Cheelain: Urdu Afsana by Usama Ranjha

Cheelain: Urdu Afsana by Usama Ranjha

 

آسمانوں پر چیلوں کا راج ہے،کوٹھیاں اور بنگلوں پر بھی پر دبائے دبکے بیٹھی ہیں ۔یہ چیلیں کچھ سال پہلے والی چیلوں سے الگ ہیں ، اس آس میں رہتی ہیں کہ کوئی کمزور ،لاچارچوزہ یا کوئی چھوٹا پرندہ ہاتھ لگ جائے تو دعوت اڑالیں،یہ گدھ نما چیلیں ہیں جو مردار کھانے سے بھی باز نہیں آتیں۔ یہ چیلیں نہ تو آسمان کی بلندیوں کو چھوتی ہیں اور نہ ہی ہوا کے بل بوتے پر آسمان کی وسعتوں کو ناپتی ہیں ۔یہ گدھ نما چیلیں ،ہر کمزور اور لاچار پر وار کرتی ہیں اور اپنی چودھراہٹ جتانے کی کوشش کرتی ہیں۔کوئی بھولا بھٹکا بیچارا چوزہ پنجرے سے باہر آجائے یا کوئی سہمی ہوئی چڑیا ہاتھ لگ جائے تو توڑمروڑ کر کھا جاتی ہیں، البتہ اب بڑے شکار مارگرانے کی ہمت ان میں باقی نہیں۔ وقت کے دوش کے ساتھ یہ بھی بدل چکی ہیں۔
امجد کے گھر کے صحن میں لگے درخت پر شام ڈھلے ہی چیلوں کا راج ہوتا ہے لیکن آج کچھ ایسی انہونی ہوئی ہے کہ چیلیں غائب ہیں اورامجد کی بیوی جوصبح صبح باہر دھند میں چوکی پر بیٹھی ناشتہ بناتی تھی کہیں نظر نہیں آرہی۔خاموشی چھائی ہوئی ہے،وحشت ناک خاموشی جیسے کہ ہو کا عالم ہو جیسے کسی نے فطرت کی زبان کھینچ لی ہو،آہ وزاری بھی نہ تھی جیسے سب نے ہونٹ سی لیے ہوں۔
دس بجنے کو ہیں،امجد کو ایک پٹرول پمپ پہ ملازم ہے آج کام پر نہیں گیا،بس چارپائی پرٹانگیں لٹکائے بیٹھا ہے اور نم آنکھوں کے ساتھ زمین پر ٹکٹکی باندھے دیکھ رہاہے۔نہ جانے کون سی ایسی چیز ہے جسے وہ اتنے انہماک کے ساتھ ڈھونڈ رہا ہے۔شاہدہ اپنی چارپائی پرکمر دیوارکے ساتھ لگائے لحاف میں بیٹھی ہے۔فون کی گھنٹی بجتی ہے ۔امجد استر ی سٹینڈ پر پڑے فون کی طرف لپکتا ہے۔
“فون پہ کون ہے؟”شاہدہ استفسار کرتی ہے۔
امجد فون اٹھاتا ہے ۔رسمی حال چال کے بعدامجد کامالک کام پر نہ آنے کی وجہ پوچھتا ہے توامجد ٹال مٹول سے کام لیتا ہے۔لیکن امجد کا مالک دوبارہ پوچھتا ہے۔
“صاحب جی۔۔مم۔میں۔۔صاحب جی۔۔بخار ہے،میں دوتین دن تک آجاؤں گا “اور اس کےساتھ امجد فون رکھتاہے۔
شاہدہ اٹھ کر امجد کے قریب آتی ہے ،اچھا ہوا تونے نہیں بتایا کوئی بھی پوچھے تو اسی طرح بات کو ٹال دینا
“شاہدہ ہم کب تک اسی اضطراب میں رہیں، کب تک اس تکلیف کو ہم وبالِ جان بنا کر سہتے ہیں گے،یہ زخم بہت گہرا ہے اور شاہدہ تجھے کیا لگتا ہے کہ وقت کےساتھ یہ بھرجائے گا ،نہیں بالکل بھی نہیں، یہ تجھے جیتے جی مار دے گا،یاد رکھنا یہ چھپا کے بیٹھی رہی تو تجھے یہ مار دے گا۔”
شاہدہ بچوں کی طرح بلکنے لگی ،”خدا کا واسطہ ہے امجد،یہ بات کسی کو نہ بتانا،میں سہہ لوں گی یہ سب مگر یہ بات نکل گئی تو کسی کو منہ دکھانے کے قابل نہیں رہیں گے۔”
اسی اثنا میں امجد کا بڑا بھائی رشید دروازے کھول کر اندر داخل ہوتا ہے۔اور امجد کو اس حال میں دیکھ کر پریشان ہوجاتا ہے۔
“امجد کیا ہوا؟”
“بھائی وہ۔۔”بات امجد کے حلق میں اٹک جاتی ہ ے۔
“کیا وہ؟ بتائے گا بھی یا نہیں ؟”
“بھائی وہ اپنی صغریٰ ہے نا!”
“ہاں ہاں ! کیا ہوا ہے صغری کو ؟”
“بھائی وہ زمینداروں کے لڑکے اٹھا کر لے گئے تھے ،رات کو دروازے پر چھوڑ گئے ہیں،بھائی پتہ نہیں کیاگزری ہوگی بیچاری پر، “امجد کا چہرہ رو رو کر صدیوں کا بیمار لگ رہا ہے۔
رشید ابھی تک بے یقینی اور ناسمجھی کے عالم میں انھیں دیکھ رہا ہے۔

 

 

 

 

صغریٰ سترہ سال کی معذور لڑکی ، بے بسی کی تصویر بنی بیٹھی ہے ،ہونٹ کپکپا رہے ہیں جیسے سردی کی رات باہر کاٹی ہو،زندہ لاش سے کچھ زیادہ نہیں ، مسلسل گہری نظروں کے ساتھ چھت کو تکے جارہی ہے۔اپنے وجود کو سمیٹ کر لحاف میں سہمی بیٹھی ہے جو کہ اس وقت گور سے کم نہیں ۔
رشید چارپائی پر بیٹھ جاتا ہے:”تو پھر امجد تو نے کسی کو بتایا کیوں نہیں اب تک، رات سے لے کر اب تک چھپائے بیٹھا ہے ،”
“بھائی کیا بتاؤں گا میں؟ یہ بتاؤں کہ شیروں کے شہر میں میری بے بس ہرنی ماری گئی؟ یا یہ بتاؤں کہ میری عزت کاجنازہ میرے اپنوں کی ہوس نے نکال دیا ، رشید میں انھیں اپنا سمجھتا تھا ،اپنا دکھ سکھ کا ساتھی” امجد کے رونے کی آواز کمرے سے باہر تک جارہی ہے۔
دودن گزرنے کے بعد امجد کا مالک دوبارہ اس کے آنے کا پوچھتا ہے،امجد دوبارہ سے بیماری کا بہانہ بنا کر ٹال دیتا ہے ۔ رشید امجد کے مالک کے پاس جا کر سارا معاملہ بیان کرتا ہے۔
اگلے دن امجد کامالک اس کے گھر پہ آتا ہے جیسے ہی گھر کا دروازہ کھلتا ہے تو امجد پہ گویا جیسے آسمان گرپڑا ہو”صاحب آپ۔۔آپ ۔آپ کیوں آئے؟ خدا کا واسطہ ہے چلے جائیں، یوں پورے گاؤں میں ہمیں بدنام نہ کروائیں۔”
“امجد صبر کر ،بات تو سن”رشید اسے سمجھاتا ہے ،
“امجد بات یہ ہے کہ جو ہونا تھا وہ تو ہوچکا مگر اب ہمیں مجرموں کے خلاف کھڑاہونا ہوگا۔”
“امجد تو اپنے آپ کو سنبھال ،اب کب تک ایسے ہی گھر میں اپنے آپ کو قید رکھ کر بچوں کی طرح چیختا چلاتا رہے گایہ بات ایسی ہے کہ چھپے گی نہیں ،تو اب حوصلہ کر اور میرے ساتھ تھانے چل، میں تیرے ساتھ ہوں،چل صغریٰ کو انصاف بھی تو دلانا ہے۔”
“نہ نہ صاحب، میں نہیں جاؤں گا ۔صاحب کیسی کشمکش ہے،عزت بچاؤں گا تو انصاف ہار جاؤں گا اور انصاف ڈھونڈوں گا تو عزت کھو دوں گا۔صاحب عزت زیادہ پیاری ہے،مجھے نہیں چاہیے انصاف۔سارا علاقہ میرے منہ پہ تھوکے گا”
شاہدہ ہاتھ جوڑے بیٹھی ہے،صاحب آپ جائیں خدا کا واسطہ ہے ہمیں ہمارے حال پہ چھوڑ دیں، یہ تھانے کچہری کے چکروں میں ہمیں نہ ڈالیں۔”
رات کے اندھیرے میں ہلکے ہلکے ستارے ٹمٹما رہے ہیں، پیڑ کے دوسری پار چاند نوحہ کناں ہے، اس کی رنگت میں بوسیدگی واضح ہے کہ جیسے وہ اس غم میں شامل ہو۔
امجد بیچارا سارا دن آہوں سسکیوں میں گزاردیتا ہے اور رات پھر چھت کو گھورتا ہے ،زندگی اس کے لیے ملامت سے زیادہ کچھ نہیں،ایک ایسے پرندے کی مانند جو روز قفس میں آزادی کی آرزو لیے ہوتا ہے لیکن شاید یہ قید مسلسل لکھ دی گئی ہو۔
امجد اٹھ بیٹھ اس طرح تو لیٹا رہے گا تو میرا حوصلہ بھی ماند پڑجائےگا،اٹھ میں تیرے لیے ناشتہ بناتی ہوں، تو جایا کر نوکری پر۔
نہیں شاہدہ میں ہار چکا ہوں ،شاہدہ ،میں ہار چکا ہوں اپنے آپ سے ،صغری سے ،اس بوسیدہ معاشرے سے ،اپنی عزت سے،شاہدہ !صغریٰ کا قصور کیا تھا، یہی نا کہ یہ غریب کی بیٹی ہے ،شاہدہ ہم لوگ شودر ہیں، اس معاشرے کے مطابق انتہائی گھٹیا لوگ ہیں ہم، اس قدر گھٹیا کہ صغریٰ کو میں یہ بھی نہیں کہہ سکتا کہ پتر تجھے انصاف ملے گا، تیرا باپ تیرے ساتھ ہونے والی زیادتی کا ازالہ تو نہیں کرسکے گا، مگر ان کو کٹہرے میں ضرور لائے گا، مگر نہیں شاہدہ، نہیں،یہ صرف ہماری خام خیالی ہے۔ یہ تھانے یہ عدالتیں، یہ آسائش زدہ دفتر یہ ٖغریبوں کے لیے نہیں ہوتے شاہدہ،یہ ہمارے لیے نہیں ہیں۔
اچھا چھوڑ اب ان باتوں کو، کسی اور طرف دھیان لگا۔
نہیں شاہدہ! میں دل اور دماغ کی جنگ میں دل سے ہار گیاہوں میں صغریٰ کو یوں بے بسی کی تصویر نہیں بننے دوں گا، میں کم از کم آخری حد تک ضرور جاؤں گا،میں کل خدا کے حضور صغریٰ کا مجرم نہیں بننا چاہتا۔
صغری کا مجرم کیوں؟تو نے کون سا ظلم کیا ہے۔اللہ غارت کرے گا انھیں۔
نہ شاہدہ!ظلم کو دیکھ کر چپ رہنے والا بھی مجرم ہے اور شاہدہ ہم تو اس کے اپنے ہیں، ہم ساتھ نہیں کھڑے ہوں گے تو کون ہوگا۔
امجد تھانے میں ایف آئی آر کٹوانے آیا ہے،ایس ایچ او واقعے کی نوعیت ،وقت اورملزمان کے نام پوچھتا ہے۔
“اچھا اب تو کیا چاہتا ہے؟ کتنے پیسے چاہییں تجھے؟ تو چپ کر کے کیوں نہیں بیٹھ جاتا؟اب تو کیا اپنی بیٹی کی رہی سہی عزت بھی بیچنا چاہتا ہے؟ تم لوگ اول تو الٹ کام کرتے ہو اور پھر تھانے دوڑپڑتے ہو کہ بچی کھچی دیہاڑی بھی لگ جائے۔کوئی ہوش کے ناخن لے،جن کونہیں پتہ انکوبھی بتائے گا۔
نہیں سر آپ غلط سمجھے ہیں،میں تو اسکا باپ ہوں بھلا میں کیوں بیچوں گا اس کی عزت ۔
او پتہ ہے مجھے،میراسارا دن یہی کام ہے،چار پیسوں کی لالچ ہے تجھے ،منہ اٹھا کر آگیا ہے ،اگر تجھے چار پیسے چاہیے ہی ہیں تو ان کی طرف جا اور بات چپکے سے ختم کر لے،تھانے کے چکر لگانے کی کیا ضرورت ہے۔تو تھانے میں ریٹ بڑھانے آیا ہے؟
سر ایسا ہرگز نہیں ہے،مجھے صرف انصاف چاہیے۔کل کو کہیں آپ کی بیٹی بھی ۔۔۔
کیا میری بیٹی؟تو کہنا کیا چاہتا ہے؟ اب تو مجھے بتائے گا میری بیٹی کا؟ کمی کمین تجھے شرم نہیں کہ کیا بات کرنی ہے؟
صاحب وہ ،میں۔۔
کیا وہ، میں۔۔چل اٹھ نکل یہاں سے ،آیا بڑا انصاف لینے
امجد صبح اٹھا نہیں ،شاہدہ منہ سے لحاف اٹھاتی ہے تو حواس باختہ ہوجاتی ہے،کیا دیکھتی ہے کہ آنکھوں کے ڈھیلے اوپر پھر گئے ہیں، سارا جسم ٹھنڈا پڑچکا ہے،باہرکو دوڑتی ہے،رشید اندر آتا ہے اور دیکھتا ہے کہ امجد کی روح پرواز کرچکی ہے۔
امجد کے چہرے پر بے بسی،،لاچاری اور شکست کے آثار واضح تھے،امجدیہ جنگ ہار چکا تھا،کمزور اور طاقتور کی جنگ،بڑے اور چھوٹے کی جنگ ،کمی اور چودھراہٹ کی جنگ۔
بدبودار معاشرے کا وہ خلا جو کمزور اور طاقتور کے درمیان برسوں سے چلا آرہا ہےآج امجد کی جان لے چکا ہے،
شہر کے تمام شرفا ،میڈیا ٹیمز،اور گاؤں کے باسیوں نے بڑی تعداد میں اکٹھے ہوکر امجد کو اس کے پناہ جھٹلائے ہوئے سوالوں کے ساتھ دفن کر دیا۔

 

 

 

You may also like...