Apne Liye Aasaanian Samaitee Jayain: Urdu Article by Neelum Ali
اپنے لیے آسانیاں سمیٹتے جائیں
از قلم: نیلم علی راجہ
ایک بات تو طے ہے کہ دینے والا ہاتھ ہمیشہ اوپر رہتا ہے
اکثر جب کسی ضرورت مند کی داد رسی کروں تو آنکھوں سے اشک جاری ہو جاتے ہیں۔ یہ آنسو دوسروں کی دکھ، تکلیف سمجھنے سے زیادہ تشکر کے ہوتے ہیں۔ جو اللہ کے حضور پیش کیے جاتے ہیں کہ اللہ نے اتنی توفیق دی کہ اس کی مخلوق کی داد رسی کر پائی اور اللہ نے لوگوں کے سامنے میرا پردہ برقرار رکھا۔ شکر ہے اس ذات برحق کا
دوسروں کی داد رسی کرتے رہا کریں
یہ کبھی مت سوچیں کہ انھوں نے آپ کے ساتھ کیا معاملہ رکھا۔
اللہ اگر آپ کو کسی کا وسیلہ بناتا ہے تو یہ آپ کی خوش نصیبی ہے کہ اللہ نے آپ کو مدد کرنے والوں میں سے بنایا۔۔۔۔ مدد مانگنے والوں میں سے نہیں۔
حتی الامکان کوشش کریں کہ دینے والے بنیں!!!
آپ اللہ کے بندوں کو جتنا دیں گے اللہ تعالٰی اس سے دوگنا چوگنا کر کے آپ کو لوٹائیں گے۔
اللہ تعالی کسی کا احسان نہیں رکھتے وہ آپ کو نوازتے جائیں گے اور مزید نوازتے جائیں گے۔
اور ویسے بھی ایک بات گرہ سے باندھ لیں کہ جیسے مال مفت دل بے رحم ہوتا ہے ناں کہ جب کسی نے ہمیں کوئی چیز تقسیم دی کرنے کے لیے دی ہو تو ہم پرواہ کیے بغیر، تفتیش کیے بغیر تقسیم کیے جاتے ہیں۔ یہی معاملہ رکھیں۔۔۔۔۔
کیوں کہ آپ نے اللہ کے دیے ہوئے میں سے دینا ہے کون سا اپنے پلے سے دینا ہے۔ وہی اللہ آپ کوبھی عظا فرما رہا ہے۔ اسی نے اس شخص کو مدد کے لیے آپ کی طرف بھیجا ہے۔۔۔۔۔ سو دیتے جائیں، دیتے جائیں اور دیکھیں کس طرح آپ کی پریشانیاں، مشکلات ختم ہوتی ہیں۔
اکثر جب کسی کی مدد کرنے کی بات آتی ہے تو یہ کہا جاتا ہے کہ ہمارے اپنے مسائل ہی نہیں ختم ہوتے، اپنا خرچ پورا نہیں ہوتا۔ ہم دوسروں کی مدد کیسے کریں؟
دیکھیں! جب یہ سوچ رکھیں گے تو اللہ تعالٰی آپ کو اسی گھن چکر میں ڈالے رکھیں گے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
“اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں اپنے بندے کے گمان کے ساتھ ہوں اور جب وہ مجھے اپنے دل میں یاد کرتا ہے تو میں بھی اسے اپنے دل میں یاد کرتا ہوں اور جب وہ مجھے مجلس میں یاد کرتا ہے تو میں اسے اس سے بہتر فرشتوں کی مجلس میں اسے یاد کرتا ہوں اور اگر وہ مجھ سے ایک بالشت قریب آتا ہے تو میں اس سے ایک ہاتھ قریب ہو جاتا ہوں اور اگر وہ مجھ سے ایک ہاتھ قریب آتا ہے تو میں اس سے دو ہاتھ قریب ہو جاتا ہوں اور اگر وہ میری طرف چل کر آتا ہے تو میں اس کے پاس دوڑ کر آ جاتا ہوں۔”
(صحیح بخاری۔ کتاب التوحید:حدیث نمبر 7405)
اسی طرح جو اللہ کو جابر، حاکم سمجھتے ہیں اور جلالی صفات پر زیادہ گمان رکھیں گے۔ ان کےساتھ معاملات سخت ہوں گے۔ آزمائش در آزمائش ان کا مقدر ہوگی۔
جو اللہ کے رحمان، رحیم ہونے کا یقین رکھیں گےاور کریمی صفات پر زیادہ گمان رکھیں گے تو اللہ کو ویسا ہی پائیں گے۔
اللہ پاک فرماتا ہے کہ:
“میرا بندہ میرے ساتھ جیسا گمان رکھے گا میں اسی طرح اس کے ساتھ پیش آؤں گا۔ اگر یہ گمان رکھے گا کہ میں اس کے قصور معاف کر دوں گا تو ایسا ہی ہو گا ، اگر یہ گمان رکھے گا کہ میں اس کو عذاب کروں گا تو ایسا ہی ہو گا۔”
اللہ نے حقوق العباد میں بہت سے حقوق کے ساتھ فرائض بھی رکھے ہیں۔ رشتہ داروں پر خرچ کرنے کو احسن عمل قرار دیتے ہوئے یہ بتایا کہ اس سے رزق و روزی میں کشادگی کر دی جاتی ہے اور عمر میں اضافہ ہوتا ہے۔
رسول اللہ نے فرمایا کہ:
“رشتہ داروں پر خرچ کرنے کا دوگنا ثواب ملتا ہے۔ ایک تو قرابت داری کا اور دوسرا صدقہ خیرات کرنے کا۔” (صحیح بخاری 1466)
آپ کے رزق پر سب سے زیادہ حق آپ کے گھر والوں اور رشتہ داروں کا ہے۔ ان پر خرچ کرنا صدقہ و خیرات کرنے کے ضمرے میں آتا ہے۔ مگر افسوس صدقہ کرنے کے لیے ہم کسی فقیر کو ڈھونڈتے ہیں مگر پاس بیٹھے نادار رشتہ دار نظر نہیں آتے۔
آپ اپنی ذات کے علاوہ جس رشتے پر خرچ کریں گے۔ جس میں ماں باپ، بہن بھائی، بیوی بچے، باقی سب رشتہ دار آتے ہیں آپ کو دوگنا اجر ملے گا۔جس کی ضمانت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دی ہے۔
دوسروں سے محبت کریں، دل صاف رکھیں، نیت اچھی رکھیں، آسانیاں بانٹیں اور اگر کسی کو مدد کی ضرورت ہے تو اس کے بغیر کہےآگے بڑھیں اور اس کی مدد کی کوشش کریں۔
اگر کوئی خود آپ کو مدد کے لیے پکارے تو حتی الامکان کوشش کریں کہ اس کی داد رسی کریں۔ مایوس نہ کریں۔ انسان کے روپ میں اللہ تعالٰی نے آپ کے لیے ایک امتحان بھیجا ہے۔ اس امتحان میں سرخرو ہونے کی پوری کوشش کریں اور اللہ کو پا کر اپنے لیے آسانیاں سمیٹ لیں۔
اشفاق احمد صاحب نے فرمایا:
“اللہ تعالیٰ آپ کو آسانیاں عطا فرمائے اور آسانیاں تقسیم کرنے کا شرف عطا فرمائے۔”
یہ جملہ اپنے اندر پورا وزن رکھتا ہے۔
* کسی کی دل جوئی کریں دی،
* کام میں ہاتھ بٹا دیا،
* کوئی مشکل میں دیکھا اس کی مدد کر دی،
* کھانا کھا رہے ہیں تو ساتھ بیٹھے اجنبی یا جاننے والے سے بھی کھانے کا پوچھ لیااور بصد اصرار کچھ لقمے اسے کھلا دیے،
* کسی کو تنگ دست پایا تو چپکے سے اسے کچھ پیسے تھما دیے،
* راستہ چلتے دوسروں کو راستہ دینے کی غرض سے چند لمحے سائیڈ پر کھڑا ہو لیا،
* کوئی چیز خریدتے ہوئے بجائے دکاندار سے جھگڑنے کے اس کا حال چال پوچھ لیا، ہو سکتا ہے کتنی پریشانی میں ہو، دوسروں کو کھڑا پا کر ان کی سہولت کے لیے اپنی نشست سے اٹھ گئے،
* اس کے علاوہ اگر کوئی اپنے کسی مسئلے کے لیے آپ کو پکارے تو کوشش کی جائے کہ اس کو مایوس نہ کریں۔
اللہ سب کا حامی و ناصر ہو۔