Inteqaam: Story by Maupassant: Urdu Translation by Osman Sher
انتقام
سید عثمان شیر
(موپاساں کی کہانی A Vendetta کا انگریزی سے ترجمہ)
بانی فاسیو کے مضافات میں پاولو ساورینی کی بیوہ اپنے بیٹے کے ساتھ ایک بوسیدہ سے گھر میں تنہا زندگی کے دن گزار رہی تھی۔وہ شہر پہاڑی سے باہرکی طرف نکلی ہوئی چٹانوں پرآباد تھا اور بعض مقامات پر تو سمندر کے اوپر معلق نظر اتاتھا۔ آبنائے کے اُس پار دیکھنے پرکنارہ بالو چر وںسے بھرا دیکھائی دیتا تھا۔ اُسی کے نیچے مخالف سمت میں ساردینیہ کے انتہائی جنوب کی طرف نظر ڈالی جائے تو پہاڑی کے ڈھلوان میں چاروں طرف سے گھرا ہوالمبی سی راہداری کی طرح کا ایک شگاف بن گیا تھا جو کشتیوں کی پناہ گا ہ کے طور پر کام آتا تھا۔ وہاں اٹلی اور ساردینیہ کے ماہی گیروں کی چھوٹی چھوٹی کشتیاں نوکیلی چٹانوں کے درمیان لہراتے راستوں سے گزرتے ہوئے پہلے گھر تک پہنچتیں۔ اورہر دوسرے ہفتے بوسیدہ سی سیٹی بجاتی ہوئی بھاپ والی کشتی اجاکیو جاتے ہوئے وہاں سے گزرتی۔
اس سفید پہاڑکے او پرساتھ ساتھ لگے ہوئے گھروں سے پہاڑ اور بھی زیادہ سفید نظر اتا تھا۔ وہ مکانات پہاڑ کی چوٹیوں پر بنے ہوئے جنگلی پرندوں کے گھونسلوں کی طرح لگتے اور ایسا محسوس ہوتا کہ وہ اس خوفناک راہداری کو دیکھ رہے ہوں جہاں سے بڑے جہاز شاید ہی کبھی گزرنے کی ہمت کریں۔ کبھی نہ رکنے والی تیز ہواوں نے ویران ساحل کو بے برگ اور تنگ ابنائے کے دونوں کناروں کو ضائع کر دیا تھا۔ پانی سے اوپر نکلے ہوئے لا تعداد کالے پتھروں سے چمٹے ہوئے بھورے رنگ کے جھاگ سمندر کی سطح پرچیتھڑوں کی مانند تیرتے اور پھسلتے نظرآتے۔پہاڑی کے بالکل کنارے پر بنے ہوئے ساورینی کی بیوہ کے گھر کی تینوںکھڑکیوں سے یہ وحشت ٹپکانے والا اور بے جان نظارہ دیکھنے کو ملتا۔ اس گھر میں وہ تنہا اپنے بیٹے اورکُتیا ’سمیلانت‘ کے ساتھ رہتی تھی۔ کتیا ایک بڑی سی، دبلی پتلی خونخوار، لمبے بالوں والی اور بھیڑوں کی رکھوالی کرنے والی نسل سے تھی۔ لڑکا جب بھی شکار کو جاتا تو اسے اپنے ساتھ لے جاتا۔
ایک رات کسی جھگڑے میں نکولس راولاتی نے انٹو نی ساورینی کو بری طرح چھراگھونپ کر مار دیا اور اُسی رات ساردینیہ بھاگ گیا۔جب بوڑھی ماں کو اپنے بچے کی لاش ملی، جو پڑوسی اُس تک لائے تھے، تووہ بالکل نہیں روئی،البتہ وہ دیر تک ساکت کھڑی اسے دیکھتی رہی۔اس کے بعد اپنے جھریوں بھر ے ہاتھ اس پرپھیرتی ہوئی اس نے انتقام کا وعدہ کیا۔ پاس میں کھڑے ہوئے لوگوں سے بھی وہ کچھ نہ بولی اور لاش اور کتے کے ساتھ گھر میں بند ہوگئی۔ بستر کے پائتانے اپنے مالک کی طرف منہ کئے اور دم کو ٹانگوں میں دبائے کتیا مسلسل بھونک بھونک کر رو تی رہی۔ کتیا بھی اسی طرح ایک جگہ جم کر رہ گئی تھی جیسی ماں، جو لاش پر جھک کر سپاٹ نظریں ڈالے خاموشی سے روتی ہوئی اسے ٹکٹکی با ندھے دیکھ رہی تھی۔
موٹے جھوٹے کپڑوں سے بنی کالی جیکٹ میں ملبوس، جو سینے پر پھٹا ہو ا تھا، نوجوان چت لیٹا سویاہوا لگ رہا تھا۔ لیکن اس کے ہر طرف خون ہی خون تھا: اس کی قمیص پر جو ابتدائی طبی امداد دینے کے لئے پھاڑ دی گئی تھی، اس کی بنیان، پتلون، اس کے چہرے اور ہاتھوں پرخون۔ اس کی داڑھی اور سر کے بالوں پر خون جم کر سخت ہو گیا تھا۔ اس کی ماںکچھ بولنے لگی۔ اس کی اواز سن کر کتیا خاموش ہوگئی۔’’کوئی ڈر کی بات نہیںمیرے بیٹے، میرے ننھے سے لاڈلے سوئے رہو؛ تمہارا بدلہ لے کر رہونگی۔ سنتے ہو؟ یہ تمہاری ماں کا وعدہ ہے! اور اس نے ہمیشہ وعدہ وفا کیا ہے۔ تمہاری ماں ایسا ہی کرتی ہے اور جیسا کہ تم کو معلوم ہے وہ ہمیشہ کریگی‘‘۔ وہ آہستہ سے اس پر جھکی اور اپنے سرد لبوں کو اس کے بے جان لبوں پر رکھ دیا۔سمیلانت نے پھر ایک لمبی،یکساں، دل سوز، اور خوفناک اواز کے ساتھ آہ و بکا کرنا شروع کر دیا۔ عورت اور کتیا،دونوں ہی اس جگہ صبح ہونے تک رہے۔ دوسرے دن انٹونی ساورینی کو دفن کر دیا گیا ور اس کے جلد ہی بعدبانی فاسیو میں اس کے بارے میں لوگوں نے باتیںکرنا بند کر دیں۔
اس کاکوئی بھائی تھانہ عم زاد جواُس پشتینی انتقام کو حقیقت کا روپ دے سکے۔اس کی ماں، ایک ضعیف عورت، اکیلی ہی اس بارے میںسوچتی رہتی۔ وہ آبنائے کی دوسری طرف کنارے پر صبح سے رات تک ایک سفید سے دھبے پر نظر گاڑے رہتی۔ وہ ساردینہ کا ایک چھوٹا سا گاوں لنگوساردو تھا جہاں کارسیکا کے مجرموں کو جب پکڑنے کی کوشش کی جاتی تو بھاگ کر پناہ لے لیتے۔ اس چھوٹے سے گاوں کی تقریباً ساری آبادی ایسے ہی لوگوں پر مشتمل تھی۔ سامنے ہی تو ان کا ابائی جزیرہ تھا جہاں واپس آنے کے لئے وہ مناسب وقت کا انتظار کرتے رہتے۔ اس عورت کو معلوم تھا کہ نکو لس راولاتی نے اس گاوں میں پناہ لی ہوئی ہے۔
دن بھر کھڑکی کے سامنے بیٹھی،دور اس پار نظریں گاڑے ہوئے وہ انتقام ہی کا سوچتی رہتی۔ ایک ناتواں اوروہ بھی مرنے کے قریب، وہ کیسے کسی کی مدد کے بغیر کچھ کر سکتی تھی؟ لیکن اس نے وعدہ کیا تھا، اور اس کی لاش پر ہاتھ رکھ کر قسم کھائی تھی۔وہ بھول سکتی تھی اور نہ ہی اس کے پاس انتظار کا وقت تھا۔ تو پھر وہ کیا کرسکتی تھی؟ اس کی راتوں کی نیند اڑ گئی تھی اور دماغ سے سکون اور چین غائب ہوچکے تھے۔ لیکن وہ مستقل اسی بات پر غور کرتی رہتی۔ اس کے قدموں سے لگی اونگھتی ہوئی کتیا کبھی کبھی اپناسر اٹھاتی اور ایک بھونک لگاتی۔ اپنے مالک کی موت کے بعد سے وہ اکثر اسی طرح بھونکتی، جیسے وہ اس کوبُلا رہی ہو۔ ایسا لگتاتھا کہ اس جانور کی روح کو تسلی نہیں مل رہی تھی جس کی گہرائی میں ایسی یادیں بسی تھیں جن کو مٹایا نہیں جا سکتا تھا۔
ایک رات جب کتیا اُسی طرح روئی تو ماں کو ایک ترکیب سوجھ گئی، نہایت بے رحمانہ، منتقمانہ، اورمتشدّد۔ صبح ہونے تک وہ اُسی خیال میںغرق رہی۔علی الصباح اٹھ کر وہ گرجا گھر گئی۔ اس نے زمین پر سجدے میں گر کر خدا سے گڑ گڑا کر مدد کی دعائیںمانگیں کہ وہ اس کو سہارا دے اور اس کے کمزور اور ٹوٹے پھوٹے جسم میں اتنی طاقت دے کہ وہ اپنے بیٹے پر ظلم کا بدلہ لے سکے۔ وہ گھر واپس اگئی۔ اس کے صحن میں ایک پیپاتھا جو پانی جمع کرنے کے کام اتا تھا۔اُس نے اس کو الٹ کر خالی کر لیا۔ پھر اُس کو نکیلی ڈنڈیوں اور پتھروں کی مدد سے زمین میںپیوست کر دیا۔ اس کے بعد اس نے جلدی میں بنائے ہوئے اس تازی خانے کے ساتھ سمیلانت کو ایک زنجیرسے باندھ دیا اور گھر کے اندر آگئی۔ مسلسل ٹہلتی ہوئی وہ دور میں ساردینیہ کے ساحل پر نظریں جما ئے رہی۔ قاتل وہاں تھا۔دن بھر اور ساری رات سمیلانت بھونکتی رہی۔ صبح کو بڑھیا اس کے لئے ایک پیالے میں پانی لائی، اور کچھ نہیں، شوربہ نہ روٹی۔ دوسرا دن بھی گزر گیا۔ سمیلانت تھک ہار کر سو تی رہی۔ اس کے دوسرے روز اس کی انکھوں میں ایک چمک آگئی، بال کھڑے ہو گئے اور وہ بے چینی سے اپنی زنجیر کوکھینچتی رہی۔ اس دن بھی بوڑھی عورت نے اسے کھانے کو کچھ نہیں دیا۔ غصے میں پاگل حیوان غرّا غرّا کر بھونکتی رہی۔ ایک رات اور گزر گئی۔علی الصبح، ماماساورینی اپنے پڑوسی سے پھونس مانگ کر لائی۔ اس نے اپنے شوہر کے پرانے کپڑوں کو لیا اوران میں پھونس بھر کر ایسا بنا دیا جیسے ایک انسان ہو۔ پھر سیمیلانت کے تازی خانے کے سامنے ایک ڈنڈا گاڑ کر اس پتلے کو اس سے باندھ دیا جیسے کوئی آدمی کھڑا ہو۔ اس کے بعد پرانے چیتھڑوں سے ادمی کا ایک سر بنالیا۔
بھوک سے نڈھال کتیا حیرت کے ساتھ اس پھونس والے اد می کو دیکھتی رہی، لیکن خاموش رہی۔اب وہ بوڑھی عورت دکان سے قیمہ سے بھرا ایک کالاکیسہ (Sausage)لے کر آئی۔ گھرآکر صحن میںاس نے تازی خانے کے نزدیک آگ سلگائی اور کیسہ کو بھوننے لگی۔ سیمیلانت پاگلوں کی طرح اُچھل کود کرنے لگی۔ اس کے منہ سے جھاگ نکل رہے تھے اور اس کی انکھیں کھانے پر گڑی ہوئی تھیں جس کی خوشبو ٹھیک اس کے پیٹ کے اندر جا رہی تھی۔تب ماں نے بھاپ نکلتے ہوئے کیسہ کو پتلے کی گردن میں ایک نکٹائی بنا کر رسیوں سے مضبوطی سے باندھ دیا۔ اور جب اپنا کام ختم کر چکی تو کتیا کو کھول دیا۔ ایک ہی چھلانگ میں کتیا پتلے کے حلق پرتھی، اور اس کے کندھوں پر اپنے پنجے گاڑتے ہوئے اس کو چیر پھاڑ کرنا شروع کر دیا۔ کھانے کا ایک ٹکڑامنہ میں لئے وہ نیچے اترتی اور پھر چھلانگ لگا کر اوپر۔ اپنے دانتوں کورسیوں میں گاڑ کر مزید ٹکڑے نوچتی اور نیچے اجاتی اور پھر اوپر۔ وہ اس کے چہرے کو دانتوں سے نوچ رہی تھی یہاں تک کہ پوری گردن چیتھڑا بن گئی۔
بوڑھی عورت ساکت کھڑی خاموشی سے سارا تماشہ دیکھتی رہی۔ اس نے ایک بار پھر اس حیوان کوزنجیروں سے باندھ دیا اور دو دن بھوکا رکھنے کے بعد یہ حیرت انگیز تماشہ اسی طرح دُہرایا۔ تین ماہ تک اس نے اس کو اِس بات کا عادی بنا دیاکہ اپنا کھاناجھپٹ کر ہی حاصل کیا جا سکتا ہے۔ اب اسے زنجیر میں باندھنے کی بھی ضرورت نہیں تھی بلکہ پتلے کی طرف اشارہ کر دینا کافی تھا۔اس نے اس کو سکھا دیا تھا کہ کس طرح پتلے کو چیر پھاڑ کر رکھ دے اور حلق کو اس طرح نوچ بھنبھوڑ کر کھائے کہ کچھ بھی بچ نا پائے۔اب وہ جیسے ہی پتلے کو دیکھتی، سیمیلانت غصے میں کانپنے لگتی۔ پھر اپنی مالکن کی طرف نظر اٹھا کر دیکھتی، جو اپنی انگلی سے اشارہ کرتے ہوئے چیخ کر کہتی’’جھپٹ پڑو‘‘۔
جب بڑھیا نے سمجھ لیا کہ اب صحیح وقت آگیا ہے تو گناہ کے اعتراف کی خاطر گرجاگھر گئی، اور اتوار کی صبح کو عشائے ربانی کی تقریب میں بڑے جوش و جذبے کے ساتھ شرکت کی۔ پھر ایک مرد کا لباس پہن کرجیسے کوئی اوارہ گرد نظر ائے اس نے ساردینیہ کے ایک ماہی گیر سے بات طے کی جس نے اس کو اور اس کی کتیا کو ابنائے کے اس پار پہنچا دیا۔ اس کے تھیلے میں کیسہ کا ایک بڑا سا ٹکڑا تھا۔ سیمیلانت دو روز سے بھوکی تھی۔ بڑھیا نے خاص کر اس کو کھانے کی خوشبو سونگھنے کے لئے رکھا ہوا تھا تاکہ اس کی اشتہا خوب تیز ہو جائے۔
وہ دونوں لنگوساردو اُتر گئے۔کارسیکی عورت لنگڑا کر چل رہی تھی۔ وہ ایک نان بائی کی دکان پر گئی اور وہاں سے نکولس راولاتی کا پتہ دریافت کر لیا۔ وہ بڑھئی کا پرانے پیشہ اختیار کئے ہوئے تھا۔اس وقت دکان میں وہ اکیلے کام کر رہا تھا۔ بڑھیا نے دروازہ کھولا اورآواز دی: ’’ہیلو نکولس‘‘۔ وہ مُڑا۔اسوقت اس نے کتیا کو چھوڑ دیا اور زور سے چلائی:’’جھپٹ پڑو،اس کو کھا جاو، اس کو کھا جاو‘‘۔پاگل ہوئی کتیا اس کے حلق پر جھپٹی۔ ادمی نے اپنے ہاتھ بڑھا تے ہوئے کتیا کو پکڑا اور زمین پر لوٹ پوٹ ہونے لگا۔ چند سیکنڈوں تک وہ اچھل کود کرتا رہا اوراپنے پیروں کو زمین پر مارتا رہا۔ اس کے بعد اس کی حرکت بند ہو گئی کیونکہ سیمیلانت نے اپنے دانتوں کواس کے حلق پر گاڑے ہوئے تار تار کردیا تھا۔ سامنے کے دروازے پر بیٹھے ہوئے دو پڑوسیوں کو اچھی طرح یاد ہے کہ انہوں نے ایک اوارہ گرد جیسے آدمی کو وہاں سے نکلتے ہوئے دیکھا تھاجس کے ساتھ ایک دبلی سی کالی کُتیا تھی جو اپنے مالک کا دیا ہوا کچھ کھا رہی تھی۔
رات ہوتے ہوئے بڑھیا اپنے گھرواپس ا چکی تھی۔ اُس رات وہ سکون سے سوئی۔