Insaaf in Pakistan: Article by Nadiah Zehri
پاکستان ایک اچھا ملک ہے مگر پاکستان کا سسٹم اچھا نہیں کیونکہ یہاں کرپٹ آفیسر بہت ہیں!
اِن جملوں کو پڑھتی ہوں تو دل خون کے آنسو رونے لگتا ہے، دماغ ماننے سے انکاری ہوجاتا ہے کہ اِن جملوں کو لکھنے والا نوجوان اس دنیا میں اب نہیں رہا!
انصاف مانگتے مانگتے جب اُمیدیں مایوسی کا چادر اوڑھنے لگی تو سولہ سالہ نوجوان نریندر کُمار راٹھور نے خودکشی کی وادی میں خود کو دھکیل دیا، بروز ہفتہ چودہ جولائی ضلع ٹنڈوالیار کے قصبے نصرپور کا رہنے والا نریندر راٹھور نے چند کرپٹ افسران کی وجہ سے اپنی جان لے لی،خودکشی کی وجہ جان کر ہر آنکھ اشکبار اور ہر دل دکھ سے بھر گیا- پچھلے تین سال سے ہندو برادری کے قبرستان(یہاں یہ بات واضح کردوں کے ہندوؤں میں کئی ایسے ذات پائے جاتے ہیں جو میتوں کو جلانے کے بجائے سپرد خاک کردیتے ہیں نریندر کُمار راٹھور کا بھی تعلق ایسے ہی ایک ذات سے تھا )
پر ناجائز قبضے کے خالاف آواز اُٹھانے والا نریندر کا باپ نھال راٹھور کو جب ہر طرف سے مایوسی کا سامنا ہوا تو باپ کی مایوسی نے معصوم نریندر کو گہرا دکھ پہنچایا اور اُس نے ایک بے حس معاشرے میں رہنے سے زیادہ حرام موت کو ترجیح دی!
انٹر کا طالب علم خوبرو نوجوان اور خوبصورت نقوش کا حامل نریندر کا خود کو سُولی پر چڑھانا معاشرے پر ایک سوالیہ نشان چھوڑنے کے ساتھ ساتھ اُس کے جیب سے ملنے والا خط تمام کرپٹ حکمران کے منہ پر لگنے والے کسی طمانچے سے کم نہیں-
چند دن قبل نریندر کے ہاتھوں لکھے گئے اس آخری خط کو سوشل میڈیا میں پڑھنے کے بعد نریندر کا ایک ایک لفظ زخم بن کے میرے دماغ میں گردش کر رہا ہے –
(بابا میں آپ کا ڈاکٹر بننے کا خواب پورا نہیں کرسکتا، بھائی کرے گا میں ایسے ملک میں رہنا پسند نہیں کرتا جہاں انصاف نہ ملے پاکستان اچھا ملک ہے مگر یہاں کے افسران کرپٹ ہیں، ہر کام کے لیے قربانی درکار ہوتی ہے شاید میری جان کے بدلے یہاں کا نظام بدل جائے یہاں ہمارے ساتھ نا انصافی ہو رہی ہے،زندگی میں انصاف نہیں ملا شاید مرنے کے بعد مل جائے! )
نریندر کے یہ الفاظ چیخ چیخ کر بتا رہے ہیں کہ وہ کس قدر ذہنی اذیت سے گزرا تھا –
اے خورندہ خونِ خلق ازرہ بگرد
تا نیارد خون اِیشانت نبرد!
(اے خلق کا خون چوسنے والا ظالم انسان چھوڑ دے یہ ظلم کا راستہ کہیں ایسا نہ ہو کہ اِن کا خون تم سے جنگ کرے —رومی! )
کیا انصاف اِس قدر ناپید ہوگئی ہے کہ اِسکے ملنے کے خیال سے کسی انسانی جان کی قربانی دینی پڑ جائے،نریندر کا اُٹھایا جانے والا یہ اقدام معاشرے میں سوچ کے کئی در وارد کر رہا ہے،کیا ہمارے ہاں کچھ لوگ اِس قدر گرچکے ہیں کہ شہرِخموشاں تک کو قبضہ کرنے سے دریغ نہیں کرتے اور ان لوگوں کی پشت پناہی کرنے والے روز محشر اس پاک و بے مثال ہستی اپنے آقا آنحضرتﷺ کو کیا منہ دکھائیں گے جنہوں نے انصاف کی خاطر
قبیلہ بنو مخزوم کی ایک خاتون جس نے چوری کی تھی کا ہاتھ کاٹنے کا حُکم دیا اور ساتھ فرمایا قسم ہے اُس ذات کی جس کے ہاتھ میں محمد ﷺ کی جان ہے اگر فاطمہ بنت محمد
ﷺ بھی چوری کرلے میں اُسکا بھی ہاتھ کاٹ دوں گا!
بیشک آپ ﷺ ایسا ہی کرتے لیکن افسوس آپ ﷺ کے اُمتی دولت اور حرص کی پٹی آنکھوں میں باندھ کے انصاف کی حد بھول چکے ہیں اور وجہ وہی ہمارا خراب سیاسی نظام اور کرپٹ حکمران ہیں جو ٹکے ٹکے کے عیوض غریب لوگوں سے اُن کا ایمان خرید کر ملک پر مسلط ہوجاتے ہیں اور ساتھ کرپٹ افسران کی پشت پناہی کرکے نا انصافی کی نئی تاریخیں رقم کرتے ہیں –
نریندر کا باپ پچھلے تین سالوں میں قبضہ کرنے والوں کے خلاف شاید کیس جیت بھی جاتا مگر کرپٹ افسران کی پشت پناہی نے اُسکے کیس کو کمزور بنا دیا تھا، وجہ وہی جو معصوم نریندر نے خط میں واضح الفاظ میں لکھا تھا کہ پاکستان کا نظام صحیح نہیں –
کہتے ہیں جب کوئی خورندہ ماں کے شکم میں ہوتا ہے تو وہ وہی سب کھاتا ہے جو اُسکی ماں کھا رہی ہوتی ہے نا صرف یہ بلکہ ماں کے شکم میں اُسکے حرکات و سکنات بھی کسی قدر ماں کے ہر کیئے گئے عمل کا پر تو ہوتے ہیں یعنی وہ سب کچھ وہی کرتا ہے جو وہ اپنے جڑوں میں محسوس کرتا ہے –
اِسی طرح ایک درخت کی ہریالی و پھل اُسکے مظبوط جڑوں سے جڑے ہوئے ہوتے ہیں اگر
درخت کا جڑ ہی کھوکھلا اور سڑا بسا ہو تو نا صرف اُسکی ہریالی بھی زرد زمانوں کی داستانیں سناتی ہے بلکہ اُس میں میٹھے پھلوں کا لگ جانا بھی کسی معجزے سے کم نہیں سمجھا جاتا،بلفرض پھل لگ بھی جائیں تو اُن میں بھی وہی باس رچ بس چکی ہوتی ہے جو پھل کے جڑوں میں موجود ہوتا ہے –
باوجود اِسکے کہ ہم آج ایک آزاد معاشرے میں جی رہیں ہیں ایک جمہوری نظام کے تحت خودمختار فیصلوں کے ذریعے اپنا ہر کام سرانجام دے رہے ہیں مگر اس بات سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا کہ آج بھی ہمارے ملک میں کہیں نہ کہیں ایسے لوگ بھی پائے جاتے ہیں جو اِسی جمہوریت اور خودمختاری کو اپنا سب سے بڑا ہتھیار سمجھ کر کچھ بھی کر گزرنے سے دریغ نہیں کرتے، اور اس کے پیچھے وہی لوگ پائے جاتے ہیں جو چند ٹکوں کے عیوض بکے ہوئے ہوتے ہیں، ایسے حکمران جو اقتدار کی خاطر غریب و مفلس لوگوں سے انکا ایمان خریدتے ہیں اُنکے دورِ حکمرانی میں ایسے ہی لوگوں کی ملنے کی توقع کی جاسکتی ہے جو چند چند ٹکوں کی خاطر اپنا آپ تک بیچنے کو تیار بیٹھے ہوں، جب جڑ ہی کھوکھلا تو پھر کچھ بہتر نظام کی توقع کیونکر کی جاسکتی ہے، تو پھر صاف ظاہر ہوا ان کرپٹ حکمرانوں اور کرپٹ افسران کے ہوتے ہوئے کیا معصوم نریندر کو انصاف مل سکتا تھا –؟ یقیناً نہیں لیکن ہاں اگر یہ وہ زمانہ ہوتا جب خلیفہ دوم سیدنا حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا دورِ خلافت تھا تو شاید نریندر کو اپنی قیمتی جان کی قربانی یوں پیش نہیں کرنا پڑتی، آپکے دور میں عدل و انصاف کا یہ عالم تھا کہ جب آپ کی شہادت ہوئی تو آپکی سلطنت کے دور دراز کا ایک چرواہا بھاگتا ہوا آیا اور چیخ چیخ کر کہنے لگا لوگو آج سیدنا حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا انتقال ہوگیا ہے –
یہ سن کر لوگوں کو کافی حیرت ہوئی اور اُنہوں نے جواباً پوچھا کہ تم مدینے سے ہزاروں میل دور جنگل میں تھے تمہیں اطلاع کس نے دی؟ چرواہا بولا جب تک سیدنا حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ زندہ تھے میری بھیڑیں جنگل میں بنا کسی خوف و خطر کے گھومتیں تھیں اور کوئی بھی جنگلی درندہ اُنکی طرف آنکھ اُٹھا کر نہیں دیکھتا تھا لیکن آج پہلی بار ایک بھیڑیا میری بھیڑ کا بچہ اٹھا کے لے گیا اور میں بھیڑیے کی اس جرات سے جان گیا کہ سیدنا حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ دنیا میں نہیں ہیں!
اگر آج کے حکمران ذرا برابر بھی سیدنا حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے نقش و قدم پہ چلتے تو شاید آج پاکستان کے حالات نا صرف قدرے اچھے ہوتے،بلکہ کوئی بھی عام انسان کسی دوسرے انسان کو خود سے کم تر سمجھ کے برا سلوک اور ظلم کی نئی داستانیں رقم کرنے کی جرات نہیں کرتا، نریندر جس کے باپ کی دیرینہ خواہش تھی کہ اُسکا بیٹا ڈاکٹر بننے اور ملک و قوم کی خدمت کرے ابھی تو اُسے باپ کا جاگتی آنکھوں سے دیکھا جانے والا خواب پورا کرنا تھا کہ چند ظالم لوگوں کی ظلم کی وجہ سے نریندر کے نام کا روشن دیا ہمیشہ ہمیشہ کے لیے بجھ گیا اور اس معصوم کو سولی تک پہنچانے والے آج بھی سینہ تان کر نریندر کے آبائی قبرستان پر قبضہ جمائے بیٹھے ہیں، اور کیوں نہ قبضہ جمائے آخر اُنہوں نے چند بکاٶ افسران کو خریدا ہوا ہے جو اُنکی پشت پناہی کے لیے ہر دم اپنی سرکاری کرسیوں کا ناجائز فائدہ اٹھاتے ہیں –
نریندر کے لکھے گئے آخری خط میں موجود اِن الفاظ نے “یہاں ہمارے ساتھ نا انصافی ہو رہی ہے” چیخ چیخ کر بتا رہے ہیں کہ ہندو مذہب کا پیروکار ہونے کے سبب اُنہیں دوسرے درجے کا انسان سمجھ کے اُنکے ساتھ خوب نا انصافیاں ہوئیں اور شاید یہیں وجہ تھی کہ قبضہ گروپ افراد کی پشت پناہی کرنے والے بھی شیر ہوگئے، یہاں سوال یہ اُٹھتا ہے کہ بحثیت پاکستانی نریندر اور اُسکے خاندان والے بھی اِس ملک میں آزاد رہنے کھانے پینے اور جینے کا اُتنا ہی حق رکھتے ہیں جتنا کہ ایک عام مسلمان شہری تو پھر کیونکر مذہب کو بیچ میں لا کر چند بے حس و بے ضمیر لوگ اللہ کی بنائی ہوئی مخلوق پر ظلم و بربریت کے پہاڑ توڑ دیتے ہیں، کیا یہ لوگ اللہ کی بے آواز لاٹھی کا سوچ کر کانپ نہیں جاتے کیا معصوم لوگوں پر خدائی فوجدار بن کر نازل ہونے والے قبر کی سیاہ اندھیری زندگی سے نہیں ڈرتے، کسی بھی انسان کو اذیت پہنچانے کے لیے مذہب کا سہارا لینے والے روز محشر اس پاک ذات کو کیا منہ دکھائیں گے جس کے قبضے میں انکی جان ہے، ایسے بکاٶ افراد کی نیچ سوچ کا اندازہ اِس بات سے لگا لیں کہ اپنے پیٹ کا دوزخ بھرنے کے لیے قبرستان تک ڈھا دینے سے گریز نہیں کرتے، کیا کوئی باشعور بندہ اسے انسانی عمل کہہ سکتا ہے –؟ کسی بھی مذہب کے پیروکاروں کو اِس قسم کی اذیت پہنچانا کہاں کا انصاف ہے، کل کلاں کو اگر کوئی ہندو مذہب کا پیروکار یہیں عمل کسی مسلمان کے ساتھ دورائے تو پورا پاکستان ایک ٹانگ پہ کھڑا ہوکے اُس ہندو کو برا بھلا کہے گا، اور آج اگر یہ کسی ہندو کے ساتھ ہوا ہے تو سبھی کان دبا کر خاموش بیٹھے ہیں، کیا ہمارا یہ دوہرا رویہ اس بات کی طرف اشارہ کر رہا ہے کہ ہم لوگ ابھی تک رنگ نسل، فرقہ اور مذہب کے شکنجے میں قید ہیں یا پھر شاید ہمارے اندر موجود انسانیت کا پودا سوکھ رہا ہے، بہرکیف جو بھی ہے لیکن کوئی شک نہیں کہ ہر ظلم کی ایک حد ہوتی ہے اور جہاں یہ حد ختم ہوتی ہے وہاں سے اللہ رب العزت کا انصاف شروع ہوتا ہے اور بیشک میرا رب بڑا انصاف والا ہے نریندر کو دار پر لٹکانے والے بھی کسی دن اس آخری حد پر ضرور پہنچ جائیں گے!