Ghosts: Urdu Research Article by Nadiah Zehri
میں نے اپنی چوبیس سالہ زندگی میں آج تک کسی مغربی بندے سے کسی بھوت پریت، یا کسی اِیسی ہوائی مخلوق کا نہیں سنا جو سیاہ راتوں میں وارد ہوتی ہے،میں یہ نہیں کہتی کہ پورا مغربی معاشرہ بھوتوں کے ایگزسٹ (وجود ہونے)سے انکاری ہے، ہاں مگر وہ بھوتوں کے ایگزسٹینشل سے اتنے ہی متفق ہیں جتنا کہ ہماری عوام سیاسی فیصلوں سے، یا پھر شاید میری کم علمی جو میں نے آج تک کسی مغربی بندے سے متعلق کسی پری ہمزاد کا رونما ہوتا واقعہ نہیں پڑھ سکی –
ہاں کچھ ایسے واقعات اور جگاہیں ہیں جنہیں مفربی معاشرے میں بھوتوں کے حوالے سے پذیرائی ملتی ہے، جیسے کہ ٹاور آف لندن دریائے ٹیمز کے کنارے واقع شاہی محل جسکو حرفِ عام میں ٹاور آف لندن کہا جاتا ہے اپنی سیاحتی مقام ہونے کے ساتھ ساتھ مافوق الفطرت چیزوں کا وجود رکھنے سے بھی کافی مشہور ہے 1078 میں ولیم فاتح کے زیر نگرانی تعمیر ہوئے اِس قلعہ میں کافی پیچیدہ عمارات بھی بنائی گئیں تھیں جو بعد ازاں برطانیہ اور دیگر مغربی ممالک میں آسیبی مقامات ہونے کی وجہ سے کافی مشہور ہوئیں نو سو سال پرانے اِس شاہی قلعے میں نا صرف کئی معصوم لوگوں کی جانیں لی گئیں تھیں، بلکہ ظلم و بربریت کی نئی داستانیں بھی قائم ہوئیں تھیں جن کی وجہ سے یہ شاہی مقامات آسیب زدہ مقامات میں بدل گئیں، کہا جاتا ہے کہ یہاں کا پہلا بھوت جو لوگوں میں بظاہر ہوا وہ گھوسٹ تھامسن اے بیکٹ تھا، اِسکے علاوہ قلعے میں موجود خونی ٹاور میں دو شہزادے بھائیوں کے روحوں نے ڈھیرا ڈال رکھا ہے جن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ دونوں کو اُنکے چچا ڈیوک نے قتل کرادیا تھا،کافی سے زیادہ لوگوں نے دونوں بھائیوں کو اُنکے شاہی کمرے (جہاں وہ کبھی رہا کرتے تھے )میں دیکھا ہے، جبکہ وائٹ ٹاور میں وائٹ لیڈی کی بھوت بڑی شان سے لوگوں کو ٹہلتی ہوئی دکھائی دیتیں ہیں، قلعے کی سب سے خطرناک بدروح کوئین این ہے
جن کو محبت کرنے کی جرم میں گرین ٹاور میں سر قلم کرکے ہمیشہ کے لیے اَبدی نیند سلا دی گئی تھی،لیکن جب بعد ازاں سر کٹی لاش کی صورت قلعے میں کیٹ واک کرنے آئیں تو کچھ بہادر لوگوں میں سرکٹی بھوت کے نام سے مشہور ہوئیں،کہتے ہیں لندن پوری دنیا میں آسیب زدہ دارلحکومت کے نام سے جانا جاتا ہے، مگر اِس بات سے بھی انکار نہیں کہ لندن میں موجود تمام سیاحتی مقامات ہی آسیب زدہ قرارا دیئے گئے ہیں،جن میں لندن برج ،نیشنل میری ٹائم میوزیم، بکنگھم پیلس، سینٹ جیمس پارک،برٹش میوزیم، بارکلے اسکوائر،اور کوئین الزبتھ ہسپتال فار چلڈرن، یہ وہ مقامات ہیں جن کو برطانیہ میں خاص سیاحتی مقامات کے طور پہ جانا جاتا ہے، باوجود اِس کے یہاں ماورائی مخلوق کا بسیرا ہے مگر ان سرکٹی بدروحوں، جن بھوتوں نے آج تک ان سیاحتی مقامات کے سیاحت پر کوئی روکاوٹ نہیں ڈالی اور نہ ہی کسی سیاح کو اپنا جلاوا دکھا کے کسی اور جہاں پہنچایا بلکہ اِسکے برعکس صرف لندن باسیوں کو نظر آنے اور اُن سے مہذب طریقے سے ملاقاتیں کرکے اِن بدروحوں نے اپنے سیولائیزڈ ہونے کا بھی ثبوت پیش کیا ہے –
اور ان بھوتوں کے اِس دوستانہ رویے سے متاثر ہوکر لندن باسیوں نے سیاحوں کے لیے ایک خصوصی واک کا بھی انتضام کر رکھا ہے جہاں ماضی کے سفاک قاتل جیک دا ریپر جس کے ہاتھوں کئی خواتین نے اپنی جان کھوئی کے بارے میں اس خصوصی واک میں بتایا جاتا ہے، اور سیاحوں کو اُن تمام جگہوں کا بھی دیدار کروایا جاتا ہے جہاں کسی زمانے میں جیک دا ریپر نے معصوم لوگوں کی جانیں لیں تھی،باوجود اِس کے 1888 کا یہ سیریل کلر آج تک پکڑا نہیں گیا مگر پھر بھی لندن باسی بہت ذوق شوق سے جیک دا ریپر کے نام سے خوب پاٶنڈ کما رہے ہیں –
جبکہ مشرقی معاشرے میں اگر کوئی غلطی سے بھی یہ افواہ اڑائے کہ فلاں انسان پر جن آیا ہے تو سننے والے نہ صرف اُس بندے سے بلکہ اُسکے عزیز و اقارب کا بھی بائیکاٹ کرتے ہیں کہ بھئی اگر جن صاحب کا موڈ بگڑا تو وہ مطلوبہ شخص کو چھوڑ کر ہم سے ہی نہ چمٹ جائے، برطانیہ کی سیاحت شاید ان گھوسٹ قلعوں کی وجہ سے ہی چمکی ہوئی ہے جبکہ ہمارے گھوسٹ ٹاؤن فقط جنوں کے لیے ہی مختص کیے گئے ہیں، مجھے یاد ہے بچپن میں جب ہم سب سہلیاں گاٶں میں کچی مٹی کے کھلونے بنانے کے لیے نہر سے مٹی اُٹھانے جاتے تھے تو پچھم کی اور بنے بھوت گھر سے نظر بچا کے مٹی اٹھاتے تھے، حالانکہ گاٶں کے دیگر گھروں سے کافی فاصلے پر اور گھنے سایہ دار درختوں کے سائے تلے ہونے سے بھوت گھر کافی چھپ سا جاتا تھا مگر نظر جب جب بھی اُس طرف پڑتی تو جسم پر لرزہ سا طاری ہوتا، میں آج تک نہیں جان سکی کہ اُس گھر میں کس انسان نے بظاہر بھوت دیکھ لیا تھا اور بھوت گھر میں بھوتوں سے متعلق کیا کیا واقعات رونما ہوئے تھے ہاں مگر اُس گھر کی جنات کے حوالے سے مشہوری گاٶں بھر میں تھی، بچپن سے نوعمری کی دہلیز تک جب جب بھی گاٶں جانا ہوا بھوت گھر کے حوالے سے میرے اندر چھپا خوف نئے سرے سے جنم لیتا تھا، پھر ایک وقت آیا کہ کہیں سے کچھ لوگ ہمارے گاٶں آئے غریب تھے حالات کے مارے گاٶں میں کہیں اور اچھی جگہ نہ ملی تو اُسی بھوت گھر میں رہنے کو ترجیح دی، سب کے ساتھ میرے رونگھٹے بھی کھڑے ہوئے، مطلوبہ خاندان کا برباد ہونا گویا تہہ تھا، ہر چند سب ہی انتضار کر رہے تھے کہ کب یہ خاندان حواس باختہ ہوکر کوچ کر جائے، مگر انتضار انتضار ہی ہوا مطلوبہ خاندان کی طرف سے نہ کوئی شکایت موصول ہوئی نہ کوئی واویلا ہوا، اِسکے برعکس دیکھتے ہی دیکھتے حالات کے مارے لوگ میں بہتری نظر آنے لگی، گویا بھوت گھر نے ٹھنڈی قسمتیں جگا دیں تھی،اور غریب لوگوں پہ گویا ہن برس رہا تھا، گاٶں والے حیران و پریشان تھے جبکہ میرے اندر ایک سوچ نے بہت چپکے سے سرایت کی تھی کہ شاید بھوتوں سے متعلق ہم کچھ زیادہ ہی وہمی ہیں، جہاں کہیں کوئی گھنا درخت، اکیلی دیوار اور کھنڈر جگاہیں دیکھی اُن کو بھوت پریتوں سے جوڑ کے خود ہی ایک طرف ہوجاتے ہیں اور پھر ساری زندگی اُن جگہوں سے ڈرتے رہتے ہیں، جبکہ اگر دیکھا جائے تو ہم انسانوں سے زیادہ کوئی شر پسند قوم کوئی نہیں، اگر ہمیں کبھی اِن جن بھوتوں کی طرح غیر مرئی ہونے کا موقع ملے تو شاید ہمیں اشرف المخلوقات سے اشرف البداخلاق ہونے میں لمحہ بھی نہ لگے، تو پھر اِس صورت میں یہ جن بھوت ہم سے زیادہ شریف ہوئے جبکہ ہم خوامخواں اُن سے بیر باندھ کر اُن کے متعلق ہوائی کہانیاں بنا لیتے ہیں، مجھے کچھ عرصہ پہلے مستنصر حسین تارڑ کی ایک تحریر پڑھنے کا اتفاق ہوا تو اُس میں جو باتیں لکھیں تھیں وہ میں ہو بہو بیان کرتی ہوں –
“ﻧﺬﯾﺮ ﺻﺎﺑﺮ ﺍﻭﺭ ﮨﻢ ﺍُﺱ ﭘﺮ ﻧﺎﺯ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﯿﮟ ﮐﮧ ﻭﮦ ﻣﺎﺅﻧﭧ ﺍﯾﻮﺭﺳﭧ ﭘﺮ ﻗﺪﻡ ﺭﮐﮭﻨﮯ ﻭﺍﻻ ﭘﮩﻼ ﭘﺎﮐﺴﺘﺎﻧﯽ ﮨﮯ۔ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺍُﺱ ﺳﮯ ﮨﻨﺰﮦ ﮐﯽ ﺍﯾﮏ ﻧﮩﺎﯾﺖ ﺑﺮﻓﯿﻠﯽ ﺍﻭﺭ ﺧﻤﺎﺭ ﺁﻭﺭ ﺷﺐ ﻣﯿﮟ ﭘﻮﭼﮭﺎ۔۔۔ ﻧﺬﯾﺮ ﺁﭖ ﺗﻮ ﺷﻤﺎﻝ ﮐﯽ ﺑﺮﻓﯿﻠﯽ ﺑﻠﻨﺪﯾﻮﮞ ﮐﮯ ﺑﯿﭩﮯ ﮨﻮ، ﺍُﻥ ﻣﯿﮟ ﺳﮯ ﺑﯿﺸﺘﺮ ﺑﻠﻨﺪﯾﻮﮞ ﮐﻮ ﺳﺮ ﮐﺮ ﭼﮑﮯ ﮨﻮ ﺟﻦ ﻣﯿﮟ ﮐﮯ ﭨﻮ ﺑﮭﯽ ﺷﺎﻣﻞ ﮨﮯ ﺗﻮ ﮐﯿﺎ ﮐﻮﮦ ﭘﯿﻤﺎﺋﯽ ﮐﮯ ﺍِﻥ ﺗﺠﺮﺑﻮﮞ ﮐﮯ ﺩﻭﺭﺍﻥ ﮐﺒﮭﯽ ﮐﺴﯽ ﻣﺤﯿﺮ ﺍﻟﻌﻘﻮﻝ ﮈﺭ ﮐﺎ ﺳﺎﻣﻨﺎ ﮨﻮﺍ، ﮐﺴﯽ ﺟﻦ ﺑﮭﻮﺕ ﯾﺎ ﭘﭽﮭﻞ ﭘﯿﺮﯼ ﺳﮯ ﻭﺍﺳﻄﮧ ﭘﮍﺍ، ﺷﻨﯿﺪ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﺑﮩﺖ ﺳﮯ ﮐﻮﮦ ﭘﯿﻤﺎﺅﮞ ﮐﺎ ﮐﮩﻨﺎ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺍِﻥ ﺑﻠﻨﺪ ﺗﻨﮩﺎﺋﯿﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﻋﺠﺐ ﺁﻭﺍﺯﯾﮟ ﺳﻨﺎﺋﯽ ﺩﯾﺘﯽ ﮨﯿﮟ۔ ﭼﮍﯾﻠﯿﮟ ﭼﯿﺨﺘﯽ ﮨﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﺭﻭﺣﯿﮟ ﻓﺮﯾﺎﺩ ﮐﺮﺗﯽ ﮨﯿﮟ ﺗﻮ ﻧﺬﯾﺮ ﺻﺎﺑﺮ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﯽ ﭼﭩﺎﻧﯽ ﻣﺴﮑﺮﺍﮨﭧ ﮐﻮ ﺍﭘﻨﮯ ﭼﮩﺮﮮ ﭘﺮ ﭘﮭﯿﻼ ﮐﺮ ﮐﮩﺎ ’’ ﺗﺎﺭﮌ ﺻﺎﺣﺐ۔۔۔ ﻧﮩﯿﮟ، ﻭﮨﺎﮞ ﮐﭽﮫ ﺑﮭﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﮯ۔ ﺻﺮﻑ ﻭﺍﮨﻤﮯ ﺍﻭﺭ ﺧﻮﻑ ﮨﯿﮟ۔ ﺩﺭﺍﺻﻞ ﺍﻧﺴﺎﻥ ﺍﺗﻨﯽ ﺑﻠﻨﺪﯼ ﭘﺮ ﺗﻨﮩﺎ ﮐﺴﯽ ﺭﺍﺕ ﻣﯿﮟ ﮨﻮ ﺗﻮ ﺍﺳﮯ ﻭﺍﻗﻌﯽ ﺍﯾﺴﯽ ﺁﻭﺍﺯﯾﮟ ﺍﻭﺭ ﻓﺮﯾﺎﺩﯾﮟ ﺳﻨﺎﺋﯽ ﺩﯾﺘﯽ ﮨﯿﮟ ﺟﻮ ﺍﺱ ﮐﺎ ﺩﻝ ﺩﮨﻼ ﺩﯾﺘﯽ ﮨﯿﮟ ﻟﯿﮑﻦ ﺍﻥ ﮐﺎ ﺳﺒﺐ ﻭﮦ ﺗﯿﺰ ﺑﺮﻓﯿﻠﯽ ﮨﻮﺍﺋﯿﮟ ﮨﻮﺗﯽ ﮨﯿﮟ ﺟﻮ ﺑﻠﻨﺪﯾﻮﮞ ﭘﺮ ﺷﺎﺋﯿﮟ ﺷﺎﺋﯿﮟ ﮐﺮﺗﯽ ﮔﻮﻧﺠﺘﯽ ﮨﯿﮟ، ﯾﮧ ﮨﻮﺍﺋﯿﮟ ﺟﺐ ﺑﺮﻑ ﮐﯽ ﺩﺭﺍﮌﻭﮞ ﻣﯿﮟ ﺍﺗﺮﺗﯽ ﮨﯿﮟ، ﺗﻮﺩﻭﮞ ﺳﮯ ﭨﮑﺮﺍﺗﯽ ﮨﯿﮟ، ﺑﺮﻑ ﺁﻟﻮﺩ ﭼﻮﭨﯿﻮﮞ ﮐﮯ ﮔﺮﺩ ﺍﯾﮏ ﺟﮭﮑﮍ ﮐﯽ ﻣﺎﻧﻨﺪ ﮔﮭﻮﻣﺘﯽ ﮨﯿﮟ ﺗﻮ ﺍِﯾﺴﯽ ﻋﺠﺐ ﺍﻭﺭ ﺍﻧﮩﻮﻧﯽ ﺳﯽ ﺁﻭﺍﺯﯾﮟ ﺍُﻥ ﮨﻮﺍﺅﮞ ﮐﯽ ﮔﻮﻧﺠﺘﯽ ﮨﯿﮟ ﺟﻦ ﺳﮯ ﺁﭖ ﮐﮯ ﮐﺎﻥ ﮐﺒﮭﯽ ﺁﺷﻨﺎ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻮﺋﮯ، ﺯﻧﺪﮔﯽ ﻣﯿﮟ ﭘﮩﻠﯽ ﺑﺎﺭ ﯾﮧ ﭼﻼﺗﯽ، ﮔﻮﻧﺠﺘﯽ ﺁﻭﺍﺯﯾﮟ ﺁﭖ ﺳﻨﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﺗﻮ ﺧﻮﻓﺰﺩﮦ ﮨﻮ ﺟﺎﺗﮯ ﮨﯿﮟ ﮐﮧ ﯾﮧ ﮐﯿﺎ ﮨﮯ۔۔۔ ﮐﮩﺎﮞ ﮐﮯ ﺟﻦ ﺑﮭﻮﺕ ﺍﻭﺭ ﮐﮩﺎﮞ ﮐﯽ ﭼﮍﯾﻠﯿﮟ، ﺍﻧﺴﺎﻥ ﺳﺐ ﺳﮯ ﺑﮍﺍ ﺑﮭﻮﺕ ﮨﮯ ‘‘ ۔
برطانیہ کے مشہور سائنسدان ڈاکٹر وائز مین نے چند آسیبی مقامات میں جا کے تحقیق کی تو نتیجہ یہ اخذ کیا کہ یہ سب انفراساٶنڈ(انتہائی ہلکے تعدد کی آواز) کی بدولت ہیں، جبکہ اُن کا باقی تمام مافوق الفطرت چیزوں کے بارے میں بھی یہیں کہنا تھا کہ یہ سب انفراساٶنڈ لہروں کی بدولت ہیں دراصل انفراساٶنڈ آواز کی وہ لہریں ہیں جن کی فریکوینسی بیس ہنز سے کم ہے، جبکہ ایک نارمل انسان میں انفراساٶنڈ ویوز سننے کی صلاحیت بیس ہزار تک ہوتی ہے، بیس سے کم ہنز کی لہروں کو انسان میں سننے کی سکت نہیں،بیشک انسانی کان اپنے سمعی استعداد سے کم حامل کی آوازوں کو سن نہیں سکتا مگر ان انفراسانیک لہروں میں موجود آواز کی گمک کو کسی ارتعاش یا پھڑپھڑاہٹ کی صورت محسوس ضرور کر سکتا ہے، جبکہ انسانی چشم بھی بیس ہنز تک ہی نگاہ بانی کرسکتا ہے، اِس سے کم ہنز کی لہریں دیکھنے کی صلاحیت کسی عام انسان میں نہیں مگر کبھی کبھی ایسا ہوتا ہے کہ کسی خاص چیز یا کسی الیکٹرک مشین کی وجہ سے اگر ایسی لہریں پیدا ہوں تو ہمیں اُن پر کسی ماورائی مخلوق ہونے کا شبہ ہوتا ہے،ایک دفعہ جب وچ ٹینڈی (امریکہ کا مشہور سائنسدان) اپنے تجربہ گاہ میں میں تھا کہ اُسے یوں محسوس ہوا کہ اُس کے سامنے کچھ مافوق الفطرت چیزیں گھوم رہیں ہیں، لیکن جب اُسکے سامنے پڑی چیزوں میں ارتعاش سا پیدا ہوا تو وچ حقیتاً گھبرا سا گیا اور اُسے شک گزرا کہ اُس پر کسی جن کا سایہ ہے،بعد ازاں وچ نے جب اِس بارے میں تحقیق کی تو پتا چلا کہ اُس نے اپنے تجربہ گاہ میں جو نئے پنکھے لگوائے تھے وہ انیس ہنز کی انفراساٶنڈ پیدا کر رہے تھے، جس سے اُسکی بصیرت میں نئی چیزیں تخلیق ہو رہیں تھیں، شاید جبھی ہمارے ہاں ہر دوسرے بندے کو کوئی نہ کوئی جن بھوت نظر آجاتا ہے،جبکہ بمطابق علم طبیعات (سائنس کی وہ شاخ جو مادے کی توانائی اور حرکت کے قوانین اور اُنکے خواص کے مابین مطالعہ کرتی ہے ) اُنکے جسم آگ سے بنے ہوتے ہیں اور اُنکی انرجی کی فریکوینسی انفراریڈ (غیر مرئی شُعاعیں جو مُرئی سرخ کے طیف کے باہر واقع ہوں ) میں ہوتی ہے،چونکہ ہم میں ان انفراریڈ ریز (زیر سرخ شُعاعیں ) دیکھنے کی صلاحیت نہیں تو یہ مخلوق ہمیں نظر نہیں آتی –
چونکہ قرآن مجید میں سورہ جن (آگ سے پیدا کردہ مخلوق ) کا بہت آسان الفاظ میں وجود رکھنے کا ذکر ہے تو میں بذاتِ خود قطعی طور پر کسی بھی قسم کی مافوق الفطرت چیز پر اتنی ہی یقین رکھتی ہوں جتنا کہ کوئی اور ایمان یافتہ مسلمان رکھتا ہے-
مگر مجھے اِس بات سے بھی انکار نہیں کہ اللہ تعالی کی یہ ناری (آگ سے بنی)مخلوق یوں بات بنا بات ہر ایک کو نظر نہیں آتا، نا صرف یہ بلکہ اللہ تعالی نے اور بھی بہت سی اِیسی مخلوق بنائیں ہیں جن کو موت سے پہلے کوئی بھی غافل انسان نہیں دیکھ سکتا، ماسوائے اُن لوگوں کے جن کو اللہ تعالی کی طرف سے خاص نظریں عنایت ہوتیں ہیں، بیشک انسان کو اللہ تعالی نے اَشرف المخلوقات بنا کر تمام جنات پر برتری عطا فرمائی لیکن فطرت کے رازوں کو جاننا چنندہ لوگوں سے مشروط ہے جسکا مطلب صاف ہے کہ یہ جو نوے فیصد مشرقی لوگوں کو آئے دن کوئی نہ کوئی جن بھوت کیٹ واک کرتا ہوا دکھائی دیتا ہے یہ محض اُنکے اندر کے جن بھوت ہونگے جو کبھی کبھی اُنہیں انٹرٹینمنٹ مہیا کرنے اپنا بھیانک جلوا دکھاتے ہونگے اِس بات سے انجان کے خود کو آئینے میں دیکھ کر ڈرنے والے یہ معصوم مشرقی لوگ بھلا کہاں اندر کے چھپے شیطانی فطرت حامل جن کے محیر العقول ڈر کا سامنے کرسکتے ہیں جبھی بیچارے آئے روز کسی نہ کسی ڈھونگی بابا کے آستانے کا رُخ کرتے پائے جاتے ہیں، جہاں ایک دفعہ جانے کے بعد ڈھونگی بابا کے اپنے پرسنل موکل کچھ اِس قدر الرٹ ہوجاتے ہیں کہ پھر ساری زندگی مطلوبہ شخص ڈھونگی بابا اور اپنے اندر کے جن کے بیچ گن چکر بنا رہتا ہے – شاید اِسی لیے جنات کا مشرقی معاشرے سے تعلق آئے روز مضبوط ہوتا جا رہا ہے –!