Bheegay Pal: Urdu Afsana by Summaia Nisar
بھیگے پل – سمیہ نثار
گزرتے دّنوں کے ساتھ دسمبر کا موسم بھی پروان چھڑھ گیا۔ پتے جھڑنے کے لمحات، دُھند کی خوشبو میں پنہاں ہو کر سُر بِکھیرنے میں محو ہوۓ تو خشک ٹہنیوں میں جان ایسے ختم ہوئی کہ ہر سانس چٹخ چٹخ بکھری۔
یہ کچھ ہی دِنوں کی بات ہے کہ اپنے گھر کی بالکنی پہ بیٹھی کچھ لکھے لفظوں پر غور کیا تو طبعیت کچھ گِراں گزری۔
موسم کی بے رُخی عروج پہ پہنچی تو آنکھوں کی نمی پلکوں کی پُوروں کو بھگونے لگی۔ جب اپنی قلم کی نوک پر غور کیا تو وہ منہ بسورے کسی خاکی کاغذ پہ لفظوں کے اُترنے کے انتظار میں سیاہی چھوڑنے لگی تو جب قلم اُٹھایا تو لفظوں میں جان بھرنے کا دِل کیا۔
میری زندگی کے خشک لمحات بھی کیا لمحات تھےکہ اگر کسی بِل میں بھی کوئی گھروندہ بناؤں تو یادوں کی باریک بینی سے کہاں جان چھوٹ پاتی ہے۔۔ ضروری تو نہیں ہوتا کہ ہر خوشی بھی خوشی کی لہربخشے، یہ تو بس سوچوں کی جنگ ہے ! کہاں سنورے، کہاں بِکھرے
دُکھ پور پور سے تب رِستا ہے جب اپنوں میں ہی اپنے نہ ملیں، جہاں بات بیاں ہونے سے پہلے ہی دَم توڑ دے، جہاں کچھ بولنے سے پہلے اجازت نامہ لئیے قطار میں کھڑا ہونا پڑے! جہاں کچھ اور نہیں تو جب لکھنے کیلئے قلم اُٹھایا جاے تو رگِ جاں سے قریب لفظ فقط قہقہوں کی نظر ہوں!
یا شاید !! میرے قلم کی سیاہی میں ہی اب ہمت نہیں رہی کی میرے بوسیدہ سے لفظوں کا ساتھ دے ،بس مان تو مجھے قلم کی نوک پر تھا وہ بھی ٹوٹ گئی۔
از قلم!
سمیہ نثار