Acha Burraa Insaan aur Humara Nizam: By Zohaib Shah
Acha Burraa Insaan aur Humara Nizam: By Zohaib Shah
“اچھا، برا انسان اور ہمارا نظام”
ہم بچپن سے یہی سنتے ہوئے آئے ہیں كے معاشرے میں دو طرح كے لوگ ہوتے ہیں ایک اچھے اور دوسرے برے . اب ان دونوں کا فرق کچھ اِس طرح سے سمجھایا گیا كے اچھا انسان وہ ہے جو صوم و صلوٰۃ کا پابند ہو ، جو ہمیشہ سچ بولتا ہو ، جو وعدہ خلافی نا کرتا ہو وغیرہ وغیرہ . اور برا انسان وہ ہے جو چوری کرتا ہو ، جو جھوٹ بولتا ہو ، اور جو دوسروں کا حق کھاتا ہو . اب میرے کم عقل ذہن میں یہ سوال آیا كے وہ شخص جو پانچ وقت کا نمازی ہے مگر لوگوں کا حق بھی کھاتا ہے وہ اچھا ہے یا برا ؟؟ اور ایک وہ شخص جو کسی کا حق نہیں کھاتا مگر نمز کا پابند بھی نہیں ہے تو کیا وہ اچھا ہے یا برا؟؟
اچھائی اور برائی کا فرق ہم خود کرتے ہیں اور افسوس کے ساتھ دوسروں کے اچھے اور برے ہونے کا فیصلہ بھی ہم ہی کرتے ہیں۔ انسان کو یہ خود معلوم ہوتا ہے کہ وہ اچھا ہے یا برا مگر یہاں بات یہ ہے کہ اچھائی اور برائی کی تعریف سب کی مختلف ہوتی ہے ۔ ایک شخص جس کو معلوم ہے کہ میں ناجائز کما رہا ہوں مگر مطابق اس کے چونکہ یہ اس کا کاروبار ہے اور کاروبار میں اتنا تو چلتا ہے تو اس کے لئے وہ اچھا انسان ہے مگر زمانے کے لئے برا۔ ایک اور سوال یہاں یہ آتا ہے کہ اگر سب کو یہ لگتا ہے کہ وہ اچھا ہے تو پھر برا کون ہے ؟؟
ایک پہلو یہ بھی ہے کہ یہاں سب کچھ نظام پر ڈال دیا جاتا ہے کہ جب تک نظام ٹھیک نہیں ہو گا لوگ ٹھیک نہیں ہوں گے ۔ نظام برا ہے تو لوگ برے ہیں اور نظام اچھا ہے تو لوگ اچھے ہیں۔ ایک مثال ہے جس کا استعمال روزمرہ میں تسلسل کے ساتھ کیا جاتا ہے کہ “ ایک گندی مچھلی پورے تالاب کو گندا کر دیتی ہے”۔ مثال ہے بھی ٹھیک اور یہی حقیقت بھی ہے مگر سوال یہ ہے کہ کیا کبھی کسی نے یہ سوچا کہ اب اس گندے تالاب کا کیا کرنا ہے؟ میرے کم عقل ذہن کے مطابق اس کے دو ہی حل ہیں، پہلا وہ جو عام ہے ہمارے معاشرے میں اور ایسا ہی ہوتا ہے کہ جیسے چل رہا ہے ایسے ہی چلنے دیا جائے یعنی کہ تالاب کو گندا اور گندی مچھلی کو اندر ہی رہنے دیا جائے۔ اور دوسرا حل ہے تالاب کو صاف کیا جائے، اب صفائی کے دو طریقے ہیں ایک آسان اور ایک مشکل
آسان طریقہ یہ ہے کہ اس گندی مچھلی کو باہر نکال پھینکا جائے اور تالاب کے صاف ہونے کا انتظار کیا جائے ۔ طریقہ بظاہر تو آسان لگتا ہے مگر ایک تو اس میں وقت درکار ہے اور دوسرا یہ کہ جس مچھلی نے تالاب کو گندا کیا اس کی گندگی کا اثر باقی مچھلیوں پر بھی پڑا تو ہو گا۔ اس اثر سے بچنا اور اس کو اپنا لینا بھی آپ کے اچھے اور برے ہونے کا فیصلہ کرتا ہے ۔ آگے بڑھنے سے پہلے یہ بات میں واضح کرتا چلوں کہ یہاں بات اگرچہ مچھلی اور تالاب کی ہو رہی ہے مگر درحقیقت بنیادی توجہ نظام اور اس میں موجود انسانوں پر مرکوز کی گئی ہے
اب بات کرتے ہیں صفائی کے اس دوسرے طریقے کی جو نہ تو یہاں اختیار کیا جاتا ہے اور نہ ہی اس کے کوئی خاص خواہشمند دکھائی دیتے ہیں۔ کامیاب ممالک کے کامیاب ہونے کی بھی ایک وجہ اس طریقہ کو اختیار کرنا ہے۔ اب وہ صفائی کا طریقہ یہ ہے کہ تالاب ہی بدل دیا جائے۔ تالاب بدلنے سے مراد تالاب میں موجود گندا پانی نکال کر صاف پانی سے تبدیل کر دیا جائے ۔ اور اگر دوسرے الفاظ میں کہا جائے تو نظام بدلا جائے ۔ طریقہ کار کچھ یوں کہ گندی مچھلی کو نکال پھینکنے کے بعد اس تالاب کا گندا پانی نکالا جائے اور صاف پانی ڈالا جائے ۔ اس تبدیلی کے عمل کے دوران مچھلیوں کو چند لمحے بغیر پانی کے تڑپ تڑپ کر گزارنے پڑیں گے اور ممکن ہے اس میں چند کی موت بھی واقع ہو جائے ، مگر جیسے ہی صاف پانی بحال کیا جائے گا تو فوراً ہی ان کی تڑپ دور ہو جائے گی اور انہیں تالاب اور بالخصوص صاف تالاب کی نعمت کا اندازہ ہو گا۔
بنیادی موضوع پر توجہ مرکوز کی جائے اب تو یہ بات یہاں واضح ہوئی کہ نظام کی تبدیلی قربانیاں مانگتی ہے اور افسوس کہ قربانی ہم سے دی نہیں جاتی۔ بات ہو رہی تھی اچھے اور برے انسان کی تو یہاں سوال یہ آتا ہے کہ قربانی دینے والا اچھا ہوگا یا برا؟ میرے نزدیک اس کا جواب کچھ اس طرح ہے کہ اگر نظام کی تبدیلی کا مقصد اچھا ہے تو قربانی دینے والا اچھا ہے اور اگر مقصد برا ہے تو قربانی دینے والا بھی برا۔ مختصراً یہ کہ اگر ہر کوئی صرف اپنی زمہ داری لے، خود کو اچھا رکھے، دوسروں کو نہ گندا کہے اور نہ گندا کرے تو نظام بدلنے کی نوبت ہی نہیں پیش آئے گی اور نہ ہی قربانیاں دینی پڑیں گی
مگر افسوس کہ ہم ایک گندے نظام میں ہی رہتے چلے جاتے ہیں کیونکہ نہ ہم قربانیاں دینے کے لیے تیار ہیں اور نہ ہی گندی مچھلی کو باہر نکالنے کے لیے تیار ہیں ۔ یہ بات لکھ لی جائے کہ جب تک ہم خود صحیح نہیں ہوں گے اور ہمیں اچھے برے کا فرق واضح نہیں ہو گا نہ ہم کامیاب ہوں گے اور نہ ہمارا نظام تبدیل ہوگا۔۔۔۔۔۔۔
تصنیف کردہ:
سید محمد زوہیب شاہ