Ghazal by Kawish Abbasi
غزل – کاوش عباسی
سبھی تیر جو مِرے تَن پہ ہیں ، ہیں عنایتیں میرے یار کی
اُسی یار کی مِرے خوں نے دی جِسے کرّ و فر سرِ دار کی
مَیں کٹا پھٹا ہی رواں رہا اُسی سچ کی دو رُخی دھار پر
وہی سچ رِیائے جہاں نے جِس کی غِلاف پوشی ہزار کی
مَئے ناب شیریں سرُور کی، تُو ہے پی کے جھومتا اسقدر
کبھی پی مزاحمتِ جہاں کی شراب تلخ خمار کی
مِرے بازوؤں پہ نشان ہیں ، مِرے ہاتھ، سینہ ہیں زخم زخم
یہی زخم اب مِرے پھول ہیں ، مجھے جستجو تھی بہار کی
مجھے کاوش آپ ہی ہوش تھا، نہ کسی کا ہاتھ میں ہاتھ تھا
مِری ہم سفر مِری چیخ تھی یا اُداسی راہ گزار کی