Allah Ki Takhleeq Duniya: Urdu Article by Sumra Akhlaq
Allah Ki Takhleeq Duniya: Urdu Article by Sumra Akhlaq
کیا صرف سمندر کے مقدر میں ہی یہ قلم بند ہے کہ گہرائیوں کا بادشاہ کہلائے؟ کیا بنائے گئے پہاڑ ہی خود میں قیمتی موتیوں اور جواہرات کو سمونے کا فن رکھتے ہیں؟ کائنات کی ہر ایک چیز اللہ کی تخلیق کردہ ہر شے اپنے اندر منفرد گہرائیوں کے ساتھ ساتھ بے تحاشا راز بھی پنہاں رکھتی ہے تاکہ انہیں پرکھا جائے اور جانچا جائے۔
تو کیا یہ ممکن ہے کہ جہاں بھر کو تخلیق کرنے والا پتھروں میں چھپے کیڑوں کو غاروں میں پوشیدہ حیوانات کو حتی کہ برفانی علاقوں کے حیوانات البذر کا واحد مالک جس نے ہمیں سب سے زیادہ عقل و شعور دیا ہے بے معنی پیدا کر دیا؟ ہر گز نہیں۔۔ ہم ہر دوجے لب سے یہی نصیحتیں سنتے ہیں پر اس سب کے باوجود ہماری کھوکھلی سماعت ہمیشہ سمجھنے سے انکار کرتی ہے. قدیم زمانے کے ہمارے بزرگوں میں سے جنہوں نے تدبر کیا اپنا سچ پا گئے اور امر ہوئے اور جنہوں نے فراموش کیا انکا نام و نشان تک باقی نہ رہا۔۔
اصل نعمت و مہربانی تو اپنے اندر کی گہرائی کو بھانپنا اور شگر گزاری ہے۔۔ ہم انسان شہرت و دولت، نفسا نفسی اور تن کی آسائش و آرائش کی خواہش لئے گھروں سے نکلتے ہیں بلکل اسی ریوڑ کی طرح جو صبح گھاس کی تلاش میں چرنے نکلتا ہے۔ ہاں میں یہ سمجھتی ہوں کہ بے لباس بھی رہنا ممکن نہیں اور بھوک بھی انتہائی اہمیت رکھتی ہے لیکن ان سب میں اعتدال نہ رکھنا ہمیں کوئی اور ہی مخلوق بنا دیتا ہے۔۔ جیسے بے زبان بے عقل جانور سے کیا توقع کہ جہاں زیادہ سبزہ دِکھے وہاں بسیرا ڈال لیے۔۔سوچے سمجھے بغیر کہ وہ جو جڑی بوٹی کو خوراک سمجھ رہا ہے زہریلی بھی ہو سکتی ہے جو جھٹ سے اسکا خاتمہ کردے۔۔ لیکن اسکی نا سمجھی بھی معاف کیونکہ وہ نادان ہے۔۔ لیکن اسکے برعکس ہم بھی تو ایسی ہی بے پروائی اور کم عقلی کا مظاہرہ کرتے ہیں اور شرمسار بھی نہیں ہوتے جبکہ ہمیں زہر اور شفا کی پہچان ہے۔۔
خیر اب تو یوں محسوس ہوتا ہے جیسے میرے الفاظ اور انکو پڑھتی آپکی آنکھیں اور سمجھتے ذہن بھی اس بدذہنی پر خاموشی اختیار کئے ہوئے ہیں۔۔لمبی خاموشی۔ مثال کہ جیسے نہ تبدیل ہوتے حالات انسان میں سرد مہری کا باعث بنتے ہے۔۔ بلکل ویسے ہی حد سے زیادہ درشتی انسان کو ضدی بنا دیتی ہے۔۔ یوں مسلسل کانوں میں پڑھتی نصیحتیں بھی اپنی جگہ نہیں بنا پاتیں۔۔ ہم سب بھی اسی مقام پر ا کھڑے ہیں جہاں ان گنت نصیحتوں نے ہمیں مشتعل کیا ہوا ہے۔ ہم اِنھیں رد کرنے لگے ہیں۔۔اور خود کو اندھیرے میں چھپا دینے کے عادی کر رہے ہیں۔۔ آفت و دشواریوں سے پیچھا چھڑا کر ہم سہولتوں کے خواہشمند ہوتے جا رہے ہیں۔ ہم اپنے وجود کی سچائی کی کھوج کو فراموش کئے گمراہی اپنائے نہ صرف خود کو بے وقت کر رہے ہیں بلکہ اُن نباتات اور حیوانات کے درجات سے کہیں زیادہ پست فطرت بنتے جا رہے ہیں
یقیناً ہر راہ سے واپسی ممکن ہے چاہے وہ راہ تاریک ہو یا روشن۔ اگر ہم اندھیری راہوں میں چلے گئے تو ٹھوکر ہی کھائیں گے پر کیا معلوم اندھیرا کب تک ساتھ رہےگا؟ کیا اسکے بعد اجالا آئے گا بھی کہ یوں ہی پڑے پتھروں سے ٹکراتے درد سہتے جائیں گے؟ یاد رہے کہ اندھیری ڈگری ہمیشہ غلط سمت لے جائے یہ ضروری تو نہیں۔۔ کبھی اندھیری رات گزر جانے کے بعد چمکتا دن بھی تو لاتی ہے۔۔ پر ہماری کوتاہی اور بے یقینی قدموں میں لڑکھڑاہٹ پیدا کئے
سیاہ رات کے بعد آنے والے اُجالے کو نظر انداز کر دیتی ہے اور ہم بے ہنگم ان روشنوں کی طرف رخ کردیتے ہیں جو بعد میں ہماری ہی آنکھیں چندھیا دیتی ہیں۔۔۔
پھر ہم اپنے گناہ اور ضمیر کے بوجھ کو اللہ کی مرضی فرض کئے سکون کے خواہاں ہو جاتے ہیں جو کبھی ملتا نہیں اور زندگی یوں ہی اضطراب کی نظر ہو کہ اپنے مخصوص وقت پر اختتام پذیر ہو جاتی ہے۔۔۔
جبکہ دوسری جانب جو لوگ اُجالے کی امید لئے مستحکم چلتے رہتے ہیں کیا لگتا ہے آپکو کہ انھیں مستقبل کی خبر ہوتی ہے؟ نہیں۔۔ صرف یقین انکا ساتھی ہوتا ہے۔۔ یقین کرنا خاصا مشکل نہیں لیکن اسے آپ اساں بھی نہیں کہ سکتے۔۔۔ نہ آگے کی خبر نہ اسکی آشنائی۔۔ بس تمام اسباب کو سبب دینے والی کی حکمت پر اعتماد انکی بیشتر الجھنوں کو سلجھانے کے لئے کافی ہوتا ہے۔۔ وہ اسکی خوشنودی کی گہرائیوں میں ڈوب کر اپنے وجود کے راز کو سلجھا لیتے ہیں لیکن یہ آساں نہیں پر ناممکن بھی نہیں۔۔ اور اگر اللہ چن کے تو پھر۔۔۔