Khasaara: Urdu Afsana by Nadia Amber Lodhi
خسارا —– وہ تصویر سوشل میڈیا کی توسط سے اس تک پہنچی تھی – ماتھے پر بندیا گلے میں منگل سوتر ،مانگ میں سیندور ،تن...
خسارا —– وہ تصویر سوشل میڈیا کی توسط سے اس تک پہنچی تھی – ماتھے پر بندیا گلے میں منگل سوتر ،مانگ میں سیندور ،تن...
Putla Kahani – Short Urdu Story by Mirza Athar Baig
Paagal Paagal Duniya – Urdu Afsana by Mansha Yaad [Pride of Performance]
Ziyadati: Urdu Afsana by Bakhtawar Qadir Shaikh ثنا کا بابا فیکٹری پر کام کرتا تھا اور ان کی کمائی اتنی نہیں ہوتی تھی کے اس...
Shauq and Jazba: The Story of Village Girl Hira: Afsana By Bakhtawar Qadir Shaikh گاؤں میں سب ان پڑھ لوگ تھے مگر اسی گاؤں...
A Short Film Story on Sacrifice of a Sister: By: Muhammad Ammar Saleem خواہر وقت ایک برساتی بادل کی مانند ہوتا ہے۔ یہ فرش...
Meray Dhol Sipaahiya: Urdu Story by Muhammad Ammar Saleem آج بھی وہ حسبِ معمول سکول سے بھاگ آیا تھا۔ اسے روزانہ ہی سبق یاد...
فروا —- وہ بھولی بھالی شکل وصورت والی معصوم بچی تھی جس کی عمر آٹھ سال تھی اس کا نام فروا تھی -اس کے والدین...
اختری (افسانہ ) اختری نے گھر کا کام ختم کیااور سفید تکیہ پوش پر رنگبرنگے چھوٹے چھوٹے پھول کاڑ ھنے لگی – اس کےہاتھ تیزی سے چل رہے تھے۔ اسے یہ کام جلدی مکمل کرناتھا اس کے بعد بستر کی چادرمکمل کر نا تھی – اختری یتیمتھی اس کا بچپن بہتکسمپرسی کے عالم میں گزراتھا –باپ اس کی پیدائش کےچند ماہ بعد چل بسا ۔ ایک بڑی بہن تھی اور ایک ماں –ماںمحنت مزدوری کر کے اندونوں کو پال رہی تھی –اکثرگھر میں کھانے کے لیےصرف روٹی ہوتی جب وہ ماںسے پوچھتی اماں !روٹی کسکے ساتھ کھائیں ؟ ماں جواب دیتی :منہ کے ساتھ۔ جیسے تیسے کرکے اس کابچپن گزر گیا –وہ بھی ماں کاہاتھ بٹانے کو سلائی کڑھائیکرنے لگی –لیکن یہ چادر اورتکیے اس کے جہیز کے تھےان پر لگے ہر ٹانکے میں اسکے ارمان پروۓ ہوۓ تھے ۔ان کے رنگوں میں اس کےخواب سجے تھے ۔کنواریآنکھوں میں سجے ایکشہزادے کے خواب – جس کاساتھ اس کی زندگی کو دلکش بنادے گا۔ اس کا تعلق مشترکہ ہندوستانکے گاؤں گورداسپور سے تھا–یہ جنوری ۱۹۴۷کا زمانہتھا – جنگ آزادی کی شدتمیں اضافہ ہوتا جارہا تھا –اکثرگلی میں سے گزرتے جلوسوںکے نعرے سنتی اختریمستقبل کے اندیشوں سےلاعلم تھی –اس کی عمر چودہسال تھی –اس نے ہوشسنبھالنے کے بعد صرف گھرکی چار دیواری دیکھی تھی–سیاست کی موجودہ صورتحال سے وہ بے خبر تھی–کبھی اماں سے پوچھتی کہجلوس کیوں نکلتے ہیں تو وہجواب دیتی :یہ انگریز سرکارسے آزادی مانگتے ہیں – آزادی کیا ہوتی ہے یہ سوالاس کے لیے عجیب تھاکیونکہ وہ ان پڑھ تھی –قرآناور نماز کی تعلیم ماں نے دیتھی اس کے نذدیک دین کاعلم ہی کل علم تھا –دنیاویعلم سے وہ بے بہرہ تھی –دو ماہ بعد اس کی شادی طےتھی – شادی کا دن آپہنچا –ماں نےاپنی حیثیت کے مطابق اسےرخصت کردیا – سسرال میںساس ،شوہر اور دیور تھے–نئی نئی شادی میں دہکتےجاگتے ارمانوں کا ایک جہانآباد تھا –یہ دنیا اتنیخوبصورت تھی کہ وہ ماضیکی سب محرومیاں بھول گئی–اس کا شریک ِحیات اس کےمقابلے میں بہت بہتر تھا پڑھا لکھا اور وجیہہ–اس کاشوہر سرکاری ملازم تھا –وہایف۔اے پاس تھا او ر محکمہڈاک میں کلرک تھا –خوابوںکے ہنڈولے میں جھولتے چندماہ لمحوں کی طرح سے گزرگئے – ملک میں فساداتپھوٹ پڑے –حالات دن بدنخراب ہوتے جارہے تھے –انکے سارے خاندان نے ہجرتکی ٹھانی –ضرورت کے چندکپڑے گھٹریوں میں باندھے–وہ جہیز جو اس نے بہت چاؤسے بنایا تھا حسرت بھرینظر اس پر ڈالی اور رات کیتاریکی میں سسرال والوں کےساتھ گلی کی طرف قدم بڑ ھادیے –وہ لوگ چھپتے چھپاتےشہر سے باہر جانے والیسڑک کی طرف قدم بڑ ھنےلگے – دبے پاؤں چلتے چلتےوہ شہر سے باہر نکلے–آبادی ختم ہوگئی تو قدموںکی رفتار بھی تیز ہو گئی–درختوں کے اوٹ میں ایکقافلہ ان کا منتظر تھا – جسمیں زیادہ تر خاندان ان کیبرادری کے تھے –قافلےچلنے میں ابھی وقت تھاکیونکہ کچھ اور خاندانوں کاانتظار باقی تھا – اس کی ماں اور بہن پہلے ہیپہنچ چکی تھی – اگست کامہینہ تھا ساون کا موسم تھاگزشتہ رات ہونے والی بارشکی وجہ سے میدانی علاقہکیچڑ زدہ تھا –اسی گرمی ،حبس اور کیچٹر میں سب لوگڈرے سہمے کھڑ ے تھے–گھٹریاں انہوں نے سروں پہرکھی ہوئی تھیں اتنے میںگھوڑوں کے ٹاپوں کی آوازسنائی دینے لگی –اللہ خیرکرے –قافلے والوں کی زبانسے پھسلا –چشم زدن میںگھڑ سوار قافلے والوں کےسروں پر تھے – ان کےہاتھوں میں کرپانیں اورسروں پر پگھڑیاں تھیں یہسکھ حملہ آور تھے –کاٹ دومُسلوں کو کوئی نہ بچے –صدابلند ہوئی –لہو کا بازار گرمہوگیا مسلمان کٹ کے گرنےلگے ان کے پاس نہ تو ہتھیارتھے نہ ہی گھوڑے – جان بچاکے جس طرف بھاگتے کوئیگھڑ سوار گھوڑے کو ایڑلگاتا اور سر پہ جا پہنچتا – اختری کا شوہر اور دیور بھیمارے گئے ۔چند عورتیں رہگئی باقی سب مار ے گئے –ان عورتوں کو گھڑ سواروںنے اپنے اپنے گھوڑوں پہ لادااور رات کی تاریکی میں گمہوگئے –شوہر کو گرتا دیکھکے اختری ہوش وحواس گمکر بیٹھی اور بے ہوش ہوگئی–رات گزر گئی دن کا اجالا نکلاگرمی کی شدت سے اختری کوہوش آیا تو چاروں طرفلاشیں بکھری پڑی تھیں اوروہ اکیلی زندہ تھی –اختری نےواپسی کے راستے کی طرفجانے کا سوچا اور شہر کیطرف چل پڑی –وہ ہندوؤں اورسکھوں سے چھپتی چھپاتیاپنے گھر کی طرف جانے لگی– گلی سے اندر داخل ہوئی توگھر سے دھواں نکلتے دیکھا– دشمنوں ے گھر کو لوٹ کےبقیہ سامان جلایا تھا نہ مکینرہے نہ گھر – وہ اندر داخلہوئی اور ایک کونے میں لیٹگئی – گزرا وقت آنکھوں کےسامنے پھرنے لگا اس کیآنکھوں سے آنسو گرنےلگے وقت نے کھل کے رونےبھی نہ دیا –زندگی کیا سے کیاہوگئی –انہی سوچوں میںغلطاں تھی کہ قدموں کی چاپسنائی دی –آج یہاں جشنمناتے ہیں – تین ہندو ہاتھ میںشراب کی بوتل لیے گھر میںداخل ہوۓ – اختری نے اردگرد نظر دوڑائی اپنی حفاظتکے لیے کوئی چیز نظر نہ آئی–وہ برآمدے میں بیٹھ گئے اورشراب پینے لگے اختری اندرکمرے کے دروازے کی درزسے انہیں دیکھنے لگی –انمیں سے ایک اٹھا اور بولا:تھک گیا ہوں آرام کرلوں ۔وہاختری والے کمرے کی طرفبڑ ھا اختری پیچھے ہٹی اورکسی برتن سے جا ٹکرائ۔اندر جانے والے نے چاقونکال لیا – شور کی آواز سےباقی دونوں بھی اٹھ کھڑےہوئے :کوئی ہے –یہاں کوئیہے – لڑکی ہے :پہلے والا بولا باقی دو کے منہ سے نکلا –لڑ کی پہلے والا ہاتھ میں چاقو لےکر اختری کی سمت بڑ ھااختری پیچھے ہٹتے ہٹتےدیوار سے جا لگی باقی دوبھی پہنچ گئے ایک نے چھپٹامار کے اختری کو پکڑ نے کیکوشش کی ۔اختری نے چاقووالے سے چاقو چھینا اورچشم زدہ میں اپنے پیٹ میںمار لیا ۔خون کا فوارہ ابل پڑا–اختری نیچے بیٹھتی گئیفرش پہ خون پھیلنے لگا اوراس کی گردن ڈھلک گئی مر گئی سالی: اُن میں سےایک کے منہ سی نکلا – — نادیہ عنبر لودھی اسلام آباد
Umaira Ahmed’s is considered by critics as one of the finest Urdu novelists and drama writers of our times. With exceptionally popular novels such...
What is Life: Urdu Article by Junaid Zafar اس دنیا کے مشکل ترین سوالوں میں سے ایک سوال یہ ہے کہ زندگی کیا...
نکاح تحریر: عائشہ سلیم انجم الله نے اس دنیا میں ہر عورت کو حوا اور ہر مرد کو آدم بنا کر بھیجا ہے ۔ تاکہ...
توبتہ النصوح ———————– توبتہ النصوح ڈپٹی نذیر احمد کا شہرہ آفاق اصلاحی ناول ہے۔نذیراحمد ایک مذہبی پس منظر رکھتے تھے لہذا انکے تمام ناول مقصدیتکے تحت لکھے گئےان کا اسلوب ہر ناول میں ایک جیسا ہے ۔ ان کیہر ہر سطر سے وعظ کا عنصر چھلکتا ہے۔ اکثر مقامات پر لمبیتقریریں ناول میں بور ریت پیدا کرتی دکھائی دیتی ہیں ۔لیکن چونکہان کا مقصد اصلا حی ہے لہذا یہ خامی قابل قبول ہے۔ یہ ناول موجودہنوجوان نسل کو اسلام پہ عمل کادرس دیتا ہے جو کہ لائق ۔ تحسینہے ۔ یہ ناول ایم اے۔اردو کے نصاُب کا حصہ ہے ایم اردو کے طالب علم ہونے کے باعث ہم نے بھی اپنے زمانہ ۔طالبعلمی میں اس کو باریک بینی سے پڑ ھا لیکن مرے اس مضمون کاڈپٹی نذیر احمد کے ناول سے کوئی تعلق نہین ہے اور نہ ہی یہمضمون ڈپٹی نذیر کے ناول کی پیروڈی ہے نہ ناول پر تنقید مقصد ہےبلکہ یہ مضمون اسلامی تعلیمات توبہ اور استغفار سے متعلق ہے نامکی یکسانیت کی وجہ سے یہ تمہید باندھی گئی۔ توبتہ النصوح سے مراد حتمی توبہ ہے ایسی توبہ جس کے بعد گناہکی طرف واپس لوٹنا ناممکن ہو ۔انسان خطا کا پُتلا ہے ۔ اپنے ماضیپر نظر دوڑائیے ۔ ہم بے شمار گناہ کر کے بھول چکے ہیں ۔ کچھایسے ہیں جو یاد ہیں جن پر کبھی کبھی اشک ۔ ندامت بہا لیتے ہیں ۔کچھ ایسے ہیں جو وقت کی خاک میں مل کر خاک ہوۓ ۔جن کے نام ونشاں بھی مٹ گئے لیکن وہ کراماً کاتبین کے رجسٹر میں درج ہیں یہگناہ ہمارے ساتھ اعمال کی گھٹری میں بندھ کر قبر میں جائیں گے ۔ان گناہوں پر زبانی تو ہم استغفار کر لیتے ہیں لیکن عملی طور پر انسے تائب نہیں ہوتے ۔ یہ مثال دور ِ حاضر کے حاجیوں پر خوبصادق آتی ہے ۔ بیت اللہ کی حاضری قسمت والوں کا نصیب بنتی ہے ۔گڑ گڑا کر اپنے گناہوں کے معافی مانگنے کے بعد کاش کہ ان گناہوںسے اجتناب بھی لازم ہو ۔ اگر یہ حاجی خود کو تبدیل کر کے اپنیاصلاح کر لیں تو شاید ہمارا آدھا معاشرہ سدھر جاۓ لیکن پھر وہیلذت ِ گناہ ۔ جانتا ہوں ثواب طاعت و زہد پر طبعیت ادھر نہیں آتی (غالب) یہ زندگی جس کا آج ہم حصہ ہیں عنقریب اس کی ڈور ہمارے ہا تھوںسے چھوٹنے والی ہے ۔ زندگی جو بے بندگی ہو ۔شرمندگی بن جایا کرتی ہے ۔ دائرہ اسلام میں داخل ہو نے والے ہر مسلمان کا پہلا فرض نماز ہے ۔ موذن دن میں پانچ دفعہ اللہ کے گھر کی طرف بلاتا ہے اور ہم میںسے اکثریت سنی ان سنی کر دیتی ہے ۔جو قدم اٹھاتے ہیں ان میںسے خشوع وخضوع اور نماز کا فیض بھی ہر کسی کے حصے میںنہیں آتا ۔ ایسا کیوں ہے ؟ ہماری عبادات ہمیں وہ نور کیوں نہیں دے پاتی ۔جو ملنا چاہئیے۔ نماز بے حیائی اور بری باتوں سے روکتی ہے تو پھر ہم رک کیوںنہیں پا تے ۔ کیونکہ کمی ہماری نماز میں ہے ۔ مسجد تو بنادی شب بھر میں ایماں کی حرات والوں نے من اپنا پرانا پاپی ہے، برسوں میں نمازی بن نہ سکا اقبال کہیں حرام کا لقمہ پیٹ میں ہے تو کہیں دھیان دنیا میں ۔ کہیں نظر بے حیا ہے تو کہیں حقوق العباد سے غفلت ہے ۔ میر ا مالمیرا نہیں مرے رب کا دیا ہے ۔اسکے بندوں کا اس میں حق ہے مگرمیں تو اسے اپنا مال سمجھتا ہوں ۔اسکو اپنے اوپر خرچ کر تا ہوں ۔کسی کی ضرورت سے مری برانڈنگ زیادہ اہم ہے ۔جس ملک میںلوگ بھوک سے مجبور ہو کے خو کشی کریں ۔ لڑکیاں پیٹ کی آگبجھا نے کے لیے عزتیں نیلام کریں ۔وہاں میں ہزاروں روپے ایکوقت کی ہو ٹلنگ پہ خرچ کرتا ہوں ۔اور پھر مجھے دعوی ہے کہ میںمسلمان ہوں ۔ اپنےرسول کا امتی ہوں –سب سے بہترین صدقہ بھوکےکو روٹی کھلانا ہے ۔ جہنم میں جب مجرموں سے پو چھا جاۓ گا کہ تمہیں کیا چیز جہنممیں لائی ؟ تو وہ کہیں گے ...
کچھ قصہ شعر گوئی کا ۔۔۔۔۔۔۔ شاعروں کی ایک بڑ ی تعداد تو وہ ہے جو کہ تاریخ کے پنوں میں جلوہ گر ہے غا...
Woh Tughaafil Tera: Satire Article on Electricity by Nadia Umber Lodhi (وہ تغافل تیرا (طنزیہ اور مزاحیہ مضمون ) یادش بخیر بجلی نظر اگر آجاۓ تو کلمہ شکر ادا کیجئے نہیں تو بے کار بیٹھ رہئیے۔ اکثر عوام الناس کوبجلی کا رونا روتے دیکھا گیا ہے اور یہ پاکستان کے موجودہ مسائل میں سے سب سے بڑامسلۂ بن چکا ہے ہر کوئی شاکی نظر آتا ہے لیکن ہر شے کی طرح سے بجلی کے جانے اورآنے سے معمولات زندگی میں جو ارتعاش پیدا ہو تا ہے وہ دیکھنے سے تعلق رکھتا ہے۔ ازلیسست لوگ بھی آمد بجلی کے ساتھ اٹین شن ہو جاتے ہیں لیجئے کچھ استری سنبھال بیٹھے۔ کچھ ٹیلی وژن کے آگے براجمان ہوۓ۔ بچاری خاتون خانہ بھی اپنا بھاری ڈیل ڈول سنبھالےکچن کی طرف روانہ ہوئیں مشینی دور نے جہاں بے شمار فائدے دیے وہاں مصالحہ جاتپیسنے کا آرام بھی ہے اب یہ بارہ من کی دھوبن یہی فریضہ انجام دیں گی اور اس کے لئےبجلی بے حد ضروری ہے۔ ہمارے ملک میں خواتین کی کثیر تعداد سستی کاہلی کی وجہ سےموٹاپے کا شکار ہے بجلی آنے کی صورت میں ان کو بھی چار و نا چار حرکت کرنی پڑ تی ہےلیں کچھ فائدہ تو ہوا لوڈ شیڈ نگ کا۔ اب ایک طبقہ نو جوان نسل کا ہے جن میں کچھ ادھیڑ عمراور کچھ بزرگوار شہری بھی شامل ہیں بجلی کے آتے ہی یہ بھی متحرک ہو نا اپنا فرضسمجھتے ہیں لیکن صرف ہاتھوں اور آنکھوں سے۔ یعنی نیٹ کا استعمال۔ کسی تنہائی گزیدہ کوچیٹنگ کر نی ہے۔ کسی لکھاری کو ای میل چیک کر نی ہے پوسٹ لگانی ہے کسی بزرگحضرت کو آنکھیں ٹھنڈی کر نی ہیں کسی پڑھائی سے عاجز نوجوان طالب علم یا طالبہ کو وقتگزارنا ہے لیجئے یہ سب تو مصروف ہو گئے۔ راوی چین ہی چین لکھ رہا تھا کہ بجلی چلی گئی تو معمول زندگی سرد پڑ گیا اچانک بجلیغائب ہو نے پہ واپڈا اور حکومت دونوں کی شان میں قصیدہ گوئی شروع ہو گئی لیکن فطرتانسانی کو تو چاہئیے تنوع۔ بے زار ہو کر بجلی کا پیچھا چھوڑا لعنت بھجی اور خاتون خانہلگی ہاتھ والا پنکھا عرف پکھی جھلنے۔ کچھ مرد حضرات اخبار لگے چاٹنے۔ کچھ گرمی کےستاۓ نہانے چل دئیے۔ فلیٹوں کے کابک میں بند خواتین باہر نکلی اور گروپ میں بیٹھ کراپنے پسندیدہ کام غیبت میں جڑ گئی۔ بچے بھی کارٹون کا پیچھا چھوڑ کر کھیلنے لگے۔لیجئیے کتنے فوائد ہیں بجلے جانے کےپنکھیاں بنانے والوں کا سامان بکنے لگا۔جنریٹر،بیٹریاں یو ۔پی ۔ایس کا کاروبار چل نکلا۔ ٹیلی ویژن کمپیوٹر اور سمارٹ فون سے وقتیدوری کے صحت پہ اچھے اثرات پڑنے لگے ہے نا فوائد لوڈ شیڈ نگ کے ۔ مان گئے نا۔ ناگڈ نادیہ عنبر لو دھی اسلام آباد, پاکستان
سپاہی – عائشہ سلیم انجم خدا نے مجھے ایک جنم سے نوازا ہے ، اگر سات جنموں سے ںوازتا تو بھی میں ہر جنم میں...
ہفتے کو شام چار بجے جب مختار کی آنکھ کھلی تو اس نے ایک عجیب منظر دیکھا اسکے چاروں طرف ایک ہی پوشاک زیب تن...
Amber Naag Maria by A.Hameed is considered the most popular fictional story for children growing up in 1980s in Pakistan. Although Dastan of Amir...
Download Free 107 Novels of Ishtiaq Ahmed in PDF format – All in one ZIP file Ishtiaq Ahmed is regarded as the greatest Urdu Jasoosi...