Hirs: Afsancha by Nadia Umber Lodhi
حرص – افسانچہ
نادیہ عنبر لودھی
———
اس نے ہاتھ میں پکڑے کاغذ کے ٹکڑے کو مٹھی میں سختی سے دبایا اور اسے چھپانے کے لیے کوئی جگہ تلاش کرنے لگی – برسوں کی دبی ہوئی چنگاری کو ہوا دینے کا اب کیا فائدہ – اس خط کو کہاں چھپاؤں اس نے چاروں طرف نظر دوڑائی – سائیڈ ٹیل کی ڈرا – نہیں یہ تو ہر کسی کی رسائی میں ہے –
کپڑوں کی الماری -نہیں
وہاں سے تو بہو بیگم کے ہتھے چڑھ سکتا ہے – کہاں رکھوں ؟ کیا کروں!
پھر وہ اسٹینڈ کے سہارے چلتی ہوئی واش روم میں گئی -خط اور لفافے کے چھوٹے جھوٹے ٹکڑے کر کے اس نے فلش میں بہادیے – پھر اس نے وضو کیا اور واپس نماز والی کرسی پر آ بیٹھی –
وہ نماز پڑ ھنے لگی – نماز ختم ہوئی تو دعا کے لیے اٹھے ہاتھو ں سے اپنے والد کے لیے مغفرت اور جنت مانگنے لگی –
اس کے آنسو گرنے لگے اور وہ رونے لگی – اتنے میں بہو کی آواز سنائی دی اس نے جلدی سے آنسو صاف کیے – بہو کھانا لائی تھی – بہو نے ٹرے اس کے سامنے رکھی اور وہ خاموشی سے کھانا کھانے لگی –
بہو نے بغور ساس کے چہرے کی طرف دیکھا ساس اسے بہت نڈھال نظر آئی – ممی جی آپ ٹھیک تو ہیں – بہو بولی
جی بیٹا “ میں ٹھیک ہوں “-اس نے جواب دیا –
بہو خاموشی سے ٹرے اٹھا کر چل دی – وہ بستر پر آکر لیٹ گئی –
اسے اپنا پچپن یاد آنے لگا – اپنا لڑکپن اور پھر شادی پھر بڑ ھاپا-
جوانی – مری جوانی – کہاں گئی – اس نے خود سے سوال کیا –
کیا میں کبھی جوان نہیں تھی –
وہ شادمانی کے دن مری زندگی کا حصہ نہیں تھے – اس نے دماغ پر زور دیا لیکن اسے کچھ یاد نہ آسکا کوئی مدھر بھری یاد ذہن کے دروازے پر دستک نہ دے سکی – شاید بڑھاپے سے مری یادداشت چلی گئی ہے –
سوچتے سوچتے اس کی آنکھ لگ گئی – معدوم چہرے خواب میں واضح ہونے لگے –
ڈیڈ ۔ڈیڈ ۔ڈیڈ ۔ڈیڈ وہ دیوانہ وار باپ کو پکار رہی تھی لیکن باپ اس کی آواز سن نہیں رہا تھا پھر اسے اپنی ماں دکھائی دی
مما ۔مما۔ مما ۔مما اس نے ماں کو پکارا ماں نے بھی سنی ان سنی کردی –
اسے اپنی بڑی بہن دکھائی دی
آپی ۔ آپی ۔ آپی ۔ آپی
وہ پکارنے لگی -بہن کے کان پر بھی جوں تک نہ رینگی-
پھر اسے چھوٹے دونوں بھائی نظر آئے – اس نے بھائیوں کے نام لے کر بہت آوازیں دیں -وہ سب تیز تیز چلتے گئے وہ ان کے پیچھے دوڑتی پکارتی چلی گی بھاگتے بھاگتے وہ گر گئی اور اس کے گھٹنے چھل گئے – ہائے کے آواز اس کے منہ سے نکلی دونوں ہاتھوں سے گھٹنے پکڑے وہ زمین پر گری ہوئی تھی کہ اس کی آنکھ کھل گئی –
اسے اپنے ہاتھوں تلے گھٹنوں کی ہڈیاں محسوس ہوئی تو اسے یاد آیا میں تو بوڑھی ہوں
وہ توخواب تھا
بند دروازوں کی اذیت پھر تازہ ہوگئی -پہلے فون پر رابطے بند ہوئے پھر دروازے بند ہوتے چلے گئے پھر راستے نظروں سے اوجھل ہوگئے –
ایک ایک کرکے سب بند ہوتے چلے گئے وہ دستک دیتی رہی لیکن سارے در دیواریں بن گئے اور اب تو اُس کے قدموں میں ہمت ہی نہیں رہی تھی بمشکل اپنا بوجھ اٹھا کر اسٹینڈ کے سہارے سے چلتی تھی –
ایک خط سے سارے زخم کھل گئے – کیا کروں گی میں ان کڑوڑوں روپے کا – اس نے سوچا
لباس خریدلوں -مگر بوڑھے وجود پر ہر لباس بدنما ہی لگے گا
مہنگی گاڑی خرید لوں -اب چلانے کی ہمت کہاں –
اسے بچپن یاد آنے لگا جب وہ اپنے پاکٹ منی سے اپنے چھوٹے بھائیوں کے لیے کھلونے خرید ا کرتی تھی –
کب وہ بڑے ہوئے اور اس کے حصے کی ماں باپ کی شفقت کھا گئے
اسے پتا ہی نہ چلا – پھر وہ اس کے باپ کا کاروبار کھا گئے – والدین کے گھر کے دروازے اس پر بند ہوگئے وہ تو اس کے حصے کا سورج بھی کھا گئے – بھائی جن سے اسے بہت پیار تھا – “دعا کرو اللہ میاں بھائی دے اللہ بچوں کی دعائیں سنتا ہے “
اس کی نانی کی آواز اس کے کانوں میں گونجی –
جن کے لیے دعائیں کیں انہوں نے اسے والدین کی دعاوں سے ہی نکال دیا –
“باری باری ساری جائیدادیں تمہارے بہن بھائیوں کے نام لکھی جارہی ہیں- جاؤ جاکر اپنا حصہ مانگ کر لاؤ”۔اس کے شوہر کی آواز گونجی – تمہارے بہن بھائی ساری جائیداد لے جائیں گے –
حصہ لینے کا شوق لیے اس کا شوہر قبر میں چلا گیا – ارب پتی باپ کی بیٹی تھی اور ساری زندگی عسرت میں گزر گئی – چھوٹی چھوٹی ضروریات ، معمولی خواہشات سب غربت کی بھینٹ چڑھ گئے – اس کے بہن بھائی والد کی جائیداد کی بدولت عیش و عشرت کی زندگی بسر کرتے رہے –
اس نے حصہ مانگنے سے انکار کردیا تو اس کے شوہر نے خود حصہ مانگ لیا – اوراس طرح حصہ دینے والوں نے اُس پر سب دروازے بند کردیے –
اسے خط کا متن یاد آنے لگا – “ڈیڈ ہم میں نہیں رہے انہوں نے اپنی زیادہ تر جائیداد اپنی زندگی میں ہی بانٹ دی تھی بقیہ کے لیے عدالت میں کیس دائر کیا ہے آپا تم اپنے شناختی کارڈ کی کاپی اور پاور آف اٹارنی سائن کر کے بھیج دو
——
تمام شد
نادیہ عنبر لودھی
اسلام آباد