Aik Shaira Ke Liye: Urdu Nazm by Parveen Shakir
ایک شاعرہ کے لئے – پروین شاکر
بھیڑیے اور ہرنی کی دوستی کبھی نہیں ممکن ہے
ذرا سی چھاؤں کی آس میں تُو نے
کیسے گھر کو چھوڑا
مانا کہ دیوار تھی کچّی
اور ٹپکتی رہتی تھی چھت
خواب گاہ میں شام شام تک دھوپ بھری رہتی تھی
لیکن وہ مٹّی جس پر یہ گھر اِستادہ تھا
جس پر تیرے پاؤں جمے تھے
وہ تو تیری اپنی تھی
سدا محبّت کرنے والی
ماں کی طرح تیرے سب تیکھے لہجوں کو
ہنس ہنس کے سہہ جاتی تھی
تیرا آنچل
جب بھی کسی کانٹے سے اُلجھا
یا تیری بے خبری میں سر سے ڈھلکا
کون تھا جس نے تیری ردائے عفّت ڈھونڈی
آندھی اور سیلاب کے بڑھتے ریلے میں
تیرے وجود کے ننّھے سے پتّے کو کس نے تھاما تھا
شہر کا شہر جب تجھ پہ باتیں کرتا تھا
کس نے تیرے سر پر ہاتھ رکھا تھا
جب بھی بارش تیز ہوئی تو تیری خاطر
کس کے بازو پھیلے تھے
جب بھی زور ہوا نے باندھا
تیرے گھر کے سارے دِیوں کو کس نے جلائے رکھا تھا
تیرے اِک اِک شعر کو کس نے سرمۂ چشم بنایا تھا
آج وطن پر وقت پڑا تو
تجھ کو اپنا مستقبل تاریک دکھائی دینے لگا
ماں کی خدمت
پھولوں اورتحفوں سے کب ہو سکتی ہے
اُسے تو تیرے لمس کی حدّت ہے درکار
تجھے نئی دُنیا کی مبارکباد
مگریہ بات گرہ میں باندھ کے رکھ لے
جس جنگل کو تُو نے اپناگھرسمجھا ہے
بھیڑیوں اور ریچھوں سے بھرا پڑا ہوا ہے