Ijlaasi Roohain: Urdu Satire by Ali Hassan Owais
Ijlaasi Roohain: Urdu Satire by Ali Hassan Owais [BA Hons Urdu]
اجلاسی روحیں
(علی حسن اویس)
ماؤں کے شہزادوں کو بے حال کرنے کے قانونی ہنر سے مالامال جگہ ہاسٹل کہلاتی ہے۔ ہاسٹل ہر اس جگہ پائے جاتے ہیں، جہاں گھر نہ ہوں۔ سول انجینئرز کی نئی تحقیق کے مطابق ہر وہ جگہ ہاسٹل کہلاتی ہے، جہاں چار پانچ لونڈے ہر وقت موجود ہوں۔ لاہور میں وہ طلبہ کثرت سے پائے جاتے ہیں، جو آوارہ منش ہوتے ہیں۔ ان کی طبیعت پر فاصلے گراں گزرتے ہیں، اس وجہ سے ان کی آوارگی ہوٹل، سینما اور دوستوں کے ہاسٹل تک محدود ہوتی ہے۔ ان کے اسی طبیعتی وصف کو مدنظر رکھتے ہوئے، لاہور انتظامیہ نے ہر گلی محلے میں ہاسٹل کی ایک ایک برانچ کھول دی ہے۔ مزید سہولت کے پیش نظر ہاسٹل کو ہاسٹل سے راہ دی گئی ہے۔ انہی راہوں میں پائے جانے والی مخلوق عام معنوں میں لونڈے لپاڑی کہلاتی ہے۔ اور خاص معنوں میں اسے کچھ کہنے کی ہماری ہمت نہیں ہوتی۔ انہی راہداریوں پر کسی کا فون بجتا ہے، کوئی کال اٹھائی جاتی ہے، گالی گونجتی ہے اور جگت لگائی جاتی ہے۔ مخلوقِ مذکور کا اصل مشغلہ تو سیر سپاٹے ہوتا ہے، کبھی کبھار منہ کا سواد تبدیل کرنے کو کتاب سے ہوتی ہوئی یونیورسٹی تک کا چکر کاٹ لیتی ہے۔ سیر سپاٹوں کی کئی اقسام ہیں جن کو فرداً فرداً بیان کرنا ضروری ہے، مگر دوستانہ تشدد کے پیش نظر موقوف کرتے ہیں۔
انہیں اقسام میں سے ایک قسم ”ادبی اجلاس“ کے نام سے اپنی مقبولیت رکھتی ہے۔ اس قسم کا سفر اشتہار کی تشہیر سے شروع ہوتا ہے اور لونڈوں کی چی مگوئیوں میں سر پٹختا، تنقید برائے قتل تک پہنچ کر، چائے پر اختتام پذیر ہوتا ہے۔ اس وجہ سے یہ چائے ”چائے برائے اصلاح“ کہلاتی ہے۔
جب سے ہم لاہور آئے ہیں تب سے ہمارا تعلق اسی مخلوق کے کنبہ سے جڑا ہے۔ میری لغت میں لفظ ”کنبہ“ ہاسٹل کا تہذیبی نام ہے۔
جنوری کی پہلی ٹھنڈی سہ پہر، عبدل کا برقی پیغام آیا کہ ادبی اجلاس کے سلسلے میں ادبی چائے خانہ جانے کا مغلظ ارادہ رکھتے ہیں۔ سفر شام میں شروع ہوگا، ہمارے ہاسٹل پہنچ جائیے گا۔ آپ حیران ہوں گے کہ مغلظ ارادہ سے کیا مراد ہے۔ خدا معاف کرے اس سے کوئی خراب معنی نہ نکالیے گا۔ البتہ اگر آپ نکلنا بھی چاہتے ہیں تو ایسی کوئی قباحت بھی نہیں۔
اصل میں معاملہ کچھ یوں ہے کہ ہمارے ایک دوست ہیں انعام صاحب۔ دیکھنے میں چنگے بھلے اور رفتار میں رکشہ کے ہم پلہ۔ بقول عبدل، انعام کے کمرہ میں داخل ہونے سے قبل، درودیوار مغلظ نجس فضا بناتے ہیں۔ اور ان کے داخل ہوتے ہی گالیاں گونجتی ہیں۔ یہاں پر گالیاں سے مراد غلیظ گالیاں نہیں بلکہ انتہائی مہذب غلیظ گالیاں ہیں۔ مغلظ ارادہ سے عبدل کی مراد یہی تھی کہ انعام بھی ساتھ ہوگا۔
شام کے وقت جب میں ان کے ہاسٹل کے دروازے پر پہنچا، تو کیا دیکھتا ہوں چار لونڈے چلے آتے ہیں۔ دو کا ذکر کر چکا اور باقی دو میں ایک شہروز تھا اور دوسرا راحت۔
شہروز اکثر ایک ہی کوٹ میں پایا جاتا ہے۔ اس کی گفتگو سے شعراء ٹپکتے ہیں اور آنکھوں سے شعر۔ رفتار میں یہ انعام سے بھی دو لات آگے ہے، یعنی موٹر سائیکل کے ہم پایہ۔ آواز اچھی ہے اس وجہ سے اکثر گنگناتا رہتا ہے، مگر تان دوسرے ہی مصرع پر ٹوٹ جاتی ہے۔ تان ٹوٹنے کی وجہ آج تک سمجھ نہیں آ سکی۔
راحت اچھا خاصا پٹھان ہے اور پٹھان کی تعریف ادب میں بہت ملتی ہے، پڑھ لیجئے گا۔ ایک خصوصیت یہ ہے کہ تصویر کشی کرتا ہے۔ بس کرتا ہی ہے، تصویریں اصلی حق دار کو بھیجنا، ان کی طبیعت کے منافی ہے۔
ہاسٹل سے نکلے اور مال روڈ پر چمکتی پیلی روشنیوں تلے چلتے چلتے ادبی چائے خانہ پہنچے، دروازے پر ایک دوست ہمارا انتظار کر رہی تھی۔ نام بڑا پاکیزہ، گفتگو سے علمیت ٹپکتی ہے اور مجازاً مرد ہے۔ مضمون کی ابتداء میں استعمال ہونے والی اصطلاح لونڈے لپاڑی کو موجودہ بحث کے تناظر میں رکھ کر دیکھیں مفہوم واضح ہو جائے گا۔
خیالات اور نظریات میں بلندی پیدا کرنے کے لیے اجلاس ہمیشہ ادبی چائے خانہ کی دوسری منزل پر منعقد ہوتا ہے۔ وہ الگ بات ہے کہ نظریات بلند ہونے کی بجائے جذبات اور آوازیں بلند ہوتی ہیں۔ ہم بھی وہاں تشریف لے گئے، ماحول خلاف توقع بڑا دستانہ تھا، یعنی سب کچھ دست و دستی ہو رہا تھا۔ ہمارے یونیورسٹی کے استاد کی ترجمہ شدہ کتاب پر ایک مضمون پڑھا جانا تھا اور اسی کی سماعت ہمارا مقصود۔ کچھ اور کتابیں بھی عتابِ مضامین کی زد میں آنا تھیں مگر ان واقعات اور صوتیات کو دیکھنے اور ضبطِ سماعت میں لانے کا ہمارا کوئی ارادہ نہیں تھا۔ ہم کیوں وہ مضامین سننا نہ چاہتے تھے، اس کا ذکر کرنا نہیں چاہتا۔ کیوں کہ بات ذکر سے اوصافِ حمیدہ تک پہنچے گی اور کپڑے اتر جانے کا خدشہ لاحق ہو جائے گا۔ خدشہ مضامین نویسوں کو تو نہیں، بلکہ ہمیں ہے، کہ کپڑے اترنے کے بعد ہم کیسے لگیں گے۔ کچھ دیر میں اجلاس شروع ہوا اور مضمون ختم ہوتے ہی استاد محترم چل دیئے۔ ہم بھی اٹھنے ہی کو تھے کہ سر نے زیرِ لب کہا، کچھ دیر بعد آئیے گا، ادب کا مضمون ہے۔ شاید وہ بھی یہی چاہتے تھے کہ اس سے پہلے کہ ہمارے ادبی خیالات کے ساتھ ہاتھ ہو جائے، اور کپڑے اتارنے کی نوبت آپہنچے، ادب سے باہر آجائیں۔
کبھی کبھار یونیورسٹی جانے اور کلاس میں بیٹھنے سے ادب کی جو سمجھ ہمیں آئی تھی، وہ یہی تھی کہ سرد راتوں میں جب دھند فضا میں معلق ہو چکی ہو، سڑک پر چلتے ہوئے کسی ہوٹل پہنچ کر چائے پینا اور قہقہے لگانا۔ سر کے منہ سے لفظ ’ادب‘ سنتے ہی ہماری روح پھڑک اٹھی اور ہم مال روڈ پر اٹکیلیاں کرتے پرانی انارکلی میں واقع ایک ہوٹل میں جا دھمکے۔ سردی بڑھ گئی تھی اور شہروز کی ٹوپی سر سے ہاتھ تک کا سفر طے کرتی دستانہ بن چکی تھی۔ میز کے گرد کرسیوں پر بیٹھتے ہوئے چائے کا حکم دیا۔ حکم ہم صرف چائے کا ہی دیتے ہیں کوئی اور ہم سے سرزد نہیں ہوتا۔ ہماری مجازاً مرد دوست انعام سے واقف نہ تھی۔ جب ایک چائے میں میٹھا کم رکھنے کو کہا گیا، تو وہ حیرانی سے ہماری طرف دیکھتے ہوئے بولی، پھیکی چائے کون پیتا ہے۔
عبدل نے انعام کا تعارف کرواتے ہوئے کہا، یہ انعام صاحب ہیں۔ انتہائی مہذب گفتگو فرمایا کرتے ہیں۔ باتوں میں اتنی مٹھاس ہے کہ سامع کو شوگر ہونے کا خطرہ لاحق ہو جاتا ہے۔ اس وجہ سے پھیکی چائے نوش کیا کرتے ہیں، تاکہ کچھ کڑواہٹ در آئے۔ ایک دو زیر لب مسکراہٹیں مسکرائیں اور بات دب گئی۔ شہروز گانا گنگنانے لگا۔ پھیکی پھیکی واہ واہ ہونے لگی اور ماحول بے تکلف ہوتا گیا۔ مگر دوسرے ہی مصرع پر شہروز نے تان توڑ کر پوچھا، اس کے معنی کسی کی سمجھ میں آئے۔ ہلکی ہلکی ہنسی کے ساتھ انعام سے لہریں نکلنا شروع ہوئیں۔ ہوائی باتیں ہونے لگیں، قہقہے بلند اور فضا نجس ہوتی گئی۔ کچھ دیر بعد جب ہماری دوست پر ’مہذب‘ کے معنی وا ہوئے، تو ہاسا پڑ گیا۔ راحت کھڑا ہو کر قہقہے لگانے لگا۔ چند لمحے محفل مہکتی رہی۔ چائے پی چکنے کے بعد جب بل دینے کی باری آئی تو سب خواہش کو دباتے ہوئے بل ادا کرنے کا ارادہ ظاہر کرنے لگے۔ چائے برائے چائے کے معاہدہ پر اتفاق کرتے ہوئے شہروز نے بل ادا کیا، اور ہم ہاسٹل کی جانب چل پڑے۔
معزرت، آپ سے عبدل کا اور اپنا تعارف کروانا تو بھول ہی گیا تھا۔ عبدل بندہ پینڈو ہے۔ اور میں اچھا خاصا پینڈو۔ پھیکی واہ سے مزاح پیدا کرنا عبدل کا مشغلہ ہے اور میرا بات بات پر کہنا، ”دیر ہو رہی ہے۔ “ بات کرنے لگتا ہوں تو دوست اکثر بات کاٹ کر کہتے ہیں، ”آپ کو دیر ہو رہی ہو گی۔ “
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مضمون دوستوں کی خدمت میں پیش کیا اور ہر ایک سے الگ الگ پوچھا کہ اگر انہیں کچھ اعتراض ہے تو بتا دیں، تا کہ قابلِ اعتراض مواد حذف کر دیا جائے۔ کسی نے ہنسی کی رم جھم کے ساتھ فوراً شائع کروانے کا مشورہ دیا۔ تو کسی نے جھڑک دیا کہ آئندہ اعتراض کی بات مت کرنا۔ تمہارے لکھے ہوئے الفاظ پر ہمیں کوئی اعتراض کیسے ہو سکتا ہے۔ (وہ الگ بات ہے کہ میرے بولے ہوئے الفاظ پر اکثر نوبت تھپڑ تک پہنچ جاتی ہے) اور کہا، ادبی مزاح اسی کا نام ہے کہ مغلظ چیزوں سے پاکیزہ مسکراہٹ تخلیق کی جائے۔
عبدل اور انعام ایک ہی ہاسٹل، بلکہ ایک ہی کمرے کے باسی ہیں۔ (باسی تو عبدل کے کان ہو چکے ہیں، انعام تو نت نئی مغلظ تخلیقات کرتا رہتا ہے)۔ عبدل کو مضمون بھیجا اور رائے چاہی۔ عبدل حسب معمول مضمون کو بآواز بلند پڑھنے لگا، تاکہ انعام بھی سن سکے۔ مضمون میں بکھری پاکیزگی کو سن کر انعام بھڑک اٹھا، مجھے صلواتیں سناتا، عبدل کی جانب متوجہ ہوا، عبدل مسکرا رہا تھا۔ اچانک گالیوں کی آندھی کا رخ عبدل کی طرف مڑ گیا۔ آخر بات مجھ تک پہنچی اور نام تبدیل کرنے کی تجویز پر غور و خوض ہونے لگا۔ خدا سے دعا ہے، کہ اب انعام تین چار گالیوں کی سلامی کے ساتھ ہمارے دیے گئے تحفظ کو سند قبولیت عطا فرمائے۔ اور آئندہ ہمیں مغلظ آندھی سے محفوظ رکھے۔