Ataay-e-Rabbi: Urdu Islamic article by Sumra Akhlaq
عطاۓ ربی – سمرا اخلاق
مجھے تم سے محبت ہے. ہاں محبت ہے تو سہی مگر مجھے اپنے وجود فانی سے زیادہ پیار ہے۔ اگر تم مجھ سے پیار کرتے ہو تو تمہیں جان بھی ہتھیلی پر رکھنا ہو گی مگر مجھ سے زیادہ توقعات رکھنا سراسر زیادتی ہے ۔
جی ہاں۔۔۔ آپ نے جو یہ چند الفاظ پر جو مشتمل رمز پڑھی درست پڑھی ہے۔ یہ سب کچھ قریبا ہر انسان کے گردو نواع کے حالات کی عکاسی ہے۔ عام لفظوں میں یہ زمانہ حال کی محبت کے جذبات کی عکاسی ہے جو اب ہر انسان نے اپنانا شروع کر دی ہے۔ عام طور پر جب ایک ذی روح دنیا میں جنم لیے داخل ہوتی ہے تو اسکا بے یارو مددگار وجود صرف ایک ہی جذبے کا طالب ہوتا ہے۔۔ اور وہ ہے محبت۔ لیکن اس کے والدین اسے اللہ کی امانت سمجھنے کی بجاۓ اسے اپنی جائیداد سمجھ بیٹھتے ہیں۔ اور اسی طرز سوچ سے اس کی پرورش کرتے ہیں کہ جیسے یہ ہماری جاگیر ہے۔ ۔۔ ہمارے خون پسینے کی کمائی ہے۔ بلاشبہ والدین اسے محبت اور پیار سے پالتے ضرور ہیں مگر اپنے اصل سے کوسوں دور رکھتے ہیں۔ اپنا اصل۔۔۔؟ یعنی کہ بنیادی اسلامی اور معاشرتی تعلیمات، جو اسے اپنے وجود سے کچھ اس طرح جوڑ دیں کہ وہ اس کے کائنات کی ہر شے کو ایک ہی نظر سے دیکھے۔۔
۔ محبت اور عاجزی کی نظر سے۔ مگر بدقسمتی سے یہ عنایت تو بس گنے چنوں کا ہی مقدر بن پاتا ہے۔۔۔ اپنے اصل کو دیکھنے والی نظر تو ہر انسان کو میسر ہی نہیں۔۔ یوں اس جذبے کی عدم موجودگی، درست سمت کی اگاہی کرنے پر والدین کی عدم توجہی کے باعث اس بچے کا بچپنا اور بلوغت دونوں ضائع ہو جاتے ہیں۔ وہ اپنے اصل کی پہچان نہ ہونے پر کسی بھٹکے ہوۓ عام سے جاندار کی مانند ہو تا ہے۔ یوں جب وہ اپنے بچپن سے نوجوانی تک کا سفر طے کرتا ہے تو اس کی جسمانی اور ذہنی تبدیلیاں اسے دنیا کی ایک نئی پہچان کرواتی ہیں۔ مگر اس دنیا کے رنگ ڈھنگ اور تبدیلیاں اسے شیطان اپنی شازشی انداز سے دکھاتا ہے جو بچپن سے ہی اس کے اصحاب پر خراماں خراماں قبضہ کرنے کی کوشش کر رہا ہوتا ہے۔ اور یوں جب وہ اسکی اعصاب پر پنجے گاڑنے میں کامیاب ہوتا ہے تو قبضے کے جشن میں انتہائی مسرت آمیز ہوتا ہے۔
خود نمائ کا یہ عالم کہ وہ اتراہٹ نشے میں خدا سے مخاطب ہوۓ کہتا ہے کہ اے اللہ۔۔ دیکھ کیسے تیرے تخلیق کردہ انسان نے اپنے دل میں موجود تیرے نور کو فراہموش کر دیا ہے۔۔ کیسے میں نے اس کی آنکھوں پر جہالت و گمراہی کی پٹی باندھ دی ہے ۔۔۔ کہ یہ تیرے نور اور حقیقت کو سمجھنا تو دور کی بات یہ تجھے پہچاننے سے بھی معذور ہو گیا ہے۔۔ اس وقت شیطان خود کو اس انسان کا خدا محسوس کرتا ہے جو اس کی حاقمیت قبول کر چکا ہوتا ہے۔۔ اور اسے دنیا کی اصلیت ایک خوبصورت ریشمی چادر میں چھپائے دکھائے چلا جاتا ہے۔ پھر آخر میں اسے محبت سے روشنائی دلاتا ہے۔
ایک مطلبی اور مفاد پرستی سے بھرپور محبت۔ اور جب یہ جھوٹ انسان کے دل میں سچ کی صورت میں سیرایت کر لیتا ہے تو اسے اپنے مفاد کی خاطر استعمال کرنے میں ذرہ برابر بھی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کرتا۔ ہو بہو ہمارے گردونواح کے حالات کی طرح ۔ہم سب یہ روز ہوتا دیکھتے اور سنتے ہیں۔زندگی کے کسی نہ کسی موڑ پر اکثر ہمیں ایسے ضرف والے افراد ملتے ہیں کہ جنکی وفا میں بھی لالچ پنہاں ہوتی ہے۔ محبتوں کے پیچھے فریب اور نفرت زدہ دل ہوتے ہیں۔۔ زندگی کے ہر موڑ پر ہم نے ایسے افراد دیکھے ہیں۔ ہم سب شاہد ہیں ان دغاباذیوں کے مگر کیا صرف شاہد ہی ہیں؟ یا ہم بھی اس جھوٹ کے حصہ دار ہیں؟ حصہ دار۔۔ اور ہم؟ شاید ہاں بھی اور نہ بھی۔۔۔ یہ راز تو انسان کا دل اور پھر خدا ہی جانے ہے۔
مگر ہم کیسے جانیں کہ محبت صرف اپنے نفس کی تسکین کا نام ہے یا یہ عطائے ربی ہے؟ یوں تو بہت سے شاعر حضرات نے اپنے محبوب کی شان میں اتنے مشکل مشکل اشعار لکھ ڈالے جو کانوں میں تو رس گھولتے ہیں مگر دل میں اترنے سے قاصر ہیں ۔۔۔۔ دل میں اصل مطلب اور اسکی سچائی اور پاکیزگی تو تب ہی اترے گی کہ جب محبت کو مفاد پرستی سمجھنے سے انکار کریں گے۔ جب اسے اپنے خالق سے جوڑنے کی کوشش کریں گے تو سب عیاں ہونا شروع ہع جاۓ گا۔
چلیں مل کر ہم محبت کی ایک حسین مثال پر روشنی ڈالتے ہیں ۔ رزق۔۔ جی ہاں۔۔۔ جسکا وعدہ اللہ نے اپنے بندے کی محبت میں اس سے کیا۔۔ جسکی تکمیل ازل سے ہوتی چلی آرہی ہے۔ وہ خالق اس معاملے میں انتہائی بے نیاز ہے۔ وہ انسان کے گناہوں سے خفا ہو کر اپنے بندے کا رزق بند نہیں کرتا۔۔ اس کی محبت خالص ترین محبت ہے جو ہر قسم کے مفاد سے پاک ہے۔ پھر ہم کیوں غور و فکر نہیں کرتے؟ کہ محبت عطائے ربی ہے۔۔ یہ کوئی عام جذبہ نہیں کہ جس کا غلط استعمال کرتے ہوۓ ہم اللہ کی مخلوق کے دلوں کو اجاڑ دیں۔۔ دلوں کی بے رونقی کا باعث بنیں۔ ہمارے مذہب میں تو محبت کی ادنیٰ سے لے کر اعلی مثالوں سے بھرا پڑا ہے ۔
۔ کبھی محبت کی اعلی مثال صفحہ مروا کے میدان میں ملتی ہے تو کبھی عید الاضحی کی قربانی میں۔ کبھی محبت ربیع الاول کے چاند میں نظر آتی ہے تو کبھی میدان کربلا چیخ چیخ کر اسکی گواہی دیتا ہے۔۔ پھر ایسا کیوں ہے کہ ہم سب ان عظیم مثالوں سے کچھ نہیں سیکھتے؟ یا شاید ہمارے دل ہی سیکھنے سے قاصر ہیں؟ یا شاید صرف چند لوگ؟ یا شاید ہم خود بھی اُنہی لوگوں کی فہرست میں شامل ہیں جو حق کو سمجھنے کا شعور نہیں رکھتے؟ اسکا فیصلہ تو دل پر ہاتھ رکھتے ہوۓ اپنا مطالعہ کرنے کے بعد ہی کیا جا سکتا ہے کہ آیا یہ ہم نے کس محبت کو اپنانا ہے۔۔ وہ جو خوبصورت لباس میں چھپی نفرت ہے یا وہ جو اللہ کی عطا ہے ۔