Apka Vote, Apka Iman: Article on Pakistani Elections 2018 by Nadiah Zehri
آجکل ملک میں ہونے والے انتخابی سرگرمیوں کی وجہ سے ہر زباں پر ووٹ اور ووٹوں سے متعلق باتیں سر عام گردش کر رہی ہیں،ملک کی تمام چھوٹی بڑی پارٹیوں کے سر براہ اپنے محل نما گھروں سے نکل کر گلی کوچوں کا رخ کر رتے ہوئے بھوک مفلس اور غربت کے ماروں کے ساتھ خوب ہمدردیاں نبھا رہے ہیں
باوجود اسکے کہ یہ لمیٹڈ ہمدردیاں محض پچیس جولائی تک کے لیے مختص کی گئیں، مگر غربت کے بدنما چولے میں قید ملک کی آدھی عوام خوب خوب اِن لمیٹڈ ہمدردیوں سے فائدہ اُٹھانا چاہتی ہے، جبکہ دوسری طرف لٹھے کے کڑکڑاتے سوٹ اور بلٹ پروف گاڑیوں میں بیٹھ کر چند جاہل لوٹیرے خود کو ہر قیمت پر غربت کے مارے لوگوں کا خیر خواہ بتا کر اُنہیں ملک میں ہونے والے اُن تمام کاموں کی فہرست بتاتے ہیں جنہیں اُنہوں نے پچھلے سالوں اور پچھلی حکومتوں میں سر انجام دیا تھا، حالانکہ حقیقت تو یہ کہ کیئے گئے کام کبھی گنوائے نہیں جاتے، بلکہ وہ تو خود بخود نظروں میں آجاتے ہیں، اور صفایاں اکثر چور ہی پیش کرتے ہیں –
اگر بات ملکی سطع پر کیئے جانے والے ترقیاتی کاموں کے بارے میں کی جائے تو کوئی انہیں یہ بتائے کہ ایسا کرکے اُنہوں نے کیا نیا کیا –؟ ووٹروں سے ووٹ لیا ہی انہی کاموں کے لیے گیا تھا—پھر کیونکر یہ گنوائی –؟ پانچ سال قبل غربت مفلسی مٹانے کے نام پر جو ووٹ لوٹے گئے تھے وہ پانچ سال بعد مزید غربت و مفلسی میں ڈوبے لوگوں سے لوٹنے کی باری آتے ہی سارے لوٹیرے خود کو سچا ثابت کرنے کے لیے ہر تگ و تود آزما رہے ہیں، کوئی لفظوں کا کھیل کھیل رہا ہے، تو کوئی نحل سے بھی میٹھا بنا گھوم رہا کوئی نئے پاکستان والا ٹوٹکہ آزما رہا ہے تو کوئی پیسہ پھینک اور تماشہ دیکھ والی مثال کو اپنائے بے فکر و خوش باش بیٹھا ہے، ہر چند سبھی ٹرکس ایک سے بڑھ کر ایک ہے مگر شاید آخری زیادہ کار گر رہے گی، کیونکہ باقیوں کی نسبت آخری ٹرک افلاس کے ماروں کو زیاد اثر انگیز اور فوری لگتی ہے،جبھی شاید چند جاہل لٹیروں کے پاس ملک سنبھالنے جیسا بڑا اور حساس کام چلا جاتا ہے-
کہتے ہیں کہ غربت انسان میں رشتوں کی اصل پہچان کرواتا ہے، مگر کبھی کبھی غربت انسان کو اپنا اصل بھلانے میں بھی اہم کردار ادا کرتا ہے، ووٹ جسے قرآن اور حدیث کی رو سے شہادت یعنی (گواہی) اور امانت یعنی (ایمان) کا مقام حاصل ہے اُسے چند ٹکوں کی عیوض بیچ کر شاید ہی کوئی بندہ بعد میں پچھتایا ہو، ابھی اگر ماضی کھنگالنے کے لیے چند سال پیچھے چلی جاٶں تو مجھے بلاشبہ یاد ہے کہ سند کی ایک بڑی سیاسی پارٹی تین ہزار روپے کے نئے نکور نوٹوں کے ذریعے اپنا ایک ایک ووٹ خرید رہی تھی، اور بیچنے والے بھی خوشی خوشی بیچ رہے تھے اِس بات سے انجان کہ یوں ووٹ بیچنا مطلب ایمان بیچنا، اگر ان غربت کے ماروں کو کوئی یہ پوچھتا کہ آیا تین ہزار کی اتنی اوقات ہے کہ اُس کے لیے زندگی بھر کی جمع پونجی اور آخرت کا رک سک بیچا جائے –؟
دنیا کے جھمیلوں میں گم دنیاوی سوچ رکھنے والے اِس بات کی قطعی پرواہ نہیں کرتے کہ اُنکے ایک ووٹ سے کیا کچھ تبدیل ہوسکتا ہے ہاں مگر وہ اس ایک ووٹ کو بیچ کر اپنی آخرت ضرور تبدیل کروادینے ہیں،مطلب کسی بھی کرپٹ لیڈر کو ووٹ دے کر اقتدار میں لانا گویا اللہ کو حاضر ناظر جان کر اُسکے حق میں شہادت یعنی گواہی دینا کہ فلاں بندہ اب جو بھی کرے گا اُسکا ذمےدار میں ہونگا/ہونگی یہ گویا ایسا ہے کہ مخصوص بندہ اب جو بھی صیح غلط کرے گا اُس میں ووٹ دینے والا برابر کا شریک ہوگا، پھر چاہے وہ اچھے اقدامات ہوں یا برے اقدامات،قرآن پاک کی چوتھی سورہ میں اِسکا ذکر کچھ اس طرح سے کیا گیا ہے
“ﺟﻮ ﺷﺨﺺ ﺍﭼﮭﯽ ﺳﻔﺎﺭﺵ ﮐﺮﺗﺎ ﮨﮯ ﺗﻮ ﺍُﺱ ﻣﯿﮟ ﺍُﺱ ﮐﻮ ﺑﮭﯽ ﺣﺼﮧ ﻣﻠﺘﺎ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﺑﺮﯼ ﺳﻔﺎﺭﺵ ﮐﺮﺗﺎ ﮨﮯ ﺗﻮ ﺍُﺱ ﮐﯽ ﺑﺮﺍﺋﯽ ﻣﯿﮟ ﺍُﺱ ﮐﺎ ﺑﮭﯽ ﺣﺼﮧ ﻟﮕﺘﺎ ﮨﮯ ”
( ﺍﻟﻨﺴﺎء : ۸۵ )
یعنی جو شخص کسی قابل اور ایماندار بندے کو یا کسی اچھے عمل کو لے کر اچھی یہاں اچھی سے مراد نیک سفارش کرے گا،تو اُس عمل کے جو بھی خیر و برکات ہونگے اُس میں مطلوبہ بندے کا بھی حصہ نکلتا ہے یعنی برابر ثواب ملتا ہے-
اِسی طرح اگر کوئی شخض کسی جاہل بد اعمال بندے کو لے کر کسی عملِ بد کے لیے سفارش کرے گا تو اُس عملِ بد کے جو جو بھی اثرات مرتب ہونگے وہ مطلوبہ شخص پر برابر اثرانداز ہونگے –
اِس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ کوئی بھی انسان چند روپوں کے عیوض یا پھر کسی اور لالچ میں آکر کسی ایسے امیدوار کو اپنا ووٹ بیچتا ہے جو کسی بھی طور اسکا اِہل نہ ہو تو وہ بندہ/بندی شرعاً برائی کا ساتھ دے کر اپنے لیے دنیاوی مشکلات کے ساتھ ساتھ آخرت کا ایندھن بھی خرید رہا ہے، اور یوں بھی کسی نا اِہل کو ووٹ بیچنا گویا دنیا کی بدترین رشوت ہے-ہاں اس کے برعکس کوئی ایسا بندہ جو باقیوں کی نسبت قدرے بہتر لگتا ہو تو اُس کو ووٹ نہ دینا دینی اور دنیاوی لحاظ سے ملک کا حق ادا نہ کرنے والی بات ہو سکتی ہے – چونکہ ہمارے ہاں اکثریت ایسے لوگوں کی ہے جو اِنتخابی سرگرمیوں کو فقط کھیل سمجھ کر لُطف اُٹھاتے ہیں، اور یہیں وہ لوگ ہوتے ہیں جو جو کسی بھی نا اِہل حکمران کے پیچھے کھڑے پائے جاتے ہیں، کسی بھی نا اِہل اور کرپٹ حکمران کو ملک و قوم پر مسلط کرنے والے جانے انجانے میں پوری قوم کے حقوق پامال کر رہے ہوتے ہیں-
جبکہ دوسری طرف ایک بڑی تعداد ایسے لوگوں کی بھی ہے جنہیں اِن سرگرمیوں سے قطعی کوئی دلچسپی نہیں ہوتی اُنکی زندگی کا محور ان سرگرمیوں سے ہٹ کے اپنی ذاتی زندگی میں زیادہ ہوتا ہے اور ملکی سطع پر ہونے والے ان تمام اِہم معملوں سے اُنہیں کوئی سروکار نہیں ہوتا، یہاں سوال یہ اُُٹھتا ہے کہ کیا انکے یوں آنکھیں بند کرنے سے ملکی حالات ٹھیک ہوجائیں گے –؟اور ان میں کئی ایک ایسے لوگ بھی شامل ہیں کہ جو یہ سوچتے ہیں کہ انکے ایک ووٹ سے کیا تبدیلی آسکتی ہے –؟ تو کیا ایسے لوگ اِس بات سے انجان ہیں کہ ان کے اِسی ایک ووٹ کو کاسٹ نہ کرنے سے ایک کرپٹ لیڈر ملک پر مسلط ہوجاتا ہے!
تو پھر صاف ظاہر ہوا کہ چند بکے ہوئے لالچی بے ضمیر لوگوں اور چند غیر ذمےدار بے حس لوگوں میں کوئی فرق نہیں ایک پیسوں کے عیوض ملک بیچتا ہے تو دوسرا اپنے حق کا استعمال نہ کرکے ملک کو اسکے حق سے محروم رکھتا ہے، دونوں ظالم اور مظلوم کا سا کردار ادا کر رہے ہوتے ہیں –
یہاں یہ بات واضع رہے کہ ظلم برداشت کرنے والے لوگ بھی اللہ کے نزدیک اتنے ہی ظالم ہیں جتنا کہ ایک ظالم –!
کسی بھی اُمیدوار جو باقیوں کی نسبت قدرے سچا اور بہتر معلوم ہوتا ہو، جس کا منشور پاکستان کو بہتر سے بہترین کی طرف لے جانے کی بارے میں ہو، پھر چاہے وہ لفاظی بیانیے ہی کیوں نہ ہو اُس کو اپنے ووٹ سے محروم کرکے ایک طرف ہوجانے والے کیا اِس ملک میں آزاد سانس لینے کا حق ادا کر پا رہے ہیں —؟
کیا اُنکے یوں آنکھیں اور کان بند کرنے سے ملکی حالات ٹھیک ہوجائیں گے –؟ یا پھر کیا وہ یہ نہیں جانتے کہ یوں اپنے حق کا استعمال نہ کرکے وہ گناہ کبیرہ کر رہے ہیں –؟
اگر نہیں—! تو اپنے قیمتی وقت سے چند لمحے نکال کر سوچیے گا ضرور،کیونکہ کبھی کبھی ایک لمحے کی مثبت سوچ ساری .زندگی کی منفی خیالات کا نقشہ بگاڑ دیتی ہے، اور یوں بھی دیر سے آنے والے اکثر درست ہوتے ہیں –!