Hakoomat Aur PTI ka Khel: Urdu Political Analysis by Sobia Ayaz
حکومت اور پی ڈی ایم کا کھیل – صوبیہ ایاز
صاف چھپتے بھی نہیں اور سامنے آتے بھی نہیں
بہت شدّت سے انتظار رہتا ہے پی ڈی ایم کے جلسے کا کیونکہ جب ان کا جلسہ ہونے والا ہوتا ہے تو تقریر سن کر ایسا لگتا ہے کہ جیسے آج یہ حکومت گرا کر ہی رہیں گے ملتان جلسے کے بعد استعفے استعفے کی رٹ حکمرانوں نے لگا رکھی ہے جس کی وجہ سے ان کی اپنی پی ڈی ایم میں ہی اختلافات شروع ہوگئے ہیں ۔ لیکن جب استعفی دینا ہی ہے تو 31جنوری ہی کیوں؟ جب فیصلہ کر ہی لیا ہے کہ حکومت کے ساتھ مذاکرات نہیں کرنا ہے تو 31جنوری ہی کیوں؟
بہرحال پی ڈی ایم کا معمہ سمجھ سے باہر ہے ان کو خود بھی نہیں پتا کہ انھیں کرنا کیا ہے؟ سارے کرپٹ عناصر ایک ساتھ مل کر حکومت گرانے کی بات کرتے ہیں مطلب ان کو این آر او دے دو تو حکومت بہت اچھی ہے پھر حکومت کی ساری خامیاں خوبیوں میں بدل جائیں گی لاہور پی ڈی ایم کے جلسے میں محمود اچکزئی نے حد ہی کر دی اور زندہ دلان لاہور کو انگریزوں کا ساتھی قرار دے دیا- جن کی اپنی کوئی تاریخ نہیں وہ عوام کوتاریخ پڑھا رہے ہیں۔
جو خود کبھی پاکستان کا جھنڈا ہاتھ میں لینا پسند نہیں کرتے وہ اب ہمیں سبق پڑھا رہے ہیں کہ کون غدار ہے اور کون حقدار مطلب جس تھالی میں کھا رہے ہیں اس میں سوراخ بھی کر رہے ہیں اور مزے کی بات یہ ہے کہ ان کو اپنے بیان پر کوئی شرمندگی بھی نہیں ہے ان سے ہی ان کی جماعت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ مولانا فضل الرحمن جو پی ڈی ایم جماعت کی رہنمائی کر رہے ہیں خود تو وہ حکومت سے باہر ہیں اور دوسری جماعتوں کو بھی حکومت سے باہر کروانے کی سرتوڑ کوششوں میں لگے ہیں مولانا فضل الرحمان نےاتنے سال اقتدار میں رہ کر کیا ہی کیا ہے سوائے اپنے اور اپنی فیملی کے بینک بیلنس بھرنے کے علاوہ۔ دس سال 2008 سے 2018 تک کشمیر کمیٹی کے ممبر رہے لیکن آج تک کشمیریوں کے حق میں آواز نہیں اٹھائی ایک رپورٹ کے مطابق مولانا فضل الرحمان 2013 سے2016 تک میں کشمیر کمیٹی کے صرف تین اجلاس بلائے جس پر خرچہ18کروڑ روپے کا آیا اس وقت مولانا فضل الرحمن کی حیثیت وفاقی وزیر کے برابرر تھی ۔کڑوڑوں روپے کی اخراجات اور مراعات کے باوجود مولانا کی کشمیر کمیٹی کی صدارت اور اہمیت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے 2016میں جب برہان وانی شہید کیا گیا تو ملک بھر میں احتجاج ہوا لیکن مولانا کی طرف سے برہان وانی کی شہادت کے ایک ہفتے بعد کشمیر کمیٹی کا اجلاس بلایا گیا ۔
اور جب ان سے پوچھا جائے کہ آپ نے کشمیر کے لیے کیا کیا یہ جناب ناراض ہو جاتے ہیں ۔ کشمیر کمیٹی کے نام پر مولانا فضل الرحمان کے غیر ملکی دوروں پر کروڑوں روپے خرچ ہوئے جبکہ مولانا دوروں پر اپنے ساتھ کوئی ترجمان بھی نہیں لے جاتے اور مولانا کو انگلش بھی نہیں آتی۔اب پی ٹی آئی کی حکومت کے قیام اورمولانا فضل الرحمن کے انتخاب میں شکست کے بعد جو چیئرمین کے عہدے پر دس سال سے تھے ان سے عہدہ برآ کر دیا گیا۔ جس پر وہ بہت پریشان ہیں اور یہاں تک کہ وہ رات کو خوابوں میں بھی حکومت کے خلاف مہم چلا رہے ہوتے ہیں ۔ مولانا کی سرپرستی میں بیچارے پی پی پی اور پی ایم ایل این کرپشن بچاؤ مہم چلا رہے ہیں کرپشن بچاؤ مہم کے لئے جلسے پہ جلسے کر رہے ہیں وہ بھی ایسی صورتحال میں جب پوری دنیا کورونا جیسی وباء کی لپیٹ میں ہے دنیا بھر میں کورونا نے تباہی مچائی ہوئی ہےملک میں لاک ڈاؤن نافذ ہے اور یہ لاک ڈاؤن کی خلاف ورذی کر کے عوام کو جمع کر کے جلسے کر رہے ہیں اورجب انکے جلسے ناکام ہوجاۂیں تو کہتے ہیں کہ جلسے کو ناکام کرنے کی کوشش کی گئی۔
ان کی فرسٹریشن ان کے جلسوں پر نظر آتی ہے ان کا جلسہ عوام کے مفاد کے لئے کم ذاتی مفادات کے لئے ذیادہ ہوتا ہے۔انکی بات کرپشن بچانے سے شروع ہوتی ہے اور پھر کرپشن بچانے پر ختم ہوجاتی ہے کبھی یہ کہتے ہیں کہ لاہور جلسہ ہمارا بہت کامیاب رہا کبھی کہتے ہیں جلسے کو ناکام کرنے کی سازشیں کی گئیں۔ ابھی تک کوئی فیصلہ نہ ہو سکا کہ جلسہ کامیاب تھا کہ ناکام۔
اور دوسری طرف وزیراعظم ان جلسوں کی پرواہ کئے بغیر اپنا کام اطمینان و سکون سے کرتے نظر آتے ہیں وعدے کے مطابق پاکستان سے سعودی عرب کا ایک ملین ڈالر کا مزید قرضہ چین کے تعاون سے سعودی عرب کو ادا کر دیا گیا سعودی عرب نے 2018 کے آخر میں پاکستان کو تین بلین ڈالر کا قرضہ دیا تھا لیکن متنازعہ علاقہ کشمیر میں بھارت کی جانب سے انسانی حکومت کے خلاف ورزیوں پر اسلام آباد کی طرف سے ریاست کی حمایت حاصل کرنے کے بعد سعودی عرب نے پاکستان کو قرض واپس کرنے کے لیے دباؤ ڈالا تھا جس کی بنا پر پاکستان نے سعودی حکومت کو اب تک رواں مالی سال کی پہلی سہ ماہی جولائی میں ایک بلین ڈالر کا قرضہ دے دیا تھا اور ایک بلین ڈالر کا مزید ادا کر چکا ہے اور توّقع ہے کہ باقی ایک بلین ڈالر اگلے ماہ تک سعودی عرب کوادا کر ديۓ جائنگے۔
اس کے علاوہ زرمبادلہ کے میدان میں بھی کافی ترقی نظر آئی کورو نا جیسی صورتحال میں بھی پاکستان کی معیشت میں بہتری کے واضح آثار نظر آئے صنعتی پیداوار، غیر ملکی سرمایہ کاری، ترسیلات ذر، میں اضافہ دیکھنے کو آیا ہے پہلی مرتبہ ملکی تاریخ میں گذشتہ پانچ ماہ میں پاکستان کو 12 ارب ڈالر سے زائد موصول ہو چکے ہیں جب کہ ماہ نومبر 2020 میں ایکسپورٹ میں اضافہ کا گزشتہ 10سالہ ریکارڈ ٹوٹ چکا ہے نومبر 2020میں 12 ارب 15 کروڑ ڈالر کی ایکسپورٹ کی گئی۔
فیصل آباد میں ٹیکسٹائل مل کے کھل جانے کی صورت میں عوام کو روزگار ملا اور پاکستان کے کپڑے دنیا بھر میں ایکسپورٹ ہونے لگے ممکن ہے کہ پاکستان ٹیکسٹائل کے میدان میں انڈیا کو بھی پیچھے چھوڑ دے اس کے علاوہ پنک سالٹ جو انڈیا پاکستان سے کوڑیوں کے داموں خرید رہا تھا اور میڈ ان انڈیا کے ٹیگ لگا کر دنیا بھر سے اربوں کما کر فا ۂدہ اٹھا رہا تھا۔ اب پاکستان اسے میڈ ان پاکستان کے نام سے خود ایکسپورٹ کر رہا ہے۔