شخصیت قلندر لعل شہباز رح تحریر: سید فصیح رضوی Faseeh Rezavi
سرکار شہباز قلندر رح شخصیت پر سوشل میڈیا پر کافی بحث ہوتی رہتی ہیں جن میں کوئی ان کو شیعہ ثابت کرتا ہے تو کوئی سنی کوئی اور کوئی ان کی شخصیت پر غلو ، اور الوہیت کے الزام بھی تراشتا نظر آتا ہے ، جب کہ کسی کے پاس بھی مثبت دلیل نہیں ہوتے مگر صرف دو شعر یا اپنے مذھب اور مسلک کی کتاب کا حوا دے کر اپنا موقف ثابت کرتا ہے
یہ بات سچ ہے کہ قلندر سرکار کے نام، شجرہ ، القابات ، شاعری اور شاعری کے تخلص تک ان سب میں دو یا دو سے زیادہ رائے پائی جاتی ہیں ، کوئی انکا نام عثمان لکہتا ہے تو کوئی شاھ حسین ، کوئی انکا شجرہ امام حسین (ع) کے روضہ کے مجاور ابراھیم مجاور سے ملاتا کر شیعہ کہتا تو کوئی انکو اسماعیلی کہتا ہے۔
سرکار قلندر کی اپنی کوئی کتاب ابھی تک ظاھر نہیں ہوئی جو انکی شخصیت، تاریخ اور شاعری پر مشتمل ہو انکی جو کتب انکی تاریخ پر انکی درگاھ کے منسلک لوگوں نے لکھی ہے وہ شیعہ اور صوفی مذھب سے تعلق رکھتے ہیں، جس میں انکے کئی متنازع پہلو نکات پائے جاتے ہیں جن سے انکی شخصیت ایک صوفی اور شیعہ کے درمیان دکھائی دیتی ہے ۔
دوسری طرف اگر آپ خود انکی درگاھ پر موجود معلوماتی بورڈ کو ہی پڑھیں تو وہاں پر لکھا ہے کہ وہ ایک شیعہ عالم تھے جن کی علم ابجد، علم میزان صرف اور علم نحو کے عالم تھے اور انہی علوم پر انکی تحریری کتب ہیں۔ جو کہ کسی صوفی یا غیر شیعہ ہونے کی نشاندھی کرتی ہیں ، جو کہ سندھ کی تاریخی کتب جیسے چچ نامہ وغیرہ میں بھی مرقوم ہیں ۔ قلندر شہباز سے منسوب شاعری میں سے صرف وہ شاعری جن میں انہوں نے اپنا لقب “عثمان مروندی” لکھا ہے اسے انکی اپنی ذاتی تحریر مانا جاتا ہے جس میں محبتِ اہلبیت ع کا عنصر پایا جاتا ہے، اور ان کا مشھور کلام ” حیدریم قلندرم مستم” جس میں بارہ اماموں اور چودہ معصومین علیہم السلام کی شان میں الگ الگ مصرع کہے اور مدح اھلبیت ع کے علاوہ ایک بھی شعر نہیں کہا جس سے ان کی والہانا محبت اور عشق کا ثبوت ملتا ہے جیسا کہ اے دل بیاد و ذکر شاہ بوتراب کن آباد ساز کعبہ و خیبر خراب کن اے دل تو شاہ بوتراب (امام علی ع) کا ذکر کیا کر کہ جو دل انکا ذکر کرے وہ کعبہ بن جاتا ہے جو نہی کرتا وه خیبر کی طرح خراب ہوجاتا ہے. خاک عدو بعدده از گرد دلدلش و از آب تیغ او دگر خس ماب کن علی (ع) کے دلدل کی سموں کی اڑائی ہوئی مٹی سے دشمن خاک میں مل جاتے ہے ہیں اور آپ کی تلوار آب سے دشمن کا کلیجہ کٹ جاتا ہے.
جام مہر علی ز در دستم بعد از جام خوردم مستم کمر اندر قلندری بستم از دل پاک حیدری ہستم حیدریم قلندرم مستم بندہ مرتضٰی علی ہستم میں نے حضرت علی کی محبت کا جام پیا پینے کے بعد میں مست ہو گیا میں نے قلندری کے میدان میں قدم رکھا دل و جان سے میں حیدری ہو گیا میں حیدری ہوں قلندر ہوں مست ہوں میں علی مرتضی’ (ع) کا بندہ ہوں۔ دیوان قلندر #حرف_آخر ان تمام شبھات سے ظاھر ہے کہ محبت اھلبیت ع کی بنیاد سرکار قلندر کی علمی اور عرفانی شخصیت کو مسخ کیا گیا ہے اور آج بھی ان کی تعلیمات کو عام کرنے تحقیق کرنے اور ان کو نشر کرنے کی بجائے ان کی شخصیت کو ایک عام غیر مھذب اور غیر مذھب صوفی کے طور پر نشر کیا جارہا ہے ۔ حقیقت میں قلندر کون تھا اور لوگوں کا بنایا ہوا کون ہے اس پر تحقیق کی جائے تو زیادہ بھتر نتائج حاصل ہوسکتے ہیں ، اور جس شخص میں محبت اھلبیت اور علمی کاوشوں کا عنصر ملتا ہو اس کی حقیقت کو دھونڈنا لازم ہے اور ایسی شخصیت پر الزام تراشی سے پرہیز کی جائے، جس کی متفقہ اور تصدیق شدہ شاعری میں صرف اور صرف عشقِ علی (ع) اور اولاد علی (ع) کا نشہ چھلکتا ہو اس شخصیت میں نصیرت اور غلو جیسے منفی پہلو کا ہونا ممکن ہی نہیں۔ اللہ ہمیں اولیاء اللہ کی محبت اور معرفت نصیب فرمائے۔