزیز سٹوڈنٹ رہی ہوں۔ اس کے ساتھ ہی غیر نصابی سرگرمیوں میں بھی میری شمولیت لازمی ہوتی تھی۔
سحرش اعجاز: بچپن کا کوئی یادگار واقعہ یا اپنی زندگی کی کوئی حسین یاد بتائیں؟
نیلم علی راجہ: بچپن کے بہت سے واقعات یادگار ہیں۔ ان میں سے اکثر وہ لمحات ہیں جو سب بہن بھائی اور کزنز نے مل کر گزارے۔ جب ہم سب چھٹیوں میں اکٹھے ہوتے تھے یا مل کرگاؤں جایا کرتے تھے۔
اس کے علاوہ جب میں اپنے دادا ابو کو گاؤں خط لکھا کرتی تھی۔ وہ خوشی سے سب رشتہ داروں کو پڑھ کر سنایا کرتے تھے۔ پھر جس رشتہ دار کا نام میں لکھنا بھول جاتی تھی اس سے میری شامت آ جاتی تھی۔ کیوں کہ ہمارا خاندان کافی بڑا ہے ماشاء اللہ تو اکثر میں کسی نہ کسی کا نام لکھنا بھول جاتی تھی۔زندگی کے حسین لمحوں میں ایک تو بہترین انسان کے ساتھ شادی ہے اور پھر جب پہلی دفعہ اپنی بیٹی کو گود میں لیا۔ تشکر سے آنکھوں سے آنسو رواں ہو گئے۔ ایسے ہی احساسات بیٹے کی پیدائش پر بھی تھے۔
سحرش اعجاز: آپ نے لکھنے کا کب سوچا اور آپ کی پہلی تحریر کون سی تھی کچھ یاد ہے؟
نیلم علی راجہ: لکھنے کا سفر تو کافی عرصے سے جاری ہے۔ مگر باقاعدہ اردو ادب کے لیے لکھنا اس سال 14 اگست2021 سے شروع کیا۔ میری پہلی تحریر “تربیت” پر تھی۔
سحرش اعجاز: آپ کی زندگی کا مقصد کیا ہے؟
نیلم علی راجہ: مجھے زندگی کے مقصد کی تلاش بہت عرصے سے تھی بالآخر مجھے مقصد حیات مل ہی گیا۔ اور وہ یہ کہ میں اپنے قلم کی طاقت سے لوگوں کی زندگیوں میں مثبت تبدیلیاں لاؤں۔ جن موضوعات پر ہم جانتے بوجھتے لکھنا،پڑھنا اور سننا نہیں چاہتے وہ لوگوں کے سامنے لاؤں۔ کسی ایک نے بھی عمل کر لیا تو میرا مقصد پورا ہو جائے گا۔
سحرش اعجاز: اب تک آپ کے کتنے کالم یا تحاریر منظر عام پر آ چکے ہیں؟
نیلم علی راجہ: اب تک دو پچیس سے تیس تحاریر منظر عام پر آچکی ہیں۔ جن میں بچوں کی تربیت، ان کے مسائل سے لے کر خواتین و حضرات کے متعدد مسائل اور روزمرہ کے دیگر مسائل جن پر عام طور پر دھیان نہیں دیا جاتا شامل ہیں۔
سحرش اعجاز: دورحاضر کے کن ادیبوں کے کام کو پسند کرتی ہیں؟
نیلم علی راجہ: ادب سے تعلق رکھنے والا ہر انسان قابل ستائش ہے۔ کیونکہ لوگ اپنا خون پسینہ جلا کر کام کرتے ہیں اور ایک ادیب اپنے ذہن کو نچوڑ کر اپنے تئیں عمدہ سے عمدہ تحریر لکھنے کی کوشش کرتا ہے۔ اس لیے میرے لیے سب ہی قابل احترام اور عزیز ہیں۔ مگر ان میں سے وہ ادیب دل کے قریب ضرور ہیں جو میری طرح دل کی سن کر لکھتے ہیں، صرف دماغ سے سوچ کر نہیں لکھتے۔
سحرش اعجاز:: بچوں کے لئے کارٹون سیریز لکھنا کیسا رہا؟
نیلم علی راجہ: بچوں کے لیے کارٹون سیریز لکھنا ایک ایسا تجربہ تھا جس نے میرے دل کو سکون دیا اور میرے لکھنے کی صلاحیتوں کو ابھارا۔ بہت کچھ سیکھنے کا موقع ملا اور ساتھ ہی ساتھ کہیں نہ کہیں مقصد حیات کی بھی تکمیل ہو رہی تھی کہ کچھ اچھا اور کارآمد کر رہی ہوں۔
سحرش اعجاز: کون سے شاعر اور ادیب پسند ہیں؟
نیلم علی راجہ: ویسے تو محسن نقوی اور امجد اسلام امجد کی شاعری پسند ہے۔ مگر دوسرے شعراء کا کلام بھی اچھا لگتا ہے۔ شعر موقع اور موڈ کے مطابق ہو تو ہر شاعر ہی لازوال لگتا ہے۔
سحرش اعجاز: کھانا پکانا آتا ہے،آ پ کو کون سا رنگ پسند ہے؟
نیلم علی راجہ: اللہ کا احسان ہے کہ کھانا پکانا آتا ہے۔ اور اس سے بڑھ کر کھانا بنا کر کھلانے کی شوقین ہوں۔ مہمانداری اچھی لگتی ہے۔ کوئی ایک رنگ پسند نہیں ہے۔ جو نظر کو بھا جائے۔ ہر رنگ کا اپنا ایک حسن ہے۔
سحرش اعجاز: کس صنف میں لکھنا زیادہ پسند کرتی ہیں؟
نیلم علی راجہ: کہانیاں لکھنا پسند ہے مگر وقت کی کمی کے باعث کالم اور مضمون زیادہ تعداد میں لکھ پا رہی ہوں۔ مقصد اصلاحی کام کرنا ہے تو وہ جس صنف میں بھی ہوں گے اچھا لگے گا۔
سحرش اعجاز: کس بات پر سب سے زیادہ غصہ آتا ہے؟
نیلم علی راجہ: جھوٹ اور بدتمیزی پر سب سے زیادہ غصہ آتا ہے۔ اس پر قابو پانے کی کوشش جاری ہے امید ہے اس زندگی میں ہی قابو پا لوں۔
سحرش اعجاز: پڑھنا کیسا لگتا ہے؟
نیلم علی راجہ: جیسے آپ گھائل ہوں اور کوئی مرھم رکھ دے۔ بالکل ایسا سکون محسوس ہوتا ہے۔ دنیا و مافیا سے دور لے جاتی ہیں کتابیں۔
سحرش اعجاز: کیا ایک ادیب ادب کو ذریعہ معاش بنا سکتا ہے؟
نیلم علی راجہ: کیوں نہیں! جس طرح باقی سب پیشے ہیں۔ ڈاکٹری کا، انجینئرنگ کا اسی طرح آپ کی روح اور آپ کے ذہن کے سکون کے لیے لکھنے والا ادیب کیوں نہیں پیشہ کہلا سکتا۔ایک ادیب کو بھی معاوضہ اور وہی عزت و احترام ملنا چاہیے جو دوسرے بیشتر شعبوں کو ملتا ہے مگر بد قسمتی سے پاکستان میں میں نے تو ادیبوں کو زبوں حالی کا شکار دیکھا ہے۔ ان کی لکھی تحاریر کی قدر پھر بھی ہے اس لکھنے والے ادیب کی نہیں ہے۔
سحرش اعجاز: آپ کو اپنی عمر کا کونسا زمانہ زیادہ اچھا لگا؟
نیلم علی راجہ: یہ کیا سوال پوچھ لیا آپ نے! مجھے ڈرامے دیکھنے کا جنون کی حد تک شوق تھا۔ مصروفیت کے باوجود چھٹی کے دن سارے ڈرامے دیکھا کرتی تھی۔ ایلفا براوو چارلی، تنہائیاں، ان کہی، دھوپ کنارے، دھواں سے لے کر پیارے افضل، زندگی گلزار تھی، اور ہمسفر بہترین ڈرامے تھے۔ آج کل بچوں کی مصروفیت میں یہ شوق توڑا ماند پڑ گیا ہے یا شاید کوئی خاص ڈرامہ دل کو بھایا نہیں ہے۔
سحرش اعجاز: ایک ادیب معاشرے کی ترقی میں کیا کردار ادا کر سکتا ہے؟
نیلم علی راجہ: ایک ادیب کے پاس جو طاقت ہے وہ کسی دوسرے کے پاس نہیں ہے۔ اس کے پاس قلم کی طاقت ہے۔ وہ اپنے قلم کا صحیح استعمال کر کے معاشرے میں مثبت تبدیلیاں بھی لا سکتا ہے اور منفی تبدیلیاں بھی لا سکتا ہے۔ معاشرے کی سوچ کو ترقی یا تنزلی دونوں راہوں پر گامزن کر سکتا ہے۔
سحرش اعجاز: نوجوان نسل کو آپ کوئی پیغام دینا چاہیں گی؟
نیلم علی راجہ: میرا پیغام نوجوان نسل کے لیے ہے کہ کچھ بھی ہو جائے خود کو ہارنے مت دیں۔ سب کو ایک ہی زندگی ملی ہے اس کو بھرپور جیں مگر ایک بات ہمیشہ یاد رکھیں۔آپ جو کچھ بھی کریں گے آگے چل کر اللہ کے حضور ایک ایک چیز کا حساب دینا ہے۔ اس حساب کے بارے میں سوچ کر اپنی راہ متعین کریں اور جو دل چاہیں کریں۔
بہت شکریہ نیلم علی راجہ صاحبہ۔
Photo by Amy Hirschi on Unsplash