Inaya ka 2020: Urdu Afsana by Sumra Akhlaq

انایہ کا 2020

جنوری کا پہلا دن تھا اور انایہ اپنی سہیلی زویا کے ہمراہ یونیورسٹی کے فٹ پاتھ پر چہل قدمی کر رہی تھی۔ نئے سال کی مبارکباد کے ساتھ ساتھ اسکی خوشحالی کی دعا سے انایہ نے اپنی باتوں کی شروعات کی۔ دل کی چاہے دو باتیں ہی کیوں نہ ہوں دونوں سہیلیاں ایک دوسرے کو سنائے بغیر رہ نہیں پاتی تھیں۔ مزاج میں اگرچہ دونوں ایک دوسرے سے مختلف تھیں مگر فکر کے تناظرات نے دوستی میں کبھی خلل نہ آنے دیا۔ چہل قدمی کے دوران ہی انایہ کو سوجھی کہ سال کا پہلا دن پر مسرت انداز میں گزارا جائے، جس وجہ سے انایہ نے زویا کو کہیں باہر کھانا کھانے پر آمادہ کیا تو دوسری طرف زویا نے انایہ کو گزشتہ سال پیش آنے والے تلخ واقعات یاد کروانے لگی اور اسکے ساتھ یہ بھی سمجھانے لگی کہ آئیندہ ان غلطیوں کی مت دہرایا جائے۔ جن پر انایہ نے بلکل دہان نہ دیتے ہوئے اسے کلاس چھڑوانے کی ترکیب سوچتی رہی کیونکہ وہ اس بات سے بھی بخوبی واقف تھی کہ زویا کبھی کلاس نہیں چھوڑتی تھی۔ خیر انایہ کے بھرپور اصرار پر دونوں نے درمیانہ راستہ نکالا اور وہ یہ تھا کہ آدھی کلاسز لی جائیں اور پھر تفریح کی جائے۔۔۔

انایہ کو کھلی فضا، پر سکون ماحول میں اپنے پیاری سہیلی کے ساتھ دل کی باتیں کرنے کا بہت اشتیاق تھا۔ چہل قدمی سے لگاؤ اپنی جگہ مگر جو خوشی اسے زویا کے ہمراہ پیدل سفر طے کرنے سے ملتی تھی وہ ِاسے ایک قیمتی تحفہ کی مانند سمجھتی تھی۔ انایہ اگرچہ فطرتاً کم گوہ تھی مگر زویا کی صحبت میں سب کچھ غائب ہو جایا کرتا اور جہاں دو کہانیاں زویا کی سنا کرتی تو چھے اپنی سنا ڈالتی۔۔۔یوں وقت ریت کی طرح گزر جایا کرتا اور دونوں کو انداٹ تک نہ ہوتا۔ جیسے ہر انسان اپنے چاہنے والے کے آگے ایک مختلف ہوتا ہے ویسے ہی انایہ اپنے پیاروں کے سامنے اپنا اصل روپ دھار لیتی تھی۔

ریسٹورنٹ میں سے من پسند کھانا کھانے کے بعد انھوں نے واپس یونیورسٹی لوٹنا تھا، چند منٹ کی تصاویر یادگار کے طور پر موبائل فون میں محفوظ کرنے کے بعد وہ واپس چل پڑیں، یونیورسٹی پہنچتے ہی چھٹی کا وقت ہو گیا اور وہ دونوں اپنے گھروں کو چل دیں۔ حسبِ معمول گھر جاتے ہی انایہ کو گھر کا پکا  کھانا بھی چکھنا ہوتا تھا چاہے باہر سے کتنا ہی کیوں نہ کھایا ہو، دو لقمے لینے کے بعد نیند کے آغوش میں مبتلا ہوکر آرام کیا جاتا تھا، شام کی چائے نہیں پیا کرتی تھی، بس یوں ہی دوستوں میں سے ایک اور قریبی رفیق سعد سے گم شپ لگایا کرتی اور اسی سب میں رات کا وقت ہو جاتا اور وہ اگلے دن کی تیاری میں مصروف ہو جایا کرتی۔

وہی معمول جو ہر سٹوڈنٹ کا ہوا کرتا تھا بلکل ویسی ہی زندگی کے معمولات انایہ کے تھے، لیکن یہ سال کچھ مختلف تھا، اور اسکی بے پناہ امیدوں اور خوابوں کا مرکز بھی، کیونکہ وہ اس سال اپنی ڈگری مکمل کرنے جا رہی تھی، اور اسی وجہ سے کئی منصوبے اور خواہشات بھی سوچے ہوئی تھی کہ وہ اپنی گریجوئیشن کے اختتام پر کیمیکلز کی مدد سے کوئی شے تیار کرے گی، مختلف کارخانوں کے ٹرپ سے عملی طور پر کچھ  سیکھنے کا موقع ملےگا اور اسکے ساتھ ہی سہیلیوں کے ہمراہ بہترین وقت بتائے گی اور جانے کیا کیا۔۔۔ مگر شاید وہ اللہ کی مصلحت سے بے خبر تھی۔ شاید نہ صرف انایہ بلکہ دنیا بھر کی مخلوق بھی خدا تعالیٰ کی حکمت عملی سے نا واقف تھی۔ سب ہی نے آنے والے وقتوں کی منصوبہ بندی کر رکھی تھی اور سب ہی تمام خیالات کا محض منصوبہ رہ جانے سے انجان تھے، کیونکہ یہ سال اپنے اندر ایک مختلف ہی منشاء الٰہی چھپائے ہوئے تھا جس کے ظہور سے پوری کائنات جیسے بے بس سی ہو کہ رہ جانے والی تھی۔۔۔ غیر متوقع، دہشت ناک، سبق آموز اور دل دہلا دینے والا یہ دو ہزار بیس جس کی ہیبت بارے میں کسی بشر کو علم نہ تھا وہ اپنے اِبتدا کے چند ماہ بعد ہی خود میں موجود انفرادیت کو عیاں کرنے لگا جسکا پہلا شکار دنیا بھر کے چند ترقی یافتہ ممالک ہوئے۔

مگر اِن سب باتوں سے انایہ انجان اپنی تعلیم جاری رکھے ہوئے تھی، اسکے دل اور دماغ بھی ایک مختلف سمت کی جانب چل رہا تھا، سفر کی منزل سے لا علم انایہ۔۔۔ ایک ایسی راہ کی تلاش میں سفر آمادہ تھی جہاں وہ قرار جاں پا سکے۔ گو کہ یہ سال یقیناً گزشتہ دو سالوں کی نسبت زیادہ بہتر اور باعثِ راحت رہا، جسکی واحد وجہ اسکا بچپن کا دوست سعد تھا۔ انایہ سعد کے رو برو خود کو ایک نومولود منی تصور کیا کرتی اور سعد میں اُسے اپنا سب کچھ دکھائی دیتا۔ انایہ اور سعد کے درمیان محبت و خلوص بے پایاں اور انکا رشتہ غیر معمولی اہمیت کا حامل تھا۔ انایہ کا دو سال قبل سعد سے نا دانستہ وجوہات کی بنا پر جب رابطہ منقطع ہوا۔۔ اسکے فوراََ بعد انایہ کی زندگی اندھیروں اور افسردگی کی لپیٹ میں آ گئی، جو کہ واقعتاً اسکی زہنی نشونما کے لئے انتہائی اہم تھا، جسکا انایہ کو تب احساس ہوا جب سعد کے سبز قدم اسکی زندگی میں دوبارہ شامل ہوئے، اور انایہ کو تمام مایوسیوں اور بے چارگی کے دلدل سے آزادی ملی تب اسے درد اور راحت میں فرق معلوم ہوا۔۔اس نے خود پر بیتنے والے تمام دکھ و رنج پر شکر گزاری محسوس کی کہ اللہ نے اسے ہر جزبے کو سمجھنا اور اسکا احساس سیکھایا اور سعد کو باعث مسرت اسکی زندگی میں واپس لوٹا دیا۔۔

Government College University

 

وہ سعد سے دل کی ہر بات بانٹا کرتی چاہے وہ کسی بھی موضوع پر روشنی کیوں نہ ڈالتی ہو، اور انکے جواب میں سعد کے دیے گئے مشورے اسے وہ سکون فراہم کرتے جسکی خواہش انایہ کو دو سال قبل تھی جسنے اسے سعد کے در پر لا کھڑا کیا۔ اسکی بے قراری کو  قرار تو ملا مگر اسکی پیاس بڑھتی چلی گئی۔ ہر سوال کا جواب اسے سعد سے ملتا اور وہ یوں محسوس کرتی جیسے اسکی دل پذیر گفتگو  میں سارے جہاں کی نعمتیں مرکوز ہوں، جو در حقیقت بلکل درست بھی تھا۔

سعد کے خلوص نے انایہ کی چہچہاہٹ واپس لوٹا دی جو دنیا کے بد سلوکیوں کی وجہ سے کھو گئ تھی۔ اسکے ہمراہ وقت برق رفتاری سے گزرتا چلا گیا وہ اسکا دل و دماغ کب منفی سے مثبت ہو گیا، اسے احساس ہی نہ ہو پایا۔ یوں جیسے وہ ایک نئی شخصیت میں ڈھل رہی ہو، اور اسی سے ناواقف۔۔۔ انایہ کی شخصیت سازی میں دو ہزار بیس ایک انتہائی اہمیت کا حامل تھا جس سے انایہ بلاشبہ نا آشنا تھی۔

اسکی پڑھائی کا معمول جاری رہا، وقت گزرتا گیا اور یوں فروری کا مہینہ آن پہنچا جو اپنی ابتداء میں ہی ایک نت نئی خبر  کے ساتھ میدان میں آیا۔۔۔ اور وہ تھی “کرونہ وائرس”۔۔ جسکا چرچا چین اور یورپی ممالک میں عام ہونے کے ساتھ ساتھ خطرناک بھی تھا۔۔ لیکن اسکی ہیبت نے ابھی پاکستان کی حدود کو پار نہ کیا تھا، یہی وجہ تھی کہ پاکستانی عوام اور سیاسی حکمرانوں نے بھی سنجیدگی سے نہیں لیا۔ کرونہ وائرس کے متعلق بات چیت کا سلسلہ جاری تھا اور اس سے متاثر ہونے والے ممالک اور مریضوں کے بارے میں بھی معلومات فراہم کی جانے لگی اور اموات کے بارے میں بھی آگاہ کیا گیا۔۔۔ مگر جس پر بیتے وہ ہی جانے دل کا حال۔۔۔کیونکہ جب تک اپنے دل پر چوٹ نہ لگے تب تلک دوسروں کے درد کا احساس کیسے ہو سکتا ہے؟ یہی وجہ تھی کہ انایہ تو کیا پوری قوم نے یہ تہیا کر لیا کہ ایسی وبا کبھی یہاں قدم جما ہی نہیں سکتی۔۔

یقیناً ایک نہ ایک دن اس وبا نے پاکستان میں بھی بن بلائے مہمان کی طرح آنا ہی تھا سو وہ آ گئی، اسکی وجہ ہماری سستی یا لاپرواہی رہی یا خدا کی رضا؟ یہ طے کرنا مشکل تھا اور موجودہ حالات اور کرونہ وبا کا تیزی سے پھیلتی شرع نے پورے ملک میں خوف و خطر پیدا کر دیا، حتی کہ مارچ دو ہزار بیس میں تمام دفاتر، تعلیمی اداروں سمیت پورے ملک کو مخصوص مدت کے لیے بند کرنا پڑا۔۔۔ سوائے ایک ادارے کے۔۔ اور وہ تھا محکمہ صحت۔۔۔ جس پر خاصی بھاری زمہ داری عائد ہوئی! کرونہ کے مریضوں کی دیکھ بھال اور جانچ پڑتال آساں نہ تھا، بلکہ خود کو موت کے کوئیں میں روز دھکیلنے کی مانند تھا، جسکی وجہ سے دنیا بھر کے ڈاکٹر حضرات کو جانی نقصان بھی اٹھانا پڑا۔ مگر اس زمہ داری کو بخوبی نبھانے اور احتیاطی تدابیر قوم کو سمجھانے پر تمام طبِ ادارے خراجِ تحسین و ستائش کے مستحق بھی کہلائے گئے اور دنیا بھر نے انکی کاوشات کو رہے دل سے سراہا۔

دو ہزار بیس نے غیر متوقع ہونے کے سب ریکارڈ توڑ ڈالے، جہاں اموات کی شرع میں اضافہ دیکھا گیا تو ساتھ ہی بہت سی جانوں نے اس دنیا میں قدم رکھا، کاروباری مراکز میں ہوتا اربوں کا خسارہ، بیرونِ ملک پروازوں پر پابندی نے کیا ملکوں کا بے حد نقصان، دنیا میں مایوسی کی لہر نے جہاں زور پکڑا تو اسکے برعکس کئی لوگ تن تنہا گھروں میں بند کو جانے پر خوش بھی تھے، کہیں کسی کا گھر اجڑا تو کہیں کسی کا اسی سال گھر آباد بھی ہوا۔ کرونہ نے سادگی بھی سکھائی اور کیفیت شعاری بھی، سب کو کو گھر میں لا کر قید کر دیا، کچھ لوگوں نے اس وقت کا بھی بھرپور فایدہ اٹھایا تو کہیں اس ماحول سے کوئی بے زار معلوم ہوا۔

گھروں میں قید بچوں نے والدین کے صبر و تحمل کی خوب آزمائش لی جس میں مزید اضافہ محکمہ تعلیم نے “آن لائن کلاسز” کی صورت میں کیا۔۔ یہ بے شک پچوں اور بڑوں سب کے لئے سنگین نوعیت کا پہلی مرتبہ امتحان لیا گیا۔ جس کے وجود میں آجانے پر سٹوڈنٹز کیسا برتاؤ کریں، وہ شاید خود بھی اسکا اندازہ کر پانے میں مشکل کا شکار تھے۔۔۔ جہاں وہ یہ سب تعطیلات کو تویل تصور نہیں کر رہے تھے، آن لائن کلاسز نے انہیں شک و شبہہ میں مبتلا کر دیا، جسکا شکار انایہ بھی ہوئی۔۔ اسے اپنے سارے ارادے اور خیالات دور دور تک پورے ہوتے دکھائی نہیں دے رہے تھے۔۔ اور  ان لائن پڑھائی سے متعلق بے حد تحفظات اور شبہات ہونے لگے جس پر زویا بھی متفق تھی مگر دونوں اس نظام کے آگے بے اختیار تھیں۔

خیر آن لائن پڑھائی کا سلسلہ جاری ہوگیا، سب بچوں نے اسے اتنا ہلکا لیا جیسے کرونہ وائرس دو دن کی مار ہو، کل کا آیا چار دن میں اڑن چھو ہو جائے گا اور جلد ہی سب کچھ دوبارہ معمول پر آ جائے گا۔دوسری جانب انایہ کو اپنی زویا اور اسکے ساتھ بتایا وقت یاد آنے لگا۔ اسکے باوجود ملاقات نہ کو پانا دونوں کے لئے تکلیف دہ بات تھی۔ حالات کی سنگینی پر پورے ہی ملک نے توجہ نہیں دی، احتیاطی تدابیر دور کی کہانیاں ہیں، جسکا خمیازہ ملک میں بیماری کی بڑھتی اموات اور بڑھتے مریضوں کی صورت نے مزید پریشانی اور خوف کو ہوا دے ڈالی۔ اور ہوا یوں کہ جہاں سب نے ان لائن پڑھائی کو مزاق سمجھا اب وہ ہی مقرر طور پر تعلیمی نظام بن گئی۔

روز ایک موت کا اعلان سن کر انایہ بے حد بے چین ہونے لگی اور پڑھائی بھی جیسے الگ درد سر بن گیا۔۔۔ اور اس سب حالات میں اطمینان کی واحد راہ سعد کی طرف جانے لگی۔ انایہ اپنی عادت سے مجبور سعد کو تنگ کرنے میں لگ جایا کرتی یوں تمام پریشانیاں اور اندیشوں سے رہا ہو جاتی۔ اُن دنوں ایک ترکی کا سیزن ارطغرل غازی تھا جسکی مقبولیت کے چرچے ہر سو ہو رہے تھے، سعد نے انایہ کو وہ سیزن دیکھنے کا مشورہ دیا اور اس سے سبق اخذ کرنے کی تعقید کی۔ انایہ نے اسکی بات کو تسلیم کرتے ہوئے ارطغرل غازی کو دیکھنا شروع کر دیا۔ ایک کے بعد دوسری قسط اور تیسری کے بعد چوتھی نے اسکے تجسس اور دلچسپی میں مزید اضافہ کیا اور وہ اسکی ایسی دیوانی ہو گئی کہ دن اور رات میں فرق کرنا اسکے لئے محال ہو گیا۔ انایہ نے سعد کے علاؤہ تقریباً ہر ایک شخص سے رابطہ منقطع کر دیا دیوانوں کی طرح پورے سیزن کو ڈیڑھ مہینے میں ختم کر ڈالا۔۔۔۔ یہاں سیزن کا اختتام ہوا اور وہاں امتحانات کے دن قریب آ گئے۔۔۔ اور انایہ کی پریشانی میں یہ سوچ کر اضافہ ہوا کہ اس نے ایک کلاس بھی نہیں لی اور اب امتحانات کی تیاری پندرہ دنوں میں کیسے کرے گی۔۔۔ یہ سوچ کر اسے حول اٹھنے لگا مگر ہوش خطا ہونے سے قبل ہی اس نے حل تلاش کر لیا کہ تین دن  ایک مضمون کو دیا کرے گی، پروجکٹ کو بھی مکمل کرے گی اور موبائل کا بے جا استعمال بند!!

اس روٹین پر پورا اترنے کی خاطر دن رات پڑھتی رہی اور کچھ مضامین اسکے دماغ میں داخل ہوتے گئے۔۔۔ آخری سالا پڑھائی کا بوجھ ایک طرف اور اسکو پندرہ دنوں میں سمجھنا اور یاد کرنا ایک طرف اور تمام سبق کو دس منٹ کی ویڈیو کال پر سنانا مشقل تر۔۔۔۔مگر سعد کی تسلیاں اسے ڈھارس محسوس ہوتی تھیں۔

جیسے ہی امتحان کی گھڑی عین قریب آن پہنچی تو اسکے والد محترم کو کرونہ کی شکایت ہو گئی! یہ بھی ایک غیر متوقع واقع تھا جسے ہذم کرنا نہ صرف انایہ کے لئے بلکہ پوری فیملی کے دشوار تھا۔ انایہ کو ابو کی بہت فکر تھی اور ساتھ ہی اگلے دن ہونے والے پرچے کی! ہڑبڑاہٹ اور کپکپاتے ہوئے پہلا پرچہ دیا اور بد قسمتی سے وہ پرچہ ہی برا ہو گیا۔۔۔جس پر وہ دل برداشتہ سعد کو تنگ کرنے لگی اور رونا دھونا برپا کر دیا۔۔ جواب میں اور کیا سننے کے مل سکتا تھا سوائے خلوص بھری دل جوئی اور تسکین بھرے الفاظ کے؟ سعد نے انایہ کو کئی بار یہ انمول تلقین کر چکا تھا کہ  اللہ کی رضا مندی اپنانا سیکھو۔ کئی بار سمجھا دینے کے باوجود جب اس کا عمل کرنے کی گھڑی آتی تو وہ لڑکھڑا جایا کرتی جسکا اسے وقت گزر جانے کے بعد اندازہ ہوتا اور سوائے خود پر افسوس کرنے کے اسے کچھ اور سمجھ نہیں آتا ۔

مگر شاید یہ سال اسی سبق آموزی پر منحصر تھا کہ وہ زندگی میں نظم و ضبط سیکھے اور اپنی عادات میں شامل کرے، مگر یہ ایک دن کی مار کہاں!۔۔ اور  ان اسباق کو اپنانے میں وقت درکار تھا جسکا سعد کو بخوبی اندازہ تھا، یہی وجہ تھی کہ وہ انایہ کی اکثر پچکنانہ ہرکات پر سختی سے پیش نہ آتا۔وہ عمر میں بےشک انایہ سے تین سال بڑا تھا مگر اسکی سوچ کے دھارے بے حد کشادہ اور وسیع تھے۔ پاک دلی اور فرشتہ سیرت اسکی میراث ہو جیسے۔۔۔ اللہ کا عنایت کردہ قیمتی خزانہ۔ جسکا انایہ کو بخوبی احساس تھا اور وہ اس نعمت کی ہر لمحہ شکر گزار رہا کرتی کہ اسکو ایسا نگینہ عنایت ہوا  جو اسکے دل کا حال سمجھتا ہے اور اسے راہ راست پر چلنے کی نصیحت کرتا ہے! سعد بھی انایہ کے دکھوں سے فرار دلوانے کا خواہاں اور اسکے بہترین مستقل کے حصول میں کوشاں رہتا تا کہ اسکی پیاری سہیلی وہ سکوں پا لے جو ہر انسان کو پانے کی خواہش کرنی چاہیے۔ دل کا سکون!! اور بلکل ایسی تبدیلی اسکی تقدیر میں اسی سال لکھ دی گئی تھی۔ بس انایہ کو اس راہ پر چلانے والا کوئی شخص درکار تھا جو اللہ نے سعد کی صورت میں اسے عطا کیا۔

   اور پھر ایک دن اسکے پرچے اختتام پزیر ہوئےاور خیر خیریت سے اسکے والد بھی کرونہ وائرس سے بچنے میں کامیاب ہوگئے۔۔یہ دن انایہ کے لئے خوشی کا باعث تھا کیونکہ وہ اپنی چودہ سالا پڑھائی کا طویل سفر طے کر چکی تھی۔۔ اچھےبرے کی اسے پرواہ نہ تھی مگر یہ اطمینان تھا کہ اب سے کوئی پڑھائی باقی نہ رہی!! بس واحد ایک فکر اسے دل ہی دل میں لاحق تھی ور وہ تھی ریزلٹ! جو خوشنصیبی سے انایہ کی خواہش کے مطابق آگیا! زویا بھی اچھے نمبروں سے کامیاب ہوئی اور اس پر مسرت موقع کو مزید خوشگوار بنانے کی خاطر اسنے انایہ کے گھر جانے کا فیصلہ کیا۔ دونوں سہیلیاں  ملاقات کی اور خوب خوشیاں منائیں اور مبارکباد سمیٹیں۔ دو ہزار بیس میں کافی عرصے بعد سب نے مل بیٹھ کر وقت کو بھرپور سہانا بنایا۔

مگر سال ابھی باقی تھا، اور بھی بہت سے واقعات نے انایہ کی تربیت کرنی تھی۔جن میں سے ایک واقع اسکی بائیس سالا زندگی میں ایسا سبق دے گیا جو اسکے دل میں اپنی مستقل چھاپ چھوڑ گیا۔ معمول کے مطابق دن چڑھا، اور انایہ روز مرہ کے معمولات میں مصروف ہو گئی، کام مکمل کرنے کے بعد موبائل دیکھا تو سعد کا میسیج آیا ہوا تھا کہ اسکا لندن کا ویزا لگ کیا اور ہفتے بعد ہی روانگی ہے، اداس لہجے میں جس کے ردعمل میں انایہ بے ساختگی سے لہجے میں یہ بول پڑی کہ

“ارے میرے پیارے۔۔۔تم تو بہت مجھ سے دور ساتھ سمندر پار کو چل نکلے ہو۔۔۔ تمہاری بے حد یاد آئے گی مجھے۔۔۔”

یہ سب کہتے ہوئے اسے اندازہ نہیں ہوا کہ اسکی باتیں سعد کو کس قدر تکلیف پہنچا رہیں تھیں،  سعد کی چند خواہشات میں سے ایک خواہش انایہ کو راہِ راست پر لانا تھا، کہ وہ  زندگی کے ہر پہلو میں رضائے الٰہی کو اول ترجیحات میں شامل کرے، اسے سمجھے، جانے، مگر وہ اس سبق کو سیکھنے میں ابھی بھی کئی قدم دور تھی۔ مگر انایہ کی مایوسی بھری گفتگو نے سعد کے مزاج میں تلخی بھر آئی اور وہ کھٹکے ہوئے انداز میں انایہ سے مخاطب ہوتے ہوئے بولا:

“انایہ میری بات دہان سے سنو! تمہیں کتنی مرتبہ بتایا، سمجھایا کہ کچھ بھی بولنے سے پہلے بات کو تول لیا کرو! مجھے کتنا وقت ہو گیا یہی سمجھاتے ہوئے کہ جس ذات کی تم عبادت کرتی ہو اسکے فیصلوں پر اعتماد کرو، ایک یقین ہی تو کرنا ہے اسکے مقرر کردہ حالات و واقعات پر، میں مانتا ہوں آسان نہیں مگر کیا یہ ناممکن ہے کہ تم اسے اپنا نہیں پا رہی؟ ارے میری آنکھوں کی روشنی میں تم سے دور گیا کب جو اب چلا جاؤں گا؟؟ کیا کبھی تمہاری گھسی ہوئی بد مزہ باتیں سنے بغیر میں سکون کی نیند سو سکتا ہوں؟؟ کیا میں مطمئن رہ سکتا ہوں اُس گڑی جب تم کسی الجھن میں ہو؟ نہیں نا!! کبھی اپنے دل میں تو جھانکو۔۔۔

تمہیں وہیں ملوں گا ہر دم۔۔۔پھر تمہیں دنیا تو کیا کسی اور انسان کے پیچھے اسکی توجہ کی خاطر خود کو خوار کرنے کی نوبت نہیں آئے گی! جب تمہیں اس زات پر یقین ہے ایمان ہے تو کیا یہ ایمان کا تقاضا نہیں کہ اسکے فیصلوں پر بھی لبیک کہا جائے؟؟؟ کیوں ہے یہ بے اعتباری آخر؟ شاید نہ صرف تمہیں بلکہ پوری کائنات کی یہی خواہش ہے کہ اسی کے مطابق چلے یہ دنیا؟؟؟ کیوں تم سب بس دکھ میں ڈوبا ہوا حال لئے رب کے پاس روٹھا دل لے کر جاتے ہو؟ کیوں خوشی میں شکر اور غمی میں گلے کیا کرتے ہو؟؟ ایمان تو لائے مگر وہ بھی نامکمل۔۔۔اور پھر کس ٹھاٹھ سے اُسی کی بنائی جنت پر پورا حق جتاتے ہو؟؟ کیسے مسلمانیت کیسی انسانیت ہے یہ؟؟ سن لو آج میری بات بے حد غور سے کہ دوبارہ یہ دہرانے کی ضرورت پیش نہ آئے انایہ!!! خدا کی ذات پر بھروسہ کرو!!! مکمل ایمان لاؤ۔۔۔ اور جہاں بات رہی میری تو میری جان میں کب بھاگا تیری بکواس سننے سے ہاں؟؟ دنیا کے ہر کونے میں چلا جاؤں تم مجھ تک رسائی رکھ سکتی ہو!!! سمجھی کہ جوتا اتاروں اپنا؟؟؟”

اسکی سنجیدہ مگر  پر خلوص گفتگو نے انایہ کو چند لمحے کے لیے بلکل ساکت کر دیا، وہ جواب میں سعد کو کیا کہے وہ نہیں جانتی تھی، جیسے الفاظ کی تلاش میں گم ہو مگر الفاظ مل نہ ریے ہوں، وہ اپنی پرانی بچکانہ اور غیر سنجیدہ باتوں سے شرمسار بھی ہوئی مگر اسکو یہ خیال بھی آیا کہ اگر وہ یہ سب نہ کہتی تو اسے یہ سنہری باتیں سننے کا موقع نہ ملتا، اسے یہ نصیحت سمجھ نہ آتی کہ کیسے ہر لمحہ خدا نے ہماری پرورش اور نشوونما کی خاطر طے کیا ہے، کیسے کوئی لمحہ بھر میں سب کچھ گنوا اور لمحے بھر میں سب پا سکتا ہے، اسے یوں محسوس ہوا جیسے اسکے ہاتھ نہایت قیمتی خزانہ آ گیا ہو جسکی تلاش میں بھی وہ مالک انھیں ارواح کو لگاتا ہے جو اس راستے پر گامزن ہونے کی چاہ رکھتے ہوں، جن سے اللہ کو الفت ہو۔۔۔ وہ پل بھر میں دنیاوی کامیابی کا راز سمجھ گئی، اور اسکے دل میں یہ راز آشکار کروانے والے سے اسکی محبت و عقیدت کا جذبہ مزید گہرا ہونے لگا، وہ سمجھ گئی کہ اللہ در حقیقت انھیں کا ہے جو اسکے طے کردہ واقعات و حالات میں مخفی بہتری کو بھانپنا جانتے ہیں اور اس پر مکمل یقین رکھتے ہیں۔مزید یہ کہ ایمان کا تقاضا اس دنیا میں بس کلمہ اور نماز کی ادائیگی سے نہیں بلکہ نہایت ادھورا عمل ہے کہ اسکے آگے جھکتے جائو اور اللہ کے متعین کردہ نصیب سے ناخوش رہو، یہ تو سراسر منافقت ہوئی۔۔۔ وہ بھی اسکے ساتھ جس نے ہمیں اس دنیا میں بھیجا اور وہی جو ہمیں پل بھر میں بھسم کر دینے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ مگر اسکے آگے سر ٹکرانے سے بہتر اگر اسکے پیدا کردہ غم و خوشی پر راضی رہا جائے تو شاید یہ ایمان لانے کا بہترین عمل ہے، انایہ یہ بات خوب سمجھ بھی گئی اور آئندہ اس ناسور نما عادت سے مکمل طور پر اجتناب کرنے کا عظم کیا اور اس بات کی ہدایت دینے والے کا عمر بھر کا ساتھ بھی مانگا۔۔۔

You may also like...