Ae Naya Saal Bataa: Urdu Article by Sobia Imran
Ae Naya Saal Bataa: Urdu Article by Sobia Imran
ہم ہر نئے آنے والے سال کو بہت جوش و خروش سے خوش آمدید کہتے ہیں جیسے آنے والا سال سب کچھ بدل کر رکھ دے گا لیکن ہم بھول جاتے ہیں کہ ہم کس ملک میں رہ رہے ہیں یہاں نہ نظام بدلنے والا ہے نہ حالات بدلنے والے ہیں ۔ایسے ہی کتنے سال امیدوں کے نظر رہ گۓ۔ فیض احمد فیض نے ٹھیک ہی کہا تھا۔
اے نیا سال بتا تجھ میں نیا کیا ہے؟
ہر طرف خلق نے کیوں شور مچا رکھا ہے
روشن دن کی وہی تاروں بھری رات وہی
آج ہم کو نظر آتی ہے ہر بات وہی
آسماں بدلا ہے نہ بدلی ہے افسردہ ذمین
ایک ہندسے کا بدلنہ کوئ جدّت تو نہیں
پچھلے برسوں کی طرح ہونگے قرینے تیرے
کسے معلوم نہیں بارہ مہینے تیرے
بے سبب لوگ دیتے ہیں کیوں مبارک بادیں
سب کیا بھول گۓ وقت کی کڑوی یادیں
تو نیا ہے تو دکھا صبح نئ شام نئ
ورنہ ان آنکھوں نے دیکھے ہیں نۓ سال کئ
فیض احمد فیض کے یہ اشعار مجھے مچّھ سانحے پر شدّت سے یاد آۓ۔ ابھی نئے سال کی شروعات ہوئۓ دن ہی گزرے تھے کہ مچّھ سا نحہ ہو گیا ہماری قوم کے لوگ ہزارہ پر ایک غم کا پہاڑ ٹوٹ پڑا بہت ہی افسردہ دل سوذ واقعہ پیش آیا ۔ کوئلے کی کان میں کام کرنے والے مزدوروں کو بے دردی سے قتل کر دیا گیا جن کا قصور یہ تھا کہ وہ ریاست مدینہ پاکستان میں اپنے گھر والوں کا پیٹ پالنے کے لیے رات گئے کام کر رہے تھے اور واپسی پر ان کو قتل کرکے ذبح کردیا جاتا ہے۔اس خبر نے پورے ملک کو افسردہ کردیا ہے ۔
آج چار روز گزر گئے شہداء کی فیملی میّت کو سامنے رکھ کر احتجاج کر رہی ہے کہ ریاست مدینہ کا حکمران آئے اور انکو دلاسہ دے۔ یہ حکّام بات کرتے ہیں حضرت عمر کے ریاست کی۔کیا ایسی تھی انکی ریاست، انکی ریاست میں توجانور بھی بھوکا نہیں سو سکتا تھا ۔ لوگ نڈر اور بےخوف ہو کر گھر سے نکلتے تھے کیونکہ ان کو پتا تھا کہ ریاست کا بانی حضرت عمر ہے اور عمر جب تک زندہ ہے کوئ انکو نقصان نہیں پہنچا سکتا۔
ایک ہماری حکمران ریاست مدینہ کا دعوی کرنے والے انکی اپنی ہی ریاست میں دس لوگوں کو بے دردی سے شہید کر دیا گیا لیکن حکام بالا کے کان میں جوں تک نہ رینگی۔2013 میں ایسا ہی ایک واقعہ پیش آیا تھا اس وقت کے صدر آصف علی ذرداری تھے اور یہ ہمارے وذیر اعظم دھرنے میں موجود تھے انکا کہنا تھا کہ جب تک صدر آصف علی ذرداری نہیں آئنگے ہم دھرنے ميں ہی رھینگے۔
اور جب آپ اس ریاست کے وزیراعظم ہیں تو ریاست کے عوام آپ کو یاد کر رہی ہیں آپ سے امید لگاۓ بیٹھی ہے کہ آپ اسے دلاسہ دیں وہ آپ سے یہ یقین چاہتی ہے کہ آپ دہشت گرد کو پکڑ کر سزا دینگے۔انکے اپنے تو جا چکے پھر کسی کا اپنا نہ بھچڑے۔ مچّھ سانحہ پر ہر ایک آنکھ اشک بار ہے۔ کسے کے معصوم بچّوں کا باپ چلا گیا کہیں چھ بہنوں کا اکلوتا بھائ رخصت ہوگیا ۔ حیرت کی بات تو یہ کہ وہاں وساۂل نہ ہونے کے باوجود لوگوں میں امید لگن جوش و ولولہ سب ذندہ ہے یہاں تک کہ تعلیم بھی ۔
اس خبر نے سب کورلا کر رکھ دیا کہ بلوچستان میں میٹرک کے امتحان میں تیسری پوزیشن حاصل کرنے والامشتاق حسین جو اپنے تعلیمی اخراجات خود اٹھا رہا تھا لاک ڈآؤن میں ماں باپ کا سہارا بننے کے لیے کوئلے کی کان میں نوکری کر رہا تھا جس کا مستقبل روشن ہوتے ساتھ ہی بجھ گیا اور وہ بھی ظالموں کے ہاتھوں شہید ہو گیا ہزارہ کے لوگوں کی آنکھوں میں ایک ہی سوال ہے کہ ان کا قصور کیا تھا آخر کب تک ان کے ساتھ ظلم و ستم یونہی ہوتا رہے گا۔
میرا تعلق کسی فرقے سے نہیں لیکن انسانیت سے ضرور ہے۔ اسی واقعے کے دوران ہی ایک اور سانحہ اسلام آباد میں پیش آیا کہ نوجوان بچے کو پولیس اہلکار کے اشارے پر گاڑی نہ روکنے پر گولیوں کا نشانہ بننا پڑا۔ یہ ہیں ہمارے مافظ ۔ دوسرے ملکوں میں جہاں پولیس کھڑی نظر آتی ہے وہاں کے باشندے اپنے آپ کو محفوظ سمجھتے ہیں لیکن ہمارے ملک میں جہاں پولیس کھڑی نظر آتی ہے ہم اپنےآپ کو غیر محفوظ سمجھتے ہیں ۔کیونکہ عوام انکے روکنے سے اچھی طرح واقف ہو چکی ہے۔ عوام کو پتہ ہے یہ انکے محافظ کم اپنی جیب کے محافظ ذیادہ ہیں ۔یہ ہے ہمارے نئے سال کے شروعات۔ ہم بھول گۓ کہ ہم کس معاشرے میں رہ رہے ہیں جہاں صرف باتوں سے سب بدل جاتا ہے لیکن عمل سے کچھ بھی نہیں بدلا جاتا ہے۔
شہر کی حفاظت گر وحشیوں نے کرنی ہے
زہر بانٹھ دیجیۓ پھر شہر کے مکینوں میں
Article reproduced on request by Author and may be published on other websites also.